شہر میں اپنا تجھے جان کے چپ بیٹھے ہیں
دیکھ ہم تیرا کہا مان کے چپ بیٹھے ہیں
چادرِ غم کے سوا ہم کو نہیں کچھ بھی ملا
سر پہ ہم ایک یہی تان کے چپ بیٹھے ہیں
ختم ہوتی تھی نہ باتیں کبھی اپنی اب تو
ساتھ جیسے کسی انجان کے چپ بیٹھے ہیں
بول کر ساتھ زمانے کو ملا نہیں لیکن
ہم مطابق ترے فرمان کے چپ بیٹھے ہیں
پہلے اک چوٹ پہ سب اپنے تڑپ اٹھتے تھے
اب تو ہم بے کسی درمان کے چپ بیٹھے ہیں
بولنے کا تو یہی وقت ہے لیکن ہم لوگ
جانے کیا سوچ کے کیا ٹھان کے چپ بیٹھے ہیں
اپنا یہ شہر صنمؔ کم تو نہیں زندان سے
بیچ میں ہم اسی زندان کے چپ بیٹھے ہیں
٭٭٭