سرمایہ پرستی کے اس دور میں جب ہر انسان کو اپنی ضرورتوں سے فرصت نہیں ادبی کام سر انجام دینا کسی معجزے سے کم نہیں۔ عصرِ حاضر میں مشینوں کی صداؤں نے لطافت،جمالیات اور ادبیات کو صحرا کی خشک فضا کے سپرد کر دیا ہے لیکن کچھ لوگ ابھی موجود ہیں جو اِن تاریک راتوں میں بھی امید کی مشعل جلائے بیٹھے ہیں اور محبتوں کی زبان اردو کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ شاید شاعر نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا :
؎ سلیقے سے ہواؤں میں جو خوش بو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
فرہاد احمد فگارؔ صاحب بلاشبہ اردو کے ساتھ محبت کرنے والے انسان ہیں۔ '' بساط'' (علمی و ادبی مجلہ) کی اشاعت آپ کا بہترین ادبی کارنامہ ہے۔ '' بساط '' کے مدیر اعلا کی حیثیت سے آپ نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ اس کاوش میں اس مجلے کے ''مدیر '' ملک مبشر احمدصاحب اور سرپرستِ اعلا پرنسپل بوئز انٹر کالج میرپورہ '' پروفیسر محمد رفیق صاحب '' نے بھی آپ کا بھر پور ساتھ دے کر ادب دوستی کا ثبوت دیا۔ ایک دور افتادہ علاقہ جہاں بنیادی ضروریاتِ زندگی بھی میسر نہیں ہیں وہاں سے ادبی مجلہ شائع کرنا لائقِ تحسین ہے۔ ''بساط '' بوائز انٹر کالج میر پورہ'' کا پہلا علمی و ادبی مجلہ ہے جس میں شعرا، ادبا کے ساتھ ساتھ کالج کے طلبہ نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ ''بساط '' کے توسط سے میر پورہ کی سر زمین میں چپھے ہیروں سے آشنائی ہوئی اور بلاشبہ یہ مدیر اور مدیر اعلا ''بساط'' اور کالج کے سرپرستِ اعلا کی کوششوں سے ہی ممکن ہوا۔ مجلے میں ادبی اور معلوماتی مضامین کو شامل کیا گیا ہے علاوہ ازیں کشمیر کے نام وَر شعرا و ادبا کی تخلیقات کو بھی '' بساط'' میں جگہ دی گئی ہے۔ ''بساط '' جیسا ادبی مجلہ دبستانِ کشمیر کے ادبی سرمائے میں بہترین اضافہ ہے۔ '' بساط'' کا منظرِ عام پر آنا کشمیر اور بالخصوص اہلِ نیلم کے لیے خوش آئند بات ہے۔ امیدِ واثق ہے کہ ضلعی اور ریاستی سطح پر ایسے مثبت کاموں کو سراہا جائے گا اور کشمیر میں موجود دیگر کالجز میں بھی اس طرح کی مثبت سرگرمیوں کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین)۔(۲۶ مئی ۲۰۲۱ء)
٭٭٭