گورنمنٹ بوائز انٹر کالج میرپورہ '' کا پہلا ادبی و علمی مجلہ ''بساط '' (۲۰۲۰ء) منظر عام پر آنے کے بعدبہت مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔ اس کے سرپرست کالج کے پرنسپل جناب پروفیسر محمد رفیق ہیں ۔ مدیر اعلا '' فرہاد احمد فگارؔ اور مدیر '' ملک مبشر احمد '' (لیکچرر کمپیوٹر) ہیں۔ یہ مجلہ محمد سعید اسعد کی زیر نگرانی شائع ہوا۔ مجلس مشاورت میں '' سید معراج جامی (کراچی)، راجا شوکت اقبال (مظفرآباد)، ڈاکٹر ماجد محمود (راولاکوٹ)، ڈاکٹر یوسف میر (مظفرآباد)، پروفیسر اعجاز نعمانی (مظفرآباد)، پروفیسر عابد محمود عابد (میرپور)، پروفیسر مسعود ساگر (کوٹلی)، پروفیسر آصف اسحاق (پلندری)، اقبال اختر نعیمی (نیلم) اورخاور نذیر (ہٹیاں بالا) سے شامل ہیں۔
یہ مجلہ ۱۱۲ صفحات پر مشتمل ہے جس میں حصہ نثر اور حصہ نظم شامل ہے۔ مجلے کا آغاز ڈاکٹر خواجا عبدالرحمان (ناظم اعلا تعلیم، کالجز آزادکشمیر) کے پیغامِ تہنیت سے ہوتا ہے جس میں ادارے کی اس علمی و ادبی کاوش کو سراہا گیا اور اس کے آغاز کو خوش آئند قرار دیا۔ اس کے بعد فرہاد احمد فگارؔ '' عرض فگار '' کے عنوان سے اس مجلے کی اشاعت تک کے سفر کو نہایت خوب انداز میں بیان کرتے ہیں اور ان احباب کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے اس کاوش میں تعاون کیا۔
آغاز میں گُل بخشالوی (کھاریاں) کی حمد باری تعالی شامل ہے جس کا مقطع ملاحظہ کریں:
تیری خوش بو ملے جو کعبے میں
حشر میں گلؔ بھی سرخ رو چمکے
حمد کے بعد پروفیسر ڈاکٹر شفیق انجم (بھمبر) کی نعت رسول مقبول ﷺ شامل ہے مطلع ملاحظہ کریں:
طلوع ماہِ منور سے روشنی ہوئی ہے
زمین تابہ فلک نور سے بھری ہوئی ہے
اس کے بعدپرنسپل پروفیسر محمد رفیق کا انٹرویو شامل ہے ۔ انٹرویو پینل نے سربراہ ادارہ کی زندگی اور اس ادارے کی خدمات کے متعلق سوالات کیے جس کے تسلی بخش جواب دیے گئے۔ بشارت خان کیانی '' مختصر تاریخ انٹرکالج میرپورہ ضلع نیلم '' کے عنوان سے اس کالج کی تاریخ پر اور اس کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہیں۔محمد سعید اسعد کا افسانہ '' بستی کا المیہ '' بھی شامل ہے ''۔ احمد عطا اللہ کی غزل گوئی '' ڈاکٹر محمد صغیر خان (پرنسپل گورنمنٹ ماڈل سائنس کالج راولاکوٹ) کا خاص مضمون شامل ہے جس میں فرہاد احمد فگارؔ کی اس تحقیقی کاوش کو سراہا گیا اور احمد عطااللہ کی غزل گوئی کو خوب صورت انداز میں پیش کیا گیا۔ بزمِِ اقتصاد کے عنوان سے سالک محبوب اعوان (ماہرِ مضمون معاشیات) علم معاشیات پر تفصیلی روشنی انتہائی خوب صورت انداز میں ڈالتے ہیں ۔ پروفیسر اعجاز نعمانی صاحب اپنے مضمون '' احمد عطااللہ ایک رومانوی شاعر '' میں ان کی شخصیت اور شاعری کو منفرد اُسلوب کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ '' املا و تلفظ کی عمومی اغلاط '' میں فرہاد احمد فگار اردو ادب میں غلط استعمال ہونے والے الفاظ کی نشان دہی کرتے ہیں اس کے اصل تلفظ کو مثالوں کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ '' میں اور حسن فرذوق '' کے عنوان سے قمر عباس ،حسن فرزوق کے شعری مجموعے پر مضمون قلم بند کرتے ہیں ۔'' کشمیر کاجری سپوت '' میں عبدالبصیر تاج وَر کشمیر سے تعلق رکھنے والی اہم ہستی گاما پہلوان کا تعارف پیش کرتے ہیں۔ '' میرپورہ کالج کے طلبہ کی اساتذہ سے محبت و لگن '' کے عنوان سے بشیر الدین چغتائی اس ادارے کے طلبہ کی اساتذہ سے محبت کا نمونہ پیش کرتے ہیں ۔ سائرہ ارشاد قریشی '' شمع اسلام جس سے فروزاں ہوئی '' کے عنوان سے محرم الحرام کی حرمت کو بیان کرتی ہیں۔ ’’کوہِ ادب کا فرہاد ‘‘ اس مضمون میں رانا سجاد اپنے استاد محترم فرہاد احمد فگارؔ کی ادبی کاوشوں اور فہم و فراست پر جذبات قلم بند کرتے ہیں۔
'' ہماری قومی زبان اردو '' کے عنوان سے قدیر احمد قومی زبان کی اہمیت و افادیت کو مٹھاس بھرے لہجے میں بیان کرتے ہیں ۔ سر سید احمد خاں کا مضمون '' گزرا ہوا زمانہ '' بھی اس مجلے میں شامل ہے جسے دوازدہم کے طالب علم سیدشفقت حسین نے انتخاب کیا۔ '' نیلم کا قلعہ بازی گروں کا شہر '' کے عنوان سے عقیل احمد ڈار ایک افسانہ بیان کر رہے ہیں جس کا مرکزی کردار شہزادے کی زندگی ہے۔ '' غصہ '' کے عنوان سے سفیان احمد اپنے اس مضمون میں غصہ کیا ہے؟ اور اس کے اثرات کو بیان کرتے ہیں۔ افسانہ '' چین کی شہزادی '' کو عبدالقدیر اعوان خوب صورت انداز میں پیش کرتے ہیں۔ غلام عباس کا افسانہ '' سایہ'' کو اس مجلے میں عدیل احمد انتخاب کرتے ہیں۔ قوانین اور نظم و ضبط کی اہمیت کو زبیر بشارت اپنے مضمون '' نظم و ضبط اور قانون کا احترام '' میں منفرد انداز میں پیش کرتے ہیں۔
وادی نیلم کے موسمی حالات کو مختصرا الفاظ میں راجا زبیر طارق اپنے مضمون '' وادی نیلم کے موسمی حالات '' میں بیان کرتے ہیں۔ وادی نیلم کے مشہور پھلوں کو راجا حماد اپنے مضمون '' وادی نیلم کے اہم پھل '' میں بیان کرتے ہیں۔ ہم سایہ کے عنوان سے رابعہ اعوان پڑوسیوں کے حقوق کو بیان کرتی ہیں۔ ۱۹۶۵ء میں ہونے والی پاک بھارت جنگ کا احوال زبیر احمد اپنے مضمون '' ۱۹۶۵ء کی جنگ '' میں منفرد اسلوب کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ محسن انسانیت حضرت محمدﷺ کے یوم ولادت کے حوالے سے منعقدہ کالج کی تقریب کی روداد سید شفاقت حسین شاہ کاظمی اپنے مضمون '' محسن انسانیت ﷺ '' میں بیان کرتے ہیں۔ قومی اتفاق کی اہمیت کو کبیر سلہیریا اپنے مضمون '' قومی اتفاق '' میں مختصرا اور جامع الفاظ میں پیش کرتے ہیں ۔ '' اتحاد بین المسلمین '' کے عنوان سے کامران خان امت مسلمہ کے اتحاد بین المسلمین کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔'' حیا ایمان سے ہے '' اس مضمون میں میر عدیل اسماعیل آزاد حیا کا تعلق ایمان سے ظاہر کرتے ہیں۔ رسول ﷺ کی ابتدائی زندگی اور اہم واقعات کو شہباز صادق اپنے مضمون '' رسول ﷺ کی ابتدائی زندگی '' میں بیان کرتے ہیں۔ محمد صدیق اپنے مضمون '' تحریک علی گڑھ '' میں سرسید احمد خاں کی اس تحریک کا پس منظر، اس کا آغاز ،سرسید کی مذہبی خدمات اور سر سید احمد خاں کی تصانیف پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ راحیلہ فرید اپنے مضمون '' بچوں کا ذہنی جذبہ '' کے عنوان سے بچوں کی تربیت اور اسلامی واقعات کو بیان کرتی ہیں۔ سرفراز سرور اپنے مضمون '' خاندان '' میں کنبے کی تعریف اس کی اہمیت اور پھر عورت کا معاشریمیں مقام کو نہایت خوب صورت انداز میں پیش کرتے ہیں۔ '' ادھوری خواہش '' کے عنوان سے مبشر حسین '' نوید '' کی ادھوری خواہش کو بیان کرتے ہیں۔ ہیر رانجھا کی داستان کو میر نیاز احمد اپنے مضمون میں خوب صورت انداز کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ '' درودمقدس '' میں کشورنذیر اعوان درودمقدس کی اہمیت اس کے فیوض برکات عمدگی کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔'' کالج میں میرے پسندیدہ اَساتذہ '' کے عنوان سے صدف نذیر اپنے پسندیدہ اساتذہ کے اعلا اخلاق کو بیان کرتی ہیں۔ اقوال زریں کے عنوان سے مہوش ارشد اعوان '' حضرت محمدﷺ کی شخصیت ان کے اقوال زیریں، قائد اعظم، بوعلی سینا اور علامہ اقبال کا تعارف اور ان کے اقوال زیریں کو بیان کرتی ہیں۔ معلومات عامہ میں زبیر بشارت چند اہم معلومات کا انتخاب کرتے ہیں۔ غارِحرا کے متعلق اہم معلومات کو رفعت بی بی اپنے مضمون ''غارحرا'' میں بیان کرتی ہیں۔''وادی نیلم کی سیر''کے عنوان سے عمران نذیر اپنے مضمون میں وادی نیلم کے متعلق تاریخی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ تسبیحات کے متعلق اسلامی واقعے کو فوقیہ شاہین اپنے مضمون '' تسبیحات حضرت فاطمہ ؓ'' میں بیان کرتی ہیں۔ اوزان کے عنوان سے سفیان ارشد پرانے اور نئے اوزان کے پیمانے پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں۔ صدف خورشید اپنے مضمون '' ہمارا میڈیا '' میں میڈیا کی ذمہ داریوں اور ان کے کردار پر مختصراً اور جامع روشنی ڈالتی ہیں۔ صاعقہ بی بی اپنے مضمون '' اسلامی معلومات '' کے عنوان سے چند اسلامی معلومات بیان کرتی ہیں اس کے بعد ظہیر بابر '' مسکراہٹیں '' کا انتخاب کرتے ہیں۔ اویس علی ''افسوس ناک واقعہ '' کے عنوان سے اپنی زندگی کا ایک مایوس کن واقعہ پیش کرتے ہیں۔ سرسید احمد خاں کے مضمون '' خوشامد '' کو سید شیراز حسین شاہ اس مجلے کے لیے انتخاب کرتے ہیں۔ عتیقہ ادیس ترک پھول کی اہمیت اور اس سے ملنے والی کیفیات کو اپنے مضمون '' پھول '' میں انتخاب کرتی ہیں۔'' استاد کا احترام ''اس مضمون میں ثوبیہ سلیم استاد کی اہمیت کو بیان کرتی ہیں ۔ مسلم خواتین کے لیے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو آمنہ اکبر راجا اپنے مضمون '' مسلم عورت کے متعلق اسلامی احکامات '' بیان کرتی ہیں۔ عاصم گل زار چند اہم معلومات کا انتخاب اس مجلے میں '' اہم معلومات '' کے عنوان سے کرتے ہیں۔ '' اطاعتِ رسول ﷺ اور اس کی اہمیت '' حسین ممتاز اس مضمون میں حضرت محمدﷺ کی اطاعت اور ان کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ '' ختمِ نبوت '' کے عنوان سے تصویر مغل ختم نبوت کیا ہے؟ اور اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہیں۔ انسانوں کے حقوق کے متعلق فائزہ بی بی اپنے مضمون '' بندوں کے حقوق '' میں تفصیلاً بیان کرتی ہیں۔ نائلہ بی بی چند اہم سوالات اور ان کے جوابات پر مشتمل تحریر سے معلومات میں اضافہ کرتی ہیں۔حصہ غزل میں خاور ؔنذیر، آصفؔ اسحاق، احمد عطا ؔاللہ، حسن ؔظہیر راجا، قمرؔ عباس، ڈاکٹر ماجدؔ محمود، مسعود ساگرؔ، واحدؔ اعجاز میر، جاوید سحرؔ، ڈاکٹر سیدہ آمنہؔ بہار، عابد محمودعابدؔ، عثمانؔ لیاقت،فیصل مضطر، ؔفرہاد احمد فگارؔ، ارشدؔ احمد، جاوید الحسن جاویدؔ، احمد وقارؔ میر کی غزلیں شامل ہیں اور پھر شوزیب کاشرؔ کا ترانہ کشمیر شامل کیا گیا ہے۔ اس مجلے کے آخر میں محمد سعید اسعدکالج میگزین کی اہمیت و افادیت کو بیان کرتے ہیں۔
یہ مجلہ تاریخی، علمی و ادبی لحاظ سے ایک شاہ کار ہے جس میں اردو ادب کی اصناف پر علمی و ادبی معلومات منفرد اسلوب کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ اس مجلے میں طلبہ کی بڑی تعداد نے مضامین تحاریر کیے جس پر بے حد مسرت ہوئی۔ ''بساط'' کا دوسرا شمارہ بھی منظر عام پر آنے کی قوی امید ہے ۔یقین ہے کہ قارئین کو یہ مجلہ پسند آیا ہو گا اور اس کی کام یاب اشاعت پر پرنسپل ادارہ پروفیسر محمد رفیق اور دیگر تمام منتظمین و معاونین کو مبارک باد۔
٭٭٭