کیا دل کی کتھا سایۂ دیوار سے کہنا
بکتے نہیں کچھ لوگ خریدار سے کہنا
آنکھوں سے نہ چھلکے کبھی ساون کی طرح سے
ہونٹوں پہ نہ آئے کہیں آزار سے کہنا
کچھ ہار کے اسباب میں شامل رہی آنکھیں
کچھ اس بھی تھا زنگ یہ تلوار سے کہنا
کہنا کہ انا زاد ہیں کشمیر کے باسی
بس اپنی حدوں میں رہے سرکار سے کہنا
اب دردِ مسیحائی بہت ہم نے سہا ہے
بھر آئیں گے یہ زخم بھی غم خوار سے کہنا
اک تِشنہ لبی ساتھ جو کربل سے چلی ہے
یہ غم بھی اثاثہ ہیں عزادار سے کہنا
اب اذنِ تمنا بھی مرے دل کو نہیں ہے
اب لوٹ کے جائے یہ طلب گار سے کہنا
**