ساری دنیا ہے تری اور ثنا تیری ہے
زندگی تیری امانت ہے قضا تیری ہے
مجھ میں تو عیب ہیں اور عیب بھی ایسے ویسے
ذات جو عیب سے بالا ہے خدا تیری ہے
میری مٹی ہو کہ پانی ہو سبھی فانی ہیں
تجھ کو زیبا ہے فقط اور بقا تیری ہے
’’تیری مرضی مجھے جس حال میں رکھے مولا‘‘
میں تو اُس حال پر راضی جو رضا تیری ہے
بس مری فکر ترے ذکر کی محتاج رہے
یہ مرے شعر کی دولت بھی عطا تیری، تیری ہے
برسرِ شاخ مہکتے ہوئے پھولوں کے خدا
یہ حسین رنگ یہ خوش بو یہ ہوا تیری ہے