علمی وادبی مجلات او ر جرائد و رسائل کسی بھی زندہ زبان اور زندہ قوم کا قیمتی اثاثہ و ترجمان ہوتے ہیں۔ اس لیے ان علمی وادبی مجلات کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ اِن کے توسط سے نہ صرف قارئین کے خیالات و جذبات اور تاثرات کو تقویت ملتی ہے بل کہ ان ادبی مجلات کے ذریعے سے قلم کار کو اپنا مطمع نظر تحریراً پیش کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔
’’بساط‘‘ گورنمنٹ بوائز انٹر کالج میرپورہ، ضلع نیلم کا علمی وادبی مجلہ ہے۔ آزاد کشمیر کی علمی و ادبی مجلات کی تاریخ میں غازی ِ ملت راجا محمدحیدرخان گورنمنٹ بوائزانٹر کالج،میرپورہ، ضلع نیلم کا علمی و ادبی مجلہ ’’بساط‘‘ ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ ’’بساط‘‘ کا سرورق دیدہ زیب ہے۔ سرورق پر کالج کی دل کش عمارت نقش ہے، جس کے عقب میں وادی نیلم کے خوب صورت گاؤں میرپورہ کے سرسبز و پُرکشش علاقے کا منظر وقوع پذیر ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وادی نیلم میں زندگی فطرت کے کس قدر قریب ہے۔
’’بساط‘‘کے مدیر اعلا ’’فرہاد احمد فگارؔ‘‘ اردو دنیا کے ایک منجھے ہوئے اور زیرک نقاد و محقق ہیں۔ ان کی اردو زبان و ادب سے محبت و الفت نہایت گہری ہے۔درست اردو املا و تلفظ پہ خاص گرفت رکھتے ہیں۔ ہر لفظ کو ماہرین لسانیات کی آرا کی روشنی میں باقاعدہ معیار کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھنے کا خاص ملکہ ان ہی کو حاصل ہے۔اشعار کی پوری تحقیق و جستجو کے بعد اصل خالق کے حوالے سے پتا لگانا بھی فرہاد احمد فگارؔ صاحب کا خاصا ہے۔ایسی شخصیت کی زیر نگرانی جو ادبی پرچہ شائع ہوگا تو اس میں مذکورہ بالا خصائص کا پایا جانا فطری سی بات ہے۔ ’’بساط‘‘ کی یہ خاصیت ہے کہ اردو زبان سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھنے والے فرد کی ادارت میں اشاعت پذیر ہوا۔’’بساط‘‘ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وادی نیلم کے سرکاری اداروں کا پہلا ادبی مجلہ ہے جو اشاعت کی منزل تک بھی پہنچا اور پذیرائی کا مستحق بھی ٹھہرا۔ مجلے کے مدیر ’’ملک مبشر احمد‘‘ ہیںجو کمپیوٹر جیسی جدید سائنس کے استاد ہیں۔
’’بساط‘‘ کے اولین چند صفحات رنگین تصویروں پر مشتمل ہیں۔ جن میں سب سے پہلے صفحے پر ادارے کے پرنسپل جناب پروفیسر محمد رفیق کی خوب صورت تصویر جلوہ گر ہے۔مزید براں ’’بساط‘‘ کے مدیر اعلا(جناب فرہاد احمد فگار ؔ)اور مدیر(جناب ملک مبشر احمد) سمیت کالج کے دیگراساتذہ و غیرتدریسی ملازمین کی عکس بندی موجود ہے۔ ’’بساط‘‘ کی فہرست دیکھ کر بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ’’بساط‘‘ اپنی بساط کے مطابق اپنے اندر علمی، ادبی، تنقیدی، تاریخی، تاثراتی ، معلوماتی، مذہبی، معاشرتی اور متفرق ذخائر سے مالامال ہے۔ اس میں اساتذہ اور دیگر محبان ِ اردو کے علاوہ کالج طلبہ کی معلوماتی و تخلیقی تحریروں کو زینت بخشی گئی ہے۔مجلے کا اچھا خاصا حصہ طلبہ کی مختلف النوع موضوعات پر مبنی معلوماتی تحریروںپر مشتمل ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مجلہ ’’بساط‘‘ طلبہ کی ذہنی، علمی اور تخلیقی صلاحیتوں کا کس قدر امین ہے۔
عرض فگارؔ میں طلبہ کی اردو سے عدم دل چسپی سے لے کر حوصلہ افزا دل چسپی تک کا فسانہ رقم ہے۔مجلے کا باقاعدہ آغاز گلؔ بخشانوی کے خوب صورت حمد یہ کلام سے کیا گیا ہے۔ اس کے بعد آزاد جموں و کشمیر کے ضلع بھمبر سے تعلق رکھنے والے شاعر پروفیسر ڈاکٹرشفیق انجم ؔ کی منفرد نوعیت کی نعت رسول مقبول کو زیب قرطاس بنایا گیا ہے۔مزید براں گورنمنٹ انٹر کالج، میرپورہ کے پرنسپل پروفیسر محمد رفیق کا انٹرویو بھی کافی معلوماتی نوعیت کا ہے،جس میں ان کے بچپن سے حال تک کا علمی و عملی زندگی کا پرپیچ سفر کا ذکر ملتا ہے۔یہ انٹرویو طلبہ کے لیے محنت وجستجواور فقدان ِ سہولیات کے باوجود مُداوَمت ِسعی کی خوب صورت مثال ہے۔اس کے علاوہ بشارت خان کیانی کے تاریخی مضمون کے توسط سے ادارے کی مکمل تاریخ سے آشنا ئی حاصل ہوتی ہے۔
شاملِ مجلہ محمد سعید اسعد کا افسانہ ’’بستی کا المیہ‘‘ خاصے کی چیز ہے۔ متذکرہ افسانے میں بیان کی گئی کہانی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ اس میں عہدِ حاضر کا المیہ بھی پایا جاتا ہے۔بھوک انسان کو کچھ بھی کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ہمارے سماج میں چند ذخیرہ اندوز افراد کی خود غرضی کی بنا پر کئی غریب خاندان اپنی جنم بھومی کو چھوڑ کر ہجرت کرنے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ غریب طبقے کی لاچاری و بے بسی بھی اس افسانے کا جزو ہے۔مزید براں ڈاکٹر محمد صغیر خان کی تاثراتی تحریر ’’احمد عطاء اللہ کی غزل گوئی‘‘ تخلیق کار اور اس کیفن ِ سخن سے واقفیت کرواتی ہے۔نیز سالک محبوب اعوان کا تمثیلی مضمون ’’بزمِ اقتصاد‘‘اپنے اندر خاص تمثیلی اُسلوب لیے ہوئے ہے جو اس رسالے میں خاطر خواہ رونق بکھیر رہا ہے۔ یہ تحریر قاری کے لیے دل چسپی کا سامان فراہم کرتی ہے۔اس میں ہمارے علوم کی اپنی اپنی مسلمہ حیثیت اور افادیت کو دل کش انداز میں الفاظ کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ اسی طرح اعجاز نعمانی کا مضمون ’’احمد عطا اللہ ایک رومانوی شاعر‘‘ بھی دل چسپی سے خالی نہیں۔ اس میں قلم کار نے ناقدانہ نگاہ ڈالتے ہوئے شاعر موصوف کے کلام کے فکر و فن کی کئی پرتیں وا کی ہیں۔ علاوہ ازیں ’’املا و تلفظ کی عمومی اغلاط‘‘ اردو زبان کے شائقین اور اردو سے گہری محبت رکھنے والوں کے لیے نایاب تحفہ ہے۔اس میں چند مروجہ غلط العام املا و تلفظ کی نشان دہی کرتے ہوئے ان پر مدلل اور محققانہ اندازمیں بحث کی گئی ہے۔مثلاً عُمرانیات، الحمدللہ، دُکان، چیخ پکار، فُلاں، مَرَض اور غَرَض وغیرہ وغیرہ۔اسی کے ساتھ ساتھ قمر عباس کی تحریر ’’میں اور حسن فرذوق‘‘ پُراُسلوب اور عبدالبصیر تاج وَر کی تحقیق ’’کشمیر کا جری سپوت‘‘ خاص معلوماتی و علمی حیثیت رکھتی ہے۔مؤخر الذکر تحریر میں خطہ کشمیر کے پہلوانوں کی تاریخ کو تاریخ کے نہاں خانوں سے تلاش بسیارکے بعدہمارے سامنے پردہ کشائی کی گئی ہے۔ اسی طرح ’’شمع اسلام جس سے فروزاں ہوئی‘‘ کے عنوان سے تحریر قلم کار کی اہل بیتؓ سے عقیدت کا اظہار ہے۔’’کوہ ادب کا فرہاد‘‘ میں اردو ادب کے عصر حاضر کے فرہاد کا پتا لگایا گیا ہے۔
اس مجلے کی ایک بڑی خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں شمارے کے کثیر حصے پر ادارے کے طلبہ و طالبات کی متفرق تخلیقات و تحاریر کو جگہ دی گئی ہے۔علمی اداروں کے مجلات کا یہ خاصا ہے کہ ان میں طلبہ کو اپنی ذہنی و علمی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کا موقع میسر آتا ہے۔’’بساط‘‘ بھی اپنی بساط کے مطابق اسی روایت کا پاس دار ہے۔طلبہ کی تحریروں میں’’غار حرا‘‘، ’’ہماری قومی زبان‘‘،’’نیلم کا قلعہ بازی گروں کا شہر‘‘ ، ’’چین کی شہزادی‘‘، ’’۱۹۶۵ء کی جنگ‘‘، ’’تحریک علی گڑھ‘‘، ’’ہیر رانجھا‘‘،’’ قائد اعظم محمد علی جناح‘‘، ’’خلیفہ مامون الرشید‘‘، ’’بوعلی سینا‘‘، ’’علامہ اقبال ؔ‘‘ اور’’تسبیحات فاطمہ الزہرہ ‘‘ بہ طور خاص معلومات اور دل چسپی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ اسی طرح ’’ ہم سایہ‘‘، ’’بچوں کا ذہنی جذبہ‘‘، ’’ادھوری خواہش‘‘ ، ’’وادی نیلم کی سیر‘‘، ’’وادی نیلم کے اہم پھل‘‘، ’’وادی نیلم کے موسمی حالات‘‘ جیسی تحریریں طلبہ کے تخلیقی جوہر کی پر تو ہیں۔ پہاڑی زبان کے چند الفاظ کے اردو مترادفات بھی ’’بساط‘‘ کی زینت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن اس میں کچھ الفاظ کی کتابت کے مسائل بھی بہر حال پائے جاتے ہیں۔ غالباً یہ اسقام پروف خواں کی عجلت کی بنا پر پیدا ہوئی ہوں گی۔ (شمارے کے دیگر صفحات پر بھی خال خال املا کی اغلاط باقی رہ گئی ہیں) مجلے میں کچھ پہاڑی الفاظ کو غلط املا و تلفظ کے ساتھ برتا گیا ہے۔مثلاً مکان کے لیے پہاڑی لفظ ’’کوٹھا‘‘ کو ’’کوھٹا‘‘ اور دیگچے کے لیے پہاڑی لفظ ’’پَتیلا‘‘ کی بہ جائے ’’پتلا‘‘ درج ہے۔ اوڑھنے والے کمبل کو پہاڑی زبان میں ’’لَوئی‘‘ کہا جاتا ہے جب کہ یہاں ’’لوٹی‘‘ رقم ہے۔ اسی طرح ’’رُکھ‘‘ بہ معنی درخت ، ’’کَند‘‘ بہ معنی دیوار اور ’’چھَٹی‘‘ بہ معنی ہوا وغیرہ الفاظ کا تلفظ بھی بغیر اعراب کے (بالترتیب رکھ، کند، چھٹی ) لکھا گیا ہے۔ چوں کہ لمحہ تحریر تک پہاڑی زبان کا اپنا علاحدہ رسم ِ خط نہیں ہے اسے اُردو رسم الخط کا سہارا لینا پڑتا ہے ، اس لیے املا و تلفظ کے ایسے مسائل جنم لیتے ہیں۔
’’بساط‘‘ کا آخری حصہ عہد حاضر کے شعر ا کی خوب صورت و چنیدہ غزلیات سے مزین ہے۔ اِن سُخن وَروںمیں آصف اؔسحاق ،احمد عطا ؔاللہ، واحد اؔعجاز میر، ڈاکٹر سیدہ آمنہؔ بہار ،حسن ؔظہیر راجا، ڈاکٹر ماجد ؔمحمود، جاوید الحسن جاویدؔ، احمد وقارؔ میر، فیصل مضطر ؔ ، خاورؔ نذیراور مدیرِ اعلا بِساط فرہاد احمد فگارؔ وغیرہ سر فہرست ہیں۔ یہ شعری ادب طلبہ اور اردو کے باذوق قارئین کے ذوقِ سخن کو جلا بخشتا ہے۔ بساط کے اولین شمارے کا اختتام شوزیب کاشر ؔ کے خوب صورت آہنگ کے حامل ترانے بہ عنوان ’’کشمیر کا ترانہ‘‘ پر کیا گیا ہے۔’’بساط‘‘ بہ حیثیت مجموعی علمی و ادبی، تنقیدی و تحقیقی اور معلوماتی و مذہبی نوعیت کی تخلیقات کا حَسین مرقع ہے۔ کالج کے اس مجلے کی اشاعت سے طلبہ کی پوشیدہ ذہنی و تخلیقی صلاحیتوں میں نہ صرف اضافہ ہوگا بل کہ ان کے تخلیقی جوہر میں نکھار بھی پیدا ہوگا۔ طلبہ کے اندر تحریر و تخلیق کی نئی امنگ جنم لے گی اور اُردو زبان و ادب سے دل چسپی پیدا ہوگی۔طلبہ کسی بھی مقام پر اپنی تحریری صلاحیتوں کا بلا خوف وخطر اظہار کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ بساط کی اس خوب صورت اشاعت پر پرنسپل جناب پروفیسر محمد رفیق،مدیر اعلا سرفرہاد احمد فگارؔ، مدیرجناب ملک مبشر احمد سمیت دیگر اساتذہ اور طلبہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اُمید واثق ہے کہ فرہاد احمد فگار ؔصاحب کی ادارت میں یہ مجلہ مستقبل میں بھی پہلے کی نسبت مزید بہتری اور کام یابی کے ساتھ اشاعت پذیر ہوتا رہے گا(ان شاء اللہ)۔
٭٭٭