گورنمنٹ بوائز انٹر کالج میرپورہ، ضلع نیلم کا پہلا علمی و ادبی مجلہ ’’ بساط۲۰۲۰ء‘‘ محترم سید معراج جامی ؔصاحب کے توسط سے ملا۔ اس سے قبل بھی فرہاد احمد فگارؔنے اپناایم اے کا مقالہ’’احمد عطاء اللہ کی غزل گوئی‘‘ جو کتابی صورت میں شائع ہوا ،جامی ؔصاحب کے ذریعے مجھ تک پہنچا تھا جس پر باوجود کوشش کے اظہارِ خیال نہیں کرسکا۔(جلد اس پر بھی تبصرہ پیش کروں گا) یہ فرہاد احمد فگار ؔکا دوسرا تحفہ ہے اور اس پر رائے نہ دینا میرے نزدیک ادبی و اخلاقی بد دیانتی ہو گی ۔لہٰذا معذرت کے بعداس مجلے پر اپنی حقیر رائے پیش کر رہا ہوں۔
ایک سو بارہ(۱۱۲) صفحات پر مشتمل اس رسالے میں مدیرِ اعلا ’’فرہاد احمد فگارؔ‘‘ ہیں جو نہ صرف ادبی لحاظ سے کافی متحرک بلکہ معروف بھی ہیں ۔انھوں نے ذاتی دل چسپی سے اس رسالے کی تیاری میں جس قدر محنت اور مشقّت اٹھائی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ پرنسپل سمیت سینئر اَساتذہ نے فگارؔ صاحب کی کوششوں کو سراہا مگرانھیں امید نہیں تھی کہ طلبہ کالج میگزین کے لیے کچھ لکھ سکیں گے لیکن فرہاد احمد فگارؔ نے جس طرح طلبہ کی ذہن سازی کی اور انھیں کالج میگزین کے لیے لکھنے پر آمادہ کیا وہ قابلِ تعریف ہے ۔ کسی کالج سے میگزین کا اجراآسان نہیں ہے اور اس کے لیے مواد کو جمع کرنا بھی کافی دِقت طلب کام ہے جس کا تجربہ راقم کو بھی اپنے کالج میگزین کی تیاری کے دوران میں بہ خوبی ہوا۔
مجلے میں شامل تخلیقات اور انتخاب کو دیکھاتو خوش گوار حیرت کا سامنا ہواکہ اس مجلے میں وہ تمام لوازمات موجود ہیں جو کسی اچھے علمی و ادبی رسالے میں ضروری خیال کیے جاتے ہیں ۔ کالج میگزین کی مناسبت سے کالج کے پرنسپل اور دیگر تدریسی و غیر تدریسی عملے کی تصاویر کے علاوہ پرنسپل صاحب کا انٹرویو بھی شامل ہے۔اس مجلے کا سب سے متاثر کن حصہ اس کے مضامین ہیں جو معیار اور موضوعات کے تنوّع کے اعتبار سے بھی قابلِ داد ہیں۔ ان مضامین میں بشارت خان کیانی کا مضمون ’’ مختصر تاریخ انٹر کالج میرپورہ ضلع نیلم‘‘ جس میں انھوں نے ۱۹۲۵ء میں قائم ہونے والے پرائمری اسکول کے کالج بننے تک کی تاریخ کو مختصر۱ًبیان کیا ہے نیز اس کالج کے سابقہ اور موجودہ پرنسپلزاور اساتذہ کا مختصر تعارف بھی پیش کر دیا ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ یہ عمدہ مضمون لکھنے والے بشارت خان کیانی ،کالج کے چوکی دار ہیں۔ڈاکٹر محمد صغیر خان نے ’’احمد عطا اللہ کی غزل گوئی ‘‘ کے عنوان سے فرہاد احمد فگارؔ کی تصنیف پر تبصرہ کیا ہے اور اس کا بھرپور تعارف کروایا ہے۔ایک بہت عمدہ مضمون سالک محبوب اعوان کا ’’ بزمِ ِاقتصاد‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔یہ مضمون علامتی ہے جس میں مختلف علوم کی ایک بزم کا احوال بیان کرتے ہوئے علمِ ریاضی ، کیمیا ، طبیعیات ،حیاتیات اورمعاشیات کے درمیان مکالمہ پیش کیا گیا ہے۔ ابتدا میںتمام سائنسی علوم ریاضی ، کیمیا ، طبیعیات اورحیاتیات اپنی عظمت و انفرادیت کے علاوہ معاشرے میں اپنی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں اور اپنے مقابلے میں معاشیات کو ایک غیر اہم اور بے فائدہ علم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب معاشیات کی باری آتی ہے تو وہ ان تمام سائنسی علوم کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان علوم میں شامل معاشیات کے گہرے اور ناقابلِ تردید اثرات کی نشان دہی کرتا ہے بل کہ معاشرے میں اس علم کی ضرورت اور اہمیت کو بھی بھرپور انداز میں اجاگر کرتا ہے ۔ ’’احمد عطا اللہ :ایک رومانوی شاعر‘‘کے عنوان سے پروفیسراعجاز نعمانی کا مختصر لیکن پراثر مضمون ہے۔مجلے کے مدیر فرہاد احمد فگارؔ کا مضمون ’’ املا و تلفظ کے عمومی اغلاط‘‘ کے نام سے ہے۔ اس مضمون میں املا اور تلفظ کی ایسی اغلاط کی نشا ن دہی کی گئی ہے جو غلط العوام ہیں اور جنھیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’ میں اور حسن فرذوقؔ‘‘کے عنوان سے قمرؔ عباس نے حسن فرذوقؔ کے شعری مجموعے ’’ رقصم ‘‘ پر مختصر مضمون لکھا ہے۔ عبدالبصیر تاج ور نے اپنے مضمون ’’ کشمیر کا جری سپوت‘‘ میں رستمِ زماں اور رستم ِ ہندکے اعزازات حاصل کرنے غلام محمد بخش بٹ عرف گاما پہلوان کو موضوع بنایا ہے اور اس میں ان کی طاقت اور کشتی کے میدان میں ناقابلِ تسخیر رہتے ہوئے ہندستان اور دنیا بھر کے عظیم ریسلرز(پہلوانوں ) کو شکست دینے کی تفصیلات بیان کی ہیں ۔ سدرہ نورین کا مضمون ’’ اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک‘‘ ان کے بہ قول :دراصل دردمند اور شکستہ دل انسان کے اس غیر تعلیمی اور غیر تربیت یافتہ سماج کے خلاف چھوٹا سا احتجاج ہے اور تربیت کے بغیر تعلیم کا حصول بے معنی قرار دیا ہے۔ بشیر الدین چغتائی نے ’’ میرپورہ کالج کے طلبہ کی اپنے اساتذہ سے محبت و لگن ‘‘ کو موضوع بنایا ہے۔ سائرہ ارشاد قریشی نے ’’ شمع ِ اسلام جس سے فروزاں ہوئی‘‘کے عنوان سے ماہِ محرم الحرام کی تاریخ و حرمت بیان کرتے ہوئے حضرتِ امام حسین ؓ کی محرم الحرام میں شہادت کو موضوع بنایاہے کہ کس طرح انھوں ؓ نے اپنے جانثار ساتھیوں کے ساتھ اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اسلام کو سرخ رو کیا۔ ’’ کوہِ ادب کا فرہاد ‘‘ رانا سجاد کا مضمون ہے جس میں انھوں نے اپنے استاد فرہاد احمد فگارؔ کی شخصیت کو موضوع بناتے ہوئے ان کی تدریسی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے اور تحقیق و تدوین کے میدان میں ان کی مہارت کو بھی بیان کیا ہے۔
ان مضامین کے علاوہ کافی تعداد میں طلبہ و طالبات کے مختصر مضامین اور انتخاب کو بھی اس مجلے میں شامل کیا گیا ہے جن میں اسلامی، اصلاحی ، اخلاقی اور تعلیمی موضوعات کے علاوہ اپنے علاقے کے بارے میں دل چسپ تفصیلات بھی شامل ہیں ۔ان مضامین اور انتخاب سے طلبہ و طالبات کی علمی و ادبی دل چسپی کا اندازا لگایا جا سکتا ہے۔ مجلے کے آخری حصے میں غزلیں بھی شامل ہیں۔
مجموعی طور پر یہ مجلہ اپنی گوں نہ گوں خصوصیات کی وجہ سے قابل ستائش ہی نہیں دیگر تعلیمی اداروں کے لیے قابلِ تقلید بھی ہے۔آج کے دور میں کسی تعلیمی ادارے کی طرف سے میگزین کا اجرا کوئی آسان کام نہیں ہے اور ایسے علاقے سے جہاں سہولتوں کا فقدان بھی ہو یہ کام صرف خواہشات کی بنا پر ممکن نہیں ۔اس کے لیے محنت و مشقت کے ساتھ جرأت،ہمت ،ثابت قدمی اور استقامت کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو اس میگزین میں واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔میں اس مجلے کی اشاعت پر گورنمنٹ بوائز انٹر کالج میرپورہ ،ضلع نیلم کے تمام اَساتذہ کرام، پرنسپل صاحب ،طلبہ و طالبات اور خصوصاً مدیر اعلا فرہاد احمد فگارؔ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے بڑی محنت سے یہ مجلہ شائع کیا ہے ۔ میری دعا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے اور جلد ہی کالج میگزین کا دوسرا شمارہ بھی طلبہ و طالبات اوراساتذہ کی تخلیقات سے مرصّع ہوکر ہمارے سامنے آئے۔ ( آمین )
٭٭٭