اللہ رب العزت کی ذاتِ اقدس کاجتنا شکر ادا کروں کم ہے۔وہی مختارِ کُل ہے،وہی قادرِ مطلق ہے اور اسی کی توفیق سے ہرہر کام مکمل ہوتا ہے۔بے شک وہ سب سے اعلا تر ذات ہے۔درود اس نبی پر جو سب نبیوں کا سردار ہوا۔وہ نبی جن کے بعد درِ نبوت مقفل ہو گیااور ایسا مقفل کہ کبھی وا نہ ہو گا۔جس پر خاتم النبین کی مہر ثبت کر دی گئی اس نبی مکرم،شافع محشرمحمد مصطفیﷺ کی ذات اقدس پر کروڑ ہا درود و سلام۔میرا فخر کہ میں اس کالی کملی والے کا امتی ہوںجس کا امتی ہونا انبیائے کرام کی آرزو رہی۔میں ہمیشہ اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ کہ میں دنیا کا سست ترین بندہ ہوں۔ اگر سست الوجود اشخاص کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں سرفہرست میرا ہی نام ہو گا۔ میں اگر کچھ تھوڑا بہت کام کر لیتا ہوں تو یہ فقط مجھ پر اللہ پاک کا کرم ہے۔ بہ قول دردؔ
ہووے نہ حول و قوت اگر تیری درمیاں
جو ہم سے ہو سکے ہے سو ہم سے کبھو نہ ہو
میں پہلے بھی عرض کر چکاکہ میرپورہ آ کر جہاں مجھ سے کئی اہم کام چھوٹ گئی وہیں ایک یہ کام اچھا ہو اکہ اس ادارے کا مجلہ شائع کر لیا۔ ’’بِساط‘‘کے لیے میرے ساتھی ملک مبشر احمد کی کاوشیں کبھی فراموش نہیں کی جا ئیں گی کہ وہ اس کا بانی مدیر ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ بساط ۲۰۲۰ء کا شمارہ ادارے کے لیے نیک نامی کا باعث رہا۔ہماری سوچ سے بڑھ کر بساط کو پذیرائی کا ملنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آج بھی علم اور ادب دوست لوگ موجود ہیں۔ یہ الگ بات کہ اکثر دوست اس بات پر شکوہ کناں رہتے ہیں کہ کتاب سے تعلق ٹوٹ چکا جیسا کہ حسنؔ ظہیر راجا کا یہ شعر:
قصے کہانیوں کی وہ دنیا تو خوب تھی
پھر یوں کہ میں کتاب سے آگے نکل گیا
مگر میں سمجھتا ہوں آج بھی ایسے بے شمار لوگ ہیں جو قلم و قرطاس سے تعلق کو استوار رکھے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کی ترجیحات آج بھی کتابیں ہیں جو کتاب کو اپنا بہترین دوست مانتے ہیں۔ اگر کتاب سے تعلق ٹوٹ چکا ہوتاتو آئے روز کتابوں کی اشاعت نہ ہوتی رسائل شائع نہ ہوتے۔ تعلیمی اداروں کے اندر شائع ہونے والے رسائل جہاں اس ادارے کی شناخت بنتے ہیں وہیں اس ادارے کے طلبہ کے اندر لکھنے کی ایک جستجو بھی پیدا کرتے ہیں،لکھنے کا شوق اور تڑپ ان میں اس وقت بڑھ جاتی ہے جب ان طلبہ کو ایک ایسا پلیٹ فارم مل جاتا ہے جہاں وہ اپنی تحریر باآسانی شائع کروا دیتے ہیں۔ میرپورہ ایک ایسا مضافاتی علاقہ ہے جہاں کے طلبہ کو ایسے مواقع بالکل بھی میسر نہیں آتے جن سے وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر پائیں۔میرپورہ کالج کے طلبہ اس اعتبار سے بھی بد قسمت ہیں کہ آج کے اس جدید دور میں بھی اس ادارے میں سائنس مضامین نہیں پڑھائے جاتے اور اتنی بات تو تعلیم سے جڑا ہر شخص جانتا ہے کہ آرٹس مضامین کا انتخاب وہی طلبہ زیادہ کرتے ہیں جن کی تعلیمی استعداد کم زور ہوتی ہے۔ ۱۶ اکتوبر ۲۰۱۹ء کو برادرم احمد وقار نے جب مجھے اس ادارے میں پہلی مرتبہ لا کر چھوڑا تو ایک یہ بات بھی بتائی کہ مجھے اس ادارے میں بہت محنت کی ضرورت پڑی گی۔ اس وقت یہ بات میری سمجھ میں نہ آئی تاہم وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ میں آیا کہ اس ادارے میں زیرِ تعلیم طلبہ دو دو چار چار گھنٹے کی مسافت کے بعد پہنچتے ہیںاور اکثرصرف اس مقصد کے لیے آتے ہیں کہ بس کسی طرح انٹر میڈیٹ یا میٹرک پاس ہو جائے تو سپاہی بھرتے ہو جائیں۔یوں بھی جہاں سائنس میں طلبہ آگے ہی آگے جا رہے ہیں وہاں آرٹس والے ان طلبہ کا کیا مقابلہ۔ میرپورہ کالج کے طلبہ کو لکھنے اور ان کی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے جہاں میں نے مختلف تقریبات منعقد کروانے کی مساعی کیں وہی ایک کام بساط کے اجرا کا بھی کیا۔الحمدللہ میں ایک مرتبہ پھر ’’بِساط‘‘ شائع کرنے میں سرخ رُو رہا۔ گورنمنٹ انٹر کالج میرپورہ ضلع نیلم کا یہ مجلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ میں اوپر بھی اعتراف کر چکا کہ میں سست الوجود بندہ ہوں اس لیے غالب امکان ہے کہ اس شمارے میں ضرور گنجائش باقی ہو گی۔ادب میں کوئی بھی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی اسی طرح مجھے ہر گز یہ دعوا نہیں کہ یہ کام سو فی صد بہترین ہے۔یقینا اس میں بہت سی ایسی خامیاں ہوں گی جن میں بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے۔ میرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ میں اکیلا ہوں جس نے مواد کی جمع آوری سے لے کر اس کی جانچ،کمپوزنگ کی نگرانی، اس کی ترتیب،حروف خوانی اور دیگر ہر طرح کے معاملات دیکھنے ہیں۔ اس وجہ سے بھی مسائل زیادہ باقی رہنے کا احتمال ہے۔
میں نے بساط کے اس شمارے میں پہلے کی نسبت بہتری لانے کی کوشش کی ہے۔املا کے جدید اصولوں کو اپنایا گیا ہے۔ گزشتہ شمارے میں بھی کچھ دوستوں نے لفظ ’’اعلا‘‘ کے املا پر اعتراض اٹھایا تھا۔اس کی وضاحت اپنے مضمون میں کر دی ہے۔ اکثر احباب جنھوں نے اس پر تبصرے لکھے اور اپنی آرا پیش کیں ان میں سے چند آرا کو تسلیم کر لیا گیا اور اس شمارے میں ان کو مدِ نظر رکھا گیا تاہم چند مشورے ایسے ہیں جو شاید ممکن نہ تھے کہ ان پر عمل درآمد ہو سکے۔ جیسا کہ میرپور سے عابد محمد عابد صاحب نے لکھا اگر انگریزی کا گوشہ بھی بنا دیا جاتا تو مجلہ بہتر ہو سکتا تھا۔ معزز دوست کا مشورہ بہت کارآمد اور اچھا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہاں صرف آرٹس کے مضامین ہیں ۔آرٹس کے طلبہ کے لیے انگریزی ہمیشہ سے ڈراؤنا خواب رہی ہے جہاں طلبہ کے لیے انگریزی مضمون پاس کرلینا ہی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو وہاں وہ انگریزی مضامین لکھیں گے یہ سوچنا بھی محال ہے۔ اللہ کرے کہ یہاں سائنس مضامین کی کلاسز کا آغا زہو جائے تو انگریزی گوشہ بھی نکالیں گے۔بساط کے پہلے شمارے میں ملک مبشر احمد نے خاطر خواہ تعاون کیا۔میری بدقسمتی کہیں کہ ملک مبشر احمد کے تبادلے کے بعد ان جیسا رفیق میسر نہ آیا۔مبشر کے بعد جس شخص نے میرا ساتھ دیا وہ کالج کا چوکی دار بشارت خان کیانی ہے۔ بشارت حالات کا مارا ایسا کردار ہے جس نے اپنی ذاتی دل چسپی سے ایم اے اردو تک کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ یہ شخص ادارے کے مفاد کے لیے مصروف عمل رہتا ہے یہی وجہ ہے اکثر جب کوئی استاد چھٹی پر ہو تو جماعت کو سنبھالنا بھی اس کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ پہلے شمارے کے بعد اس شمارے کی ترتیب میں بھی بشارت کی دل چسپی دیدنی رہی۔زیرِ نظر شمارے میں ان تبصروں اور آرا کو بھی شامل کیا گیا ہے جو بساط ۲۰۲۰ء پر احباب نے تحریر کیے۔ کراچی سے لے کر خیبر تک دوستوں نے بساط کی پہلی اشاعت پر حوصلہ افزائی کی جس پر ان کا شکر گزار ہوں۔ بساط کے اس نقشِ دوم کی اشاعت کے لیے سربراہِ ادارہ پروفیسر محمد رفیق شیخ صاحب نے بھی حوصلہ بخشا اور اخراجات فراہم کیے اس حوالے سے ان کا خاص طور پر شکریہ۔ سید شاہ نواز نقوی نے پہلے شمارے کی طرح اس کی کمپوزنگ میں بھی مکمل تعاون کیا جس کے لیے میرا یہ بھائی بھی شکریے کا مستحق ہے۔ راجا شاہد شکور نے رسالے کی تیاری میں جو ممکنہ تعاون کیا اس پر ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں فرداً فرداً ہر اس ہستی کا شکر گزار ہوں جس نے اس کام میں اپنا حصہ ڈالا۔امید کرتا ہوں بساط کا یہ دوسرا پڑاؤ بھی آپ کی توجہ کا مرکز بنے گا۔
والسلام
فرہاد احمد فگارؔ
۰۳۳۳۴۹۴۹۲۲۷ arhadahmedfigar@gmail.com/ f