کالج اور جامعات کی سطح پر مجلہ نکالنا قدیم روایت ہے اور اس ضمن میں بہت کم کوئی منفرد کام منظر عام پر آتا ہے۔جب ہم کوئی ایسا مجلہ دیکھتے ہیں تو عموماًروایتی قسم کے مضامین نثر ونظم ہی سامنے آتے ہیں۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی تحریر معلومات افزا ہو اور کسی قسم کی نقل دَرنقل بلا عقل کے عمومی کلّیے سے یکسر مبرّا ہو۔بہت کم اَساتذہ اور انتظامیہ اس اَمر کا التزام کرتے ہیں کہ اپنے طلبہ وطالبات کواس بابت آگہی فراہم کرتے ہوئے کوئی نادر، جدید اور اَچھوتا نقش پیش کرنے کے لائق بنائیں۔یہ محض رسمی تنقید نہیں، خاکسارکا عملی تجربہ بول رہا ہے۔(مجھے بعض ادبی پرچوں کی ادارت کے علاوہ، ایک بہت بڑی اور مشہور درس گاہ کے کالج میگزین میں اردو،انگریزی اور سندھی گوشوں کی غیررسمی ادارت کا شرف حاصل ہوا۔یہ بات ہے کوئی سترہ اٹھارہ سال پرانی ہے۔ہوا یوں کہ خاکسارنے تو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر شاگردوں سے نئی تحریریں حاصل کیں، انھیں ہرقدم پر رہنمائی فراہم کی، ساتھی اساتذہ سے لکھوانے کی سعی نامشکور کی۔۔۔۔۔اور آخر میں جب اس سارے مواد سے قطع نظر، بے تحاشا منقول موادCopy-pasteکے ببانگ ِدُہل استعمال سے شامل ہوکر، مجلہ منظر عام پر آیا تو اُس میں شعبہ اردو کی ادارت میں سب سے نیچا نام اسی خاکسار کا تھا اور انگریزی میں سرے سے مفقود، جب کہ سندھی گوشے کو بلاعنوان ہی شامل کیا گیا، محض اس لیے کہ گیارہ سالہ تاریخ میں ایسا منفرد کارنامہ انجام دینے والا کہیں نمایاں نہ ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔سب سے دل دوز بات یہ ہے کہ دیگر مہاشوں میں کوئی ادیب،شاعر یا صحافی تو کُجا، اس لائق بھی نہ تھا کہ اپنی تعلیمی اسناد عملاً وقیع ثابت کرسکتا۔اس موقعے پر یہ ساری گفتگو بہت سے قارئین بشمول معاصرین کو محض خودسِتائی یا بے وقت کی راگنی لگ رہی ہوگی، مگر میرا مقصد ِ وحید یہ ہے کہ کسی بھی علمی وادبی کارنامے کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے اس پس منظر کی نشان دہی کرسکوں، جس سے، بوجوہ آگاہ ہونا ہر متعلق وغیر متعلق شخص کے لیے اَز بَس لازم ہے)۔غازی ملّت راجا محمد حیدرخان گورنمنٹ بوائز اِنٹر کالج، میرپورہ، ضلع نیلم (ریاست آزاد جمو ں وکشمیر)کے جریدے ’’بِساط‘‘،شمارہ بابت۲۰۲۰ء کے مدیراعلیٰ جناب فرہاد احمد فِگارؔ محض رسمی مدیر ہی نہیں، بلکہ اپنی منظوم ومنثور نگارشات، علی الخصوص تحقیقی مساعی سے وادیٔ کشمیر اور پاکستان میں بہ سُرعت تمام شہرت کے جھنڈے گاڑرہے ہیں۔(اعلیٰ کا جدید اِملا اعلا اپنانا بھی تقلید ِ محض اور غلط ہے)۔جواں سال مدیراعلیٰ کا کردار بحیثیت مجموعی تو یقینا لائق تحسین ہے،مگر وہ جو فرنگی زبان میں کہتے ہیں نا، بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجودرہتی ہے، سو ہم یہ نہیں کہِ سکتے کہ ’’بساط‘‘ اُن خامیوں اور نقائص سے مبرّا ہے جو عموماً بوجوہ راہ پاجاتے ہیں، مگر بہرحال جہاں فُضَلاء جمع ہوں اور دل جمعی سے کام کرنا اور کام لینا بھی جانتے ہوں، وہاں نقش ِثانی یقینا بہتر ہونے کی قوی امید کی جاتی ہے۔
مجلہ بساط کے مندرجات میں بطورخاص قابل ذکرہیں: احمدعطاء اللہ کی غزل گوئی (ازڈاکٹرمحمدصغیرخان)، احمدعطاء اللہ -ایک رومانوی شاعر(ازپروفیسراعجازنعمانی)،املا وتلفظ کی عمومی اغلاط (ازفرہاداحمدفگار)،میں اورحسن فرذوق (ازقمرعباس)،کشمیرکاجری سپوت-گاماپہلوان (ازعبدالبصیرتاجور)،کوہ ادب کافرہاد(از راناسجاد)،مختصرپہاڑی اردولغت یعنی فرہنگ اور حصہ نظم میں ترانہ کشمیر (ازشوزیب کاشر)۔۔۔۔۔میں بوجوہ پورے رسالے کے مندرجات کاجزاء جزاء جائزہ لینے سے قاصر ہوں۔۔۔۔۔۔چیدہ چیدہ نکات ہی عرض کروں گا:
-ایک ہی شاعر کے متعلق دومضامین شامل کرنے سے یقیناان کے بار ے میں آگہی فروغ پاتی ہے، مگر کیاہی اچھاہوتاکہ کسی اورمقامی شاعرکاتعارف بھی اسی طرح شامل ہوجاتااردولغت کامحض ایک نمونہ ہی دکھایاگیا، وہ بھی بلاعنوان اور قدیم اوزان کے اہم موضوع کے نیچے۔۔۔۔۔۔گویا پیوست۔۔۔۔۔۔۔یہ نامناسب ہے۔۔۔۔۔مدیراعلیٰ موصوف خود پہاڑی ہیں اور ان سے توقع ہے کہ ایک قسط وار سلسلہ اسی ضمن میں شروع کریں گے۔
طلبہ وطالبات اور بعض نوآموز اہل قلم کی تحریروں کی سخت جانچ پڑتال اور انھیں رہنمائی فراہم کیے بغیر، شامل اشاعت نہ کیاجائے۔
-تسبیحات فاطمہ الًزہراء رضی اللہ عنہا،ایک اچھی اورجامع کاوش ہے،مگر اس کا سرنامہ اصلاح تلفظ چاہتاہے۔۔۔۔۔۔نام میں تصحیح لازم ہے: الَزہراء
مختصر وقت میں محض اشارتا ًہی کچھ کہنایوں بھی ناموزوں نہیں کہ ہمارے محب وعزیز،جناب فرہاداحمدفگارؔکی تشفی بھی ہوگی اور دیگرکے لیے یہ راہ بھی ہم وارہوگی۔۔۔۔۔خصوصا جو یہ سمجھتے ہیں کہ تبصرے میں تنقیدنہیں، محض واہ واہ ہونی چاہیے۔
٭٭٭