ایک فرہاد کوہ کن نہر کھود کر جمالیاتی فہم کی تلمیح بن گیاتھا اور شعروادب میں شیرینی وحلاوت گھولنے لگا تھا۔اس کی وجہ سے شیریں،جوئے شیر،تیشہ تلمیحات ادب عالیہ میں شیرینی گھول رہی ہیں۔اب کے فرہاد کا ظہور وادی نیلم سے ہوا ہے یہ کوہ کن تیشہ تحقیق سے اردو زبان وادب کا اک نیا جہاں ڈھونڈ نکالتا ہے۔اس کا تیشہ قوت مشاہدہ سے آب دار ہے جو کسی بھی جگہ بات اور جملے سے اپنا موضوع نکال لاتا ہے۔سنا ہے نیلم میں قیمتی پتھروں کے ذخائر ہیں۔یہ رتن دریائے نیلم کے پانی کے ساتھ سفر کرتے جانے کہاں تک جاتے ہیں ؟فرہاد احمد فگارؔ نیلم کے شفاف ٹھنڈے اور میٹھے پانی پر’’بساط‘‘بچھائے ادبی موتی سمیٹ رہا ہے۔ نیلم،پکھراج،یاقوت،زمرد سے قیمتی موتی جن کے لفظ لفظ میں تہذیب وتمدن کی چمک، پرکھوں کی عظمت، تخیل کی رفعت اور میراث کی آب وتاب نظر آتی ہے۔’’بساط ‘‘یوں تو فقط گورنمنٹ انٹر کالج میرپورہ کا شمارہ ہے لیکن یہ اس سلسلہ علم وادب کا پیامبر ہے جس نے آزادکشمیر کے کالجوں میں زبان وادب کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا۔آزادکشمیر کے تعلیمی ادارے علمی وادبی مجلے شائع کرتے رہتے ہیں۔یہ مجلے طلبہ کی ذہنی تربیت اور تخلیقی صلاحیتوں کی بے داری میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ان میں ممتاز ادبا اور شعرا کے علاوہ نئے لکھنے والے طلبہ وطالبات کو بھی موقع ملتا ہے۔نئے لکھاری اپنے ذخیرہ ٔالفاظ سے تجربات،احساسات اور ادبی نکات کو منظر عام پر لاتے ہیں یوں یہ علمی وادبی مجلے ایک نسل کی میراث کو اگلی نسل تک منتقل کرتے ہیں۔علمی وادبی مجلہ جدید دنیا کا ترجمان ہوتا ہے،ماضی کے تجربات سے علم کشید کرتا ہے اور تاریخی جمع آوری کا فریضہ بھی سرانجام دیتا ہے۔قوموں کی تہذیبی بلندی اور معیار کا تعین اس کے مجلوں سے ہوتا ہے۔آزادکشمیر میں کالجز کے مجلے تعلیمی سرگرمیوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔بساط شاردہ یونی ورسٹی کی علمی تہذیب کی تعمیر نو ہے جہاں صدیوں پہلے علم ادب کی آبیاری ہوتی تھی۔'' بساط'' فرہاد احمد فگارؔ کے ذوق وشوق،جذبے اور محنت کا ثمر ہے۔فرہاد احمد فگارؔ آزادکشمیر میں تحقیق وتدوین اور شعروادب کا معتبر حوالہ ہیں۔انھوں نے سیاحتی مقام نیلم سے بساط'' کا اجرا کرکے نسل نو کو ادبی ذوق سے ہم کنار کرنے کی جسارت کی ہے۔مجلہ '' بساط '' بلا شبہ سرزمین نیلم کے قدرتی حسن کا جمالیاتی اظہار ہے۔اس کے رنگارنگ اور متنوع موضوعات میں کشش ہے۔’’بساط ‘‘روایات کا امین جدید سائنسی دور میں ادب پروری کا سنگ میل ثابت ہوگا کیوں کہ یہ نیلم سے شائع ہونے والا پہلا ادبی مجلہ ہے۔
’’بساط‘‘ کے سرورق پر کالج کی عمارت کی تصویر اور عقب میں نیلم کے سرسبز کوہسار نیلگوں فلک کے سائے تلے اسے دیدہ زیب بناتے ہیں۔اوپر سرخ جلی حروف میں لکھا'' بساط'' پرکشش اور دیدہ زیب ہے۔پسِ ورق کالج کی سرگرمیوں کی تصاویر سے مزین ہے۔ابتدائی صفحات پر کالج کے پرنسپل اور اسٹاف کی تصاویر ہیں۔’’بساط‘‘ کے مدیر اعلا فرہاد احمد فگارؔ،سرپرست پروفیسر محمد رفیق پرنسپل ادارہ اور مدیر ملک مبشر احمد ہیں۔ادارہ غازی ملت راجا محمد حیدر خان کے نام سے منسوب ہے۔محمد سعید اسعد کی زیرنگرانی شائع ہونے والے مجلے’’ بساط‘‘ کی کمپوزنگ سید شاہ نواز نقوی نے کی ہے۔'' بساط'' کی مجلسِ مشاورت میں سید معراج جامی (کراچی) راجا شوکت اقبال(مظفرآباد) ڈاکٹر ماجد محمود (راولاکوٹ) ڈاکٹر یوسف میر(مظفرآباد) پروفیسر اعجاز نعمانی(مظفرآباد) پروفیسر عابد محمود عابد(میرپور) پروفیسر مسعود ساگر(کوٹلی) پروفیسر آصف اسحاق(سدھنوتی) اقبال اختر نعیمی(نیلم) اور خاور نذیر (ہٹیاں) شامل ہیں۔مجلے کے آغاز میں ناظم اعلا تعلیم کالجز آزاد جموں وکشمیر پروفیسرڈاکٹر خواجا عبدالرحمان کا پیغامِ تہنیت ہے جس میں ادارے کی شان دار کارکردگی اور بساط کے اجرا پر منتظمین کو مبارک باد پیش کی گئی ہے۔بساط کو علمی وادبی روایت کا نقیب قرار دیا گیا ہے۔عرضِ فگار '' میں فرہاد احمد فگارؔ نے مجلے کی ترتیب،تزئین اور اشاعت کے دشوارگزار مرحلوں اور معاونین کی جان فشانی کا تذکرہ ہے۔مدیر اعلا نے معاونین کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔مجلہ ۱۱۲ صفحات پر مشتمل ہے جس میں گل بخشالوی کی حمد باری تعالی'،پروفیسر ڈاکٹر شفیق انجم کی نعت رسول مقبول،پروفیسرمحمد رفیق پرنسپل ادارہ کا انٹرویو،بشارت کیانی کی تحریر انٹر کالج میرپورہ کی تاریخ،ابتدائی صفحات میں شامل ہیں۔ادبی تحریروں میں محمد سعید اسعد کا افسانہ'' بستی کا المیہ'' کشمیری غلامی کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے جہاں بھوک، ہجرت،غلامی اورخاندانوں کی تقسیم نے زندگی اجیرن کررکھی ہے۔دیوار برلن کی طرح لائن آف کنٹرول توڑنے کی کوشش بارود اور خون سے اٹ جاتی ہے۔آزادی اور خوش حالی خواب بنے خون میں نہا جاتے ہیں۔احمد عطا اللہ کی غزل گوئی '' فرہاد احمد فگار کی تنقیدی کتاب ہے جس پر ڈاکٹر محمد صغیر خان راولاکوٹ کا تنقیدی تبصرہ ادبی شاہ کار ہے۔ڈاکٹر محمد صغیر خان آزادکشمیر میں اردو ادب اور پہاڑی زبان وادب کا کوہ ہمالیہ ہیں۔انھوں نے فرہاد احمد فگار کو محقق سے زیادہ تخلیق کا گردانا ہے۔لکھتے ہیں:
'' فرہاد اپنے اصل میں ایک تخلیق کار ہے۔۔۔یہ عہدجدید کا فرد وفرہاد ہے جو تیشے کی بہ جائے قلم سے ایسی نہریں کھودتا ہے جس میں پانی کی جگہ شعروکہانی کی روانی دیکھنے لائق ہوتی ہے۔''
ڈاکٹر صغیر کا اُسلوب پرکشش اور دل کش ہے خالص نیچرل اسٹائل میں لکھا گیا یہ تنقیدی تبصرہ ان کی گفت گو کی طرح رواں،شستہ اور دل چسپ ہے۔بزمِ اقتصاد'' سالک محبوب اعوان کا پرمغز مضمون ہے مصنف نے علم معاشیات کی اہمیت،افادیت اور ضرورت کو جامع تمثیل میں پیش کیا گیا ہے۔اندازبیاں دل چسپ اور پراثر ہے آج کی سرمایہ دارانہ دنیا تمام نظام ہائے حکومت پر حاوی ہے سرمائے کے بغیر کارزارحیات میں شب وروز کاسفر مشکل تر ہے۔اسی سرمایہ دارانہ دنیا کو ''بزم اقتصاد'' سے موسوم کیا گیا ہے۔علوم کے تقابل کا دل چسپ اور شوخ انداز قاری کو گرفت میں لیے رکھتا ہے۔یہ مضمون مصنف کے ذوق اور تخیل کا حسین امتزاج ہے۔
پروفیسر اعجاز نعمانی نے '' احمد عطااللہ ایک رومانوی شاعر'' سے نقد کیا ہے اس تنقیدی مقالے میں احمد عطااللہ کے کلام اور اسلوب کو موضوع بنایا گیا ہے۔بلاشبہ احمدعطااللہ کے کلام میں شگفتگی،ندرت،جدت،جذبے کی فراوانی اور لفظوں کے استعمال کا ہنر دوام بخشتا ہے۔ان کا منفرد اسلوب،تخیل اور تازہ کاری ادبی چاشنی سے بھرپور ہیں۔پروفیسر اعجاز نعمانی رقم طراز ہیں:
''احمد عطااللہ کی شاعری میں بیش تر الفاظ تراشیدہ ہوتے ہیں۔ان کے ہاں کثرت سے ایسے الفاظ ملتے ہیں جو عام طور پر یاتو منفی استعمال ہوتے ہیں یا ان کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہوتی۔احمد عطااللہ ان الفاظ کو مثبت معنویت کا لبادہ اس انداز میں پہناتے ہیں کہ نہ صرف ان کی تلخی کم ہوجاتی ہے بل کہ ان سے اچھا تعلق بن جاتا ہے۔ہرعیب ہنر بنتا دکھائی دیتا ہے۔''احمد عطااللہ کی شاعری کے متعلق مزید لکھتے ہیں:''ان کی شاعری میں جذبے کی فراوانی،خیال کی ندرت ہمیشہ اپنی طرف کھینچتی اور بلاتی رہتی ہے۔''
املا اور تلفظ کی عمومی اغلاط '' فرہاد احمد فگارؔ کی ذوق طبع کا نادر سرمایہ ہے وہ عام استعمال ہونے والے الفاظ کو موضوع بناتے ہیں۔عمرانیات،الحمدللہ،دکان،چیخ پکار،دغا وغیرہ جیسے کئی الفاظ ہمارے ہاں غلط مستعمل ہیں۔فرہاد احمد فگارؔ ان کی درستی کراتے ہیں اور ان کی صحت کے مستند حوالے پیش کرتے ہیں۔مقالہ نگارنے زبان کے درست استعمال کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔زبان وادب کے طلبہ کے لیے یہ نہایت کارآمد اور مفید مقالہ ہے۔
'' میں اور حسن فرذوقؔ'' قمر ؔعباس کا شعری مجموعے '' رقصم '' پہ لکھا تبصرہ ہے۔یہ ادبی شہ پارہ نقد ونظر کا شاہ کار ہے۔مبصر کا دل کش خراج تحسین رقصم کے مطالعے کے حقیقی تاثرات لیے صفحہ قرطاس پر نیا ادبی رنگ بکھیرتا چلا جاتا ہے۔ہر جملے میں طنز ومزاح کے نشتر قاری کو زیرلب مسکرانے پہ مجبور کرتے ہیں۔لکھتے ہیں:
''حسن فرذوق کی خوش قسمتی دیکھیے کہ اگر بیگم کے ساتھ چہل کرے تو اس پر غزل اترنے لگتی ہے اور میں اگر بھول کربھی بیوی کے قریب سے گزر جاوں تو واسوخت کی آمد شروع ہوجاتی ہے۔میرا بھی دل کرتا ہے کہ کہوٹہ کی چوٹیوں پرایک آدھ شعر گڑ لوں یا سر پر لمبی چوڑی چوٹی رکھ لوں تاکہ مجھے بھی چوٹی کا شاعر کہیں،مگر حسن فرذوق کے ہوتے ہوئے میرا یہ خواب مجھے چوٹل ضرور کردے گا اس لیے کہ حسن فرذوق شعر بنانا جانتا ہے اور میں منہ بنانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔''
’’بساط‘‘ کے ان ادبی،تنقیدی اور عملی مقالات میں ادبی رنگوں کی بہار ملتی ہے اور قمر عباس(کہوٹہ پنڈی)کا درج بالا تنقیدی تبصرہ ادبی رنگ سے بھرپور منفرد اُسلوب کا دل کش مرقع ہے۔
''کشمیر کا جری سپاہی '' عبدالبصیر تاج وَر کا لکھا جامع مضمون ہے۔موضوع سخن خمیر کشمیر سے جنم لینے والی نام وَر شخصیت رستم ہند،رستم زماں غلام محمد بٹ المعروف گاما پہلوان ہے۔گاما پہلوان کی شخصیت،فن اور حیات کا دل چسپ احوال پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
سدرہ نورین نے '' اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک'' میں تعلیم کو تجربے اور شعور کی آنکھ سے دیکھا ہے۔یہ اصلاحی مضمون کاغذی ڈگریوں کی بہ جائے شعور و آگہی کی ترغیب دیتا ہے۔
بشیرالدین چغتائی نے میرپورہ کالج کے اساتذہ اور طلبہ سے اخلاقیات کے موتی کشید کیے ہیں۔نیلم کے طلبہ اساتذہ کے لیے حددرجہ احترام اور محبت کا جذبہ لیے ہمہ دم مصروف عمل رہتے ہیں۔
سائرہ ارشاد قریشی نے واقعہ کربلا کو موضوع بنا کر’’ بساط‘‘ میں حق وباطل کی معرکہ آرائی اور امام حسینؓ کے کردار پر قلم فرسائی کی ہے۔رانا سجاد نے '' کوہ ادب کا فرہاد'' میں فرہاد احمد فگارؔ کی تحقیقی،تنقیدی،اور تدوینی خدمات کا احاطہ کیا ہے اور ان کی شخصیت اور فن پر روشنی ڈالی ہے۔
’’بساط‘‘ میں طلبہ کے مضامین،انتخاب،اقوال،معلومات اور کہانیاں وافر مقدار میں شامل ہیں جو نئے لکھاریوں کو تخلیقی بنیادیں فراہم کرتی ہیں۔حصہ غزلیات میں خاورؔ نذیر،آصفؔ اسحاق،احمد عطاؔاللہ،حسنؔ ظہیر راجا،قمرؔ عباس،ڈاکٹر ماجد ؔمحمود،مسعودؔ ساگر،واحد اعجازؔ میر،جاوید سحرؔ،ڈاکٹر آمنہؔ بہار،عابد محمود عابدؔ، عثمانؔ لیاقت،فیصل مضطرؔ،فرہاد احمد فگارؔ،ارشدؔ احمد،جاوید الحسن جاویدؔ اور احمد وقارؔ میر کی غزلیات شامل ہیں۔
شوزیب کاشر ؔکا ترانۂ کشمیربھی مجلے کی زینت ہے۔آخری حصے میں سعید اسعد نے کالج میگزین کی افادیت اور اہمیت کے حوالے سے مضمون قلم بند کیا ہے جس کا لب لباب طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کی بے داری ہے۔’’بساط‘‘ مجموعی طور پر تخلیقی رنگ لیے ہے۔
ترتیب وتزئین میں کچھ کمی محسوس ہوتی ہے۔موضوعات کے مطابق اگر اس میں ادب،تنقید،مذہب،تاریخ، وغیرہ کے زمرے بنادیے جاتے تو مجلہ زیادہ پرکشش اور جاذب نظر ہوتا۔مقالے اور مضامین مختصر ہیں۔کہیں کہیں املا کے اغلاط بھی موجود ہیں لیکن مجموعی طور پر’’ بساط‘‘ معیاری مجلہ ہے جس کا مواد اور ترتیب عمدہ اور معیاری ہے۔
٭٭٭