ہمارا ملک بہت خوب صورت ہے اس میں اونچے اونچے پہاڑ، بہتے دریا خوب صورت اور بڑے پارک ہیں۔ ایسی خوب صورت جگہیں ہیں جن کو کوئی بھی دیکھنے والا قدرت کی کاری گری کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسی ایک خوب صورت جگہ مری بھی ہے جو کہ ملکہ کوہسار کہلاتی ہے۔ لوگ مری میں سیاحت کے لیے دور دور سے آتے ہیں۔ ہمارے اسکول کی انتظامیہ نے بھی طلبہ کو سیاحت کی غرض سے ایک روزہ سیاحتی دورے پر مری لے جانے کی بات کی ۔تمام طلبہ یہ بات سن کر تیاریوں میں مگن ہوگئے۔ پہلے مرحلے میں تاریخ کا تعین کیا گیا اور تمام بچوں کو گھر سے اجازت لے کر آنے کو کہا اور ساتھ میں۲۰۰۰روپے فی کس لانے کو بھی کہا۔ سب بچے بہت خوش ہوئے اور گھر جاتے ہی اپنے اپنے والدین سے اجازت مانگی جب انھوںں نے اجازت دے دی تو بچے بہت خوش ہوئے۔ میں نے بھی اپنے والدین سے پوچھا تو انھوں نے خوشی سے اجازت دے دی۔ پھر اگلے دن ہم نے ا سکول میں استانی صاحبہ کو بتایا کہ ہمیں اجازت مل گئی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ پیر۲۹نومبر۲۰۲۱ء کو ہمیں سیاحت کے لیے مری لے جایا جائے گا۔ ۲۷نومبر تک ہم سب طلبہ نے پیسے جمع کروا دیے تھے۔ ہماری استانی صاحبہ نے ہمیں بتایا کہ ہم لوگوں کو۲۹نومبر کی صبح۸بجے تک لے کر جایا جائے گا ہم سب بڑی بے صبری سے ۲۹نومبر کے آنے کا انتظار کرتے رہے۔ میں اتنی بے صبری سے انتظار کر رہی تھی کہ میں نے۲۹نومبر سے دو دن پہلے ہی اپنے کپڑے ، جوتے ، بیگ اور بھی جو چیزیں تھیں وہ سب تیار کر کے رکھ دیں۔ آخر ۲۹نومبر کا دن آہی گیا اور میں اچھے سے تیار ہوئی پھر میں نے اپنے بابا سے کہا کہ مجھے اسکول تک چھوڑ آئیں۔میرے باباجانی مجھے ا سکول چھوڑ کر آئے۔ سیاحت پر جانے والے سب طلبہ ساڑھے سات بجے اسکول میں پہنچ گئے۔ اگلا مرحلہ بس کے انتظار کا تھا جو بہت کٹھن تھا۔سب طلبہ بڑی بے تابی سے بس کے آنے کا انتطار کر نے لگے آٹھ بجے کے قریب بسیں بھی ا سکول کے باہر آکر کھڑی ہوگئی پھر ہم سب کو آہستہ آہستہ باہر بلایا گیا جب میں باہر گئی تو میں نے دیکھا کہ وہاں پر چار بڑی بسیں کھڑی تھیں۔جماعت ہفتم ، ہشتم اوریاذدہم کو ایک بس میں بٹھایا گیا اور ساتھ دو اساتذہ کو بھی ہمارے ساتھ بس میں بٹھایا گیا ہر بس میں دو یا تین ٹیچرز تھیں۔ دو بسیں بوائز کی اور دو گرلز کی تھیں۔ تقریباً۳۰:۸بجے ہم اسکول سے نکل گئے ہمیں کہا گیا تھا کہ آپ نے ہلہ گلہ کرتے ہوئے جانا ہے تا کہ آپ لوگ لطف اندوز بھی ہوں اور کسی کی طبعیت بھی خراب نہ ہو۔ راستے میں ہم لوگوںنے گانے لگائے اور پھررقص کرنے لگے ہم لوگوں نے لطف اٹھایا بہت مزا آیا ۔ ہم سارے راستے یہی کچھ کرتے ہوئے گئے ۔ ہماراتقریباًگیارہ بجے تک مری پہنچ ہی گیا۔ ہماری بس ایک جگہ پر پارک ہوئی ۔ پھر ہم نے اپنے بال وغیرہ سنوارے اور گاڑی سے نیچے اترے۔ ہمیں سیاحت کے لیے مری کی ایک بڑے اور مشہور پارک میں لایا گیا تھا جس کا نام SoZoپارک ہے یہ پارک لوئر ٹوپہ میں واقع ہے ایک بہترین سیاحتی مقام ہے۔ ہم جب پارک کے اندر گئے تو وہاں بہت بڑے بڑے خوب صورت جھولے لگے ہوئے تھے ہر کلاس کو ایک ٹیچر کے حوالے کر دیا گیا۔ ہماری ٹیچر نے ہم سے پوچھا کہ پہلے آپ نے کون سے جھولے پر بیٹھنا ہے؟ ہم نے انھیں جس جھولے کا کہا وہ مکڑے کی طرح دکھائی دیتا تھا ہم سب اس پر بیٹھ گئے ۔ پہلے تو وہ جھولا بہت آہستہ آہستہ چل رہا تھا لیکن چند ہی لمحوں میں وہ بہت تیز ہوگیا اتنا تیز کہ سب بچوں کی طبعیت خراب ہونے لگی مجھے بہت مزا آرہا تھا ۔ پھر اسی طرح ہم نے ہر جھولے کی سواری کی۔تین بجے ہم نے کھانا کھایا اور پھر دوبارہ اچھل کود میں مصروف ہوگئے۔ چاربجے تک ہم لوگ مختلف کھیل کھیلتے رہے اور تقریباًچاربجے ہمیں بتایا گیا کہ اب ہم مال روڈ پر جانے لگے ہیں۔ سب طلبہ یہ سن کر خوش ہوئے اور آہستہ آہستہ ہم سب باری باری جاکر بس میں اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ دوبارہ ہم نے بس میں گانے لگائے اور مستی کرنے لگے پھر وہاں ایک جگہ بس رک گئی پوچھا تو بتایا کہ یہاں سے آگے مال روڈ تک سوزوکی پہ جاناہوگا کیوں کہ بس آگے نہیں جا سکتی۔ہماری میڈم صاحبہ نے کچھ سوزوکیوں کا بندوبست کرویا جس کے بعد ہم بس سے اتر کر سزوکی میںبیٹھ گئے اور پندرہ سے بیس منٹ کا سفر تھا جو کہ ہم نے سزوکی میں طے کیا۔جب ہم مال روڈ پہنچے تو استانی صاحبہ نے کہا کہ جتنا مرضی گھومو لیکن سات بجے واپس گاڑی کے پاس آجانا ۔ ہم نے استانی صاحبہ کی بات کو تسلیم کیا اور وہاں پر بہت گھومے تصویریں وغیرہ بنوائی ، دکانوں سے خریداری کی ۔ اسی طرح سات بجے تک ہم لوگ گھومتے رہے اور پھر سات بجے سب ٹیچرز اپنی اپنی کلاس لے کر واپس وہیں آگئیں جہاں سے ہم اترے تھے پھر دوبارہ سزوکی میں بیٹھے اور بس تک پہنچے جس کے بعدواپسی کا سفر شروع کیا۔ ہم نے دوبارہ گانے لگائے اورخوب لطف اندوز ہوئے۔ مری سے واپس پر موڑ میں ایک ہوٹل تھا جہاں ہمیں روکا گیااور چائے ، پکوڑے اور بسکٹ کے ساتھ تواضع کی گئی۔ اس کے بعددوبارہ سفر شروع ہوا واپسی جس جس نے جہاں اترنا تھا اسے وہاں اتارتے رہے میں نے اپنے بابا جانی سے کال کر کے پوچھ لیا کہ کہاں اترنا ہے؟ انھوں نے بتایا کہ اپر چھترسپریم کورٹ چوک میں اتر جانا ۔رات دس بجے کے قریب ہم مظفرآباد پہنچے ۔میں جب گاڑی سے باہر نکلی میرے باباجانی مجھے لینے کے لیے کھڑے تھے پھر میں ان کے ساتھ گھرواپس آئی۔ امید ہے کہ یہ روداد پڑھ کر آپ لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔
٭٭٭