اُردو ترکی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی لشکر کے ہیں۔ یہ زبان لشکر (اُردو) سے وابستہ لوگ بولا کرتے تھے اس لیے اسے اُردو کا نام دیا گیا۔ اُردو نے مختلف ادوار میں اپنے کئی نام تبدیل کیے۔ شروع میں اسے ہندوی، ہندی اور ہندوستانی کہا جاتا تھا۔ بعد میں یہ ریختہ کہلائی۔ بقول غالبؔ:
ریختے کے تمھیں اُستاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں کہ اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
ریختہ کے دور میں مصحفی ؔوغیرہ اور اردوئے معلی کے دور میں مرزا غالبؔ اور ذوقؔ وغیرہ مشہور ہیں۔
۱۶۴۷ ء میں آگرہ کی بہ جائے شاہ جہاں نے دہلی کو اپناپایۂ تخت بنایا تو لشکری زبان بولنے والے اور دہلی کی زبان بولنے والے ایک ہی بازار میں رہتے تھے۔ بادشاہ نے اس بازار کو اردوئے معلی کے نام سے پکارنا تجویز کیا۔ لہٰذا وہاں بولی جانے والی زبان کو اسی نسبت سے اردوئے معلی یا زبان دہلوی کہا جانے لگا۔ جب یہ زبان دکن اور گجرات پہنچی تو اسے دکنی اور گجراتی بھی کہا گیا۔ اُردو جہاں رابطے کی زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہاں یہ قومی تشخص کی علامت بھی ہے۔ اس کی مقبولیت کو دیکھ کر امرا نے اس کی ترقی کے لیے خصوصی کوششیں کیں۔ اس طرح یہ بول چال کی سطح سے بلند ہوکر بہت جلد ادبی درجے تک پہنچ گئی۔اُردو غزل کا پہلادیوان سلطان محمد قلی قطب شاہ والی ٔگول کنڈہ نے مرتب کیا۔ انیس ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں نظم کے ساتھ ساتھ اُردو نثر کو بھی ترقی ملی۔ اسی دور میں ذوقؔ ، بہادر شاہ ظفرؔ اور مرزا غالب ؔجیسے عظیم المرتبت شاعر پیدا ہوئے۔
۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی کے بعد جنوبی ایشیامیں سیاسی و معاشرتی حالات میں نمایاں تبدیلیاں آئیں جس کے باعث تخلیقی اُردو ادب نے ایک نیا رُخ اختیار کیا۔ سر سید احمد خاں نے علی گڑھ کالج قائم کیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کی معاشرتی ترقی کے ساتھ ساتھ اُردو ادب نثر نے نمایاں ترقی حاصل کی۔ علامہ محمد اقبال ؒ ہمارے قومی شاعر ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری اُردو اور فارسی دونوں زبانوں میں کی۔ ان کی شاعری عوام میں اتنی مقبول تھی کہ بعض لوگوں کو ان کی طویل نظمیں بھی یاد ہوتی تھیں۔ علامہ اقبال ؒ کے بعد جدید ادب کے زیر اثر اُردو ادب میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ تحریکِ آزادی کے دوران میں قیام پاکستان کے بعد اُردو ادب کی ترقی میں ایک آزاد اور اعتماد کی فضاقائم ہوئی۔ جس میںمختلف ادیبوں نے اپنے اپنے اوصاف سخن میں نمایاں کام کیے۔ ان میں اُردو ناول نگاری، ڈراما نویسی، افسانہ نویسی اور تحقیق و تنقید شامل ہیں۔
اُردو ادب میں مولوی عبدالحق کا نام نمایا ںہے۔ آپ نے انجمن ترقی اُردو کے سیکرٹری کی حیثیت سے نصف صدی اُردو زبان و ادب کی خدمت کی۔ قوم سے اس سلسلے میں ’’بابائے اُردو‘‘ کا لقب پایا۔ اُردو نثر کے علاوہ اُردو غزل گوئی میں بھی میر تقی میرؔ، خواجہ حیدر علی آتشؔ، میرزا خاں داغ ؔدہلوی، مومن خان مومنؔ، فیض احمد فیضؔ اور احمد ندیم قاسمیؔ قابل ذکر ہیں۔
اُردو ہماری قومی زبان ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگ اُردو زبان ہی بولتے ہیں۔ اُردو زبان ہندستان میں بھی بولی جاتی ہے۔ بہ قول داغؔ:
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغـؔ
ہندستان میں دھوم ہماری زبان کی ہے
میرزا خاں داغؔ کا ایک اور شعر ہے کہ
نہیں کھیل اے داغ! یاروں سے کہِ دو
کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے
٭٭٭