کالج میں آنے کے بعد میں نے بہت کچھ سیکھا۔ کالج میں آنے کے بعد میں نے سب سے پہلے اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کی ، کیوں کہ اس سے پہلے مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کون ہوں؟ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا تھا، روشنی نہیں تھی۔ اس لیے کہ میں دنیا سے بے خبر تھی۔ جب میں کالج میں آئی تو میرا تعلق نہایت ہی رحم دل، محنتی اور خد اترس اساتذہ سے ہوا۔ میرے عزیز اساتذہ نے بتایا کہ بیٹا آپ نے اس دنیا میں بڑا انسان بننا ہے ۔ اس کے لیے آپ کو محنت کی ضرورت ہے۔ لیکن مجھے نہیںمعلوم تھا کہ محنت کس طرح کرنی ہے۔ اساتذہ نے بتایا کہ آپ نے کتابی کیڑا نہیں بننابلکہ اپنے آپ کو ایک محنتی طالب علم بن کر ہر چیز کو سمجھنا ہے۔ اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو نکھارنا ہے۔
میرے عزیز اساتذہ نے ہمیں یہ نصیحت کی کہ بیٹا انسان نے دو کام لازمی کرنے ہیں۔ اس نے مار کھانی ہے تو لازمی کھانی ہے۔ زندگی میں اس نے بوجھ اٹھانا ہے۔ زندگی میں انسان نے بوجھ اگر لازمی اٹھانا ہے تو انسان کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ انسان نے کتابوں کا بوجھ اٹھانا ہے یا بوریوں کا۔ کتابوں کا بوجھ جو ہے وہ بوریوں کے بوجھ سے اچھا ہے۔ دوسری بات یہ ہے زندگی میں ہر انسان نے مار کھانی ہے جو لوگ استاد اور ماں باپ کی مار کھاتے ہیں۔ وہ دنیا کی مار سے بچ جاتے ہں۔ جو بھاگ جاتے ہیں کہ آج مجھے والد نے مارا یا استاد نے مارا یا استاد اور ماں باپ کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں وہ کبھی کام یاب نہیں ہوتے ہیں جو ماں باپ اور استاد کی مار کو سہِ جاتے ہیں وہ زندگی میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ استادکی مار سے یا بے عزتی سے کبھی کسی کے اسٹار نہیں اترتے ہیں۔ کبھی بھی اپنے استاد کی مار کو مار نہیں سمجھنا چاہیے۔
میرے عزیز اور محترم اَساتذہ فرہاد احمد فگار صاحب ،بشیر الدین چغتائی صاحب، عبداللہ اعوان صاحب، غلام یوسف صاحب اور اشفاق الاسلام صاحب نے ہمیں نہ صرف پڑھایا بلکہ آدمی بڑابننے کی منزل کی طرف راستہ دکھانے لگے۔ ہمیں بولنا نہیں آتا تھا۔ لیکن میں اب بہت اچھا بول سکتی ہوں۔ کیوں کہ اس علم کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا جس میں بول چال نہ ہو۔ کالج میں آنے کے بعد میں نے وقت کی پابند کرنا بھی سیکھی اور دوسروں کا خیال رکھنا ۔ اُن کی جائز کاموں میں مددکرنا اور ہر ایک کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا بھی میں نے کالج میں آکر ہی سیکھا ہے۔ ایک ایسا الفاظ انسان کی زندگی کو بدل سکتا ہے۔ انسان کو یہ سوچنا چاہیے۔ میں ہی ہوں جس نے اس ملک پر حکومت کرناہے اور بڑا آدمی بنناہے۔ انسان کتنی مشکلات اور مصائب کو برداشت کرتا ہے۔ وہ حالات سے لڑتا ہے پھر بھی وہ اپنے مقصد میں کام یاب نہیں ہو سکتا ہے۔ہم سب کو اللہ تعالیٰ اچھا انسان بننے کی توفیق دے۔ آمین
٭٭٭