وابستۂ رنگ و بو رہے ہیں
ہم بھی گلِ جستجو رہے ہیں
جب بھی چھوا ایک گل بدن کو
ہم صورتِ مشک بو رہے ہیں
خاموش گزر گئے جو لمحے
وہ حاصلِ گفت گو رہے ہیں
ہم دیکھ نہیں سکیں ہیں لیکن
جلوے ترے چار سُو رہے ہیں
شاید تو ابھی ادھر سے گزرے
یہ سوچ کے با وضو رہے ہیں
تحقیر سے دیکھیے نہ ہم کو
ہم شہر کی آبرو رہے ہیں
آیا نہ راس کوئی موسم
ہر فصل میں بے نمو رہے ہیں
معلوم نہیں کہ زندگی میں
ناکام کہ سرخ رو رہے ہیں
کیا حال سنائیں اپنا طاہرؔ
ہم تشنۂ آرزو رہے ہیں
٭٭٭