علم ایک ایسی دولت ہے۔ جس کے طفیل دنیا کا نظام رواں دواں ہے۔ ہر چیز یا کام اپنے انجام سے قبل انسانوں سے اپنے بارے میں علم رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ بدوں علم انسان کوئی کام کر پاتا ہے اور نہ ہی کسی مشین کو چلا سکتا ہے۔ روئے زمین پر موجود ہر چیز کے بارے میں علم کا حصول ہی اس کی اہمیت آشکار کرتا ہے۔ مفکرین نے علم کو روشنی سے تعبیر کیا ہے۔ بلا شبہ جب انسان کسی چیز کی علمیت کے بارے میں جانتا ہے تو یہ انسان ایک قسم کی روشنی رکھتا ہے۔ قرآن حکیم میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کیا علم والے اور لا علم برا بر ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا علم والے ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ علم کے بغیر دنیا کا کوئی کام ممکن نہیں ہے۔ علم کا عمل بلا شبہ تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہو پاتا ہے اور تعلیم ہی کے ذریعے سے دنیا میں آگاہی اور شعور کا عمل آگے بڑھتا ہے اور اسی کے طفیل انسانوں کی نسلیں سنورتی ہیں۔ بلا شبہ علم ایک ایسی دولت ہوتی ہے۔ جو انسان کی حفاظت کرتی ہے جب کہ بقیہ تمام دولت کی حفاظت انسان کو کرناپڑتی ہے۔ یہاں تک کہ بسااوقات انسان اپنی جان بھی دولت کی حفاظت کے پیش نظر لُٹا دیتا ہے مگر علم ایک ہتھیار ہے جو انسان کا محافظ ہوتا ہے اور انسانیت کی جان کو خطرات سے بھی محفوظ بناتا ہے۔ اسی بناپر علم کاحصول ناگزیر ہے۔ اسلام نے بھی اسے ضروری عمل قراردیا ہے۔
’’ماں کی گود سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو‘‘
یعنی علم کے حصول کا سلسلہ انسان کی زندگی کے ہر مرحلے پر جاری وساری رہتا ہے۔ جب انسان کی زندگی ختم ہوتی ہے تو علم کے حصول کا سلسلہ بھی منقطع ہوتا ہے۔ غیر محسوس انداز میں علم کے حصول کا سلسلہ ہر مرحلے پر جاری رہتاہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ زندگی دراصل علم کا نام ہے تو بے جانہ ہوگا۔انسان گزرتی زندگی کے ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے علم حاصل کرتا رہتا ہے تو انسان کے علم کے حصول کا مرحلہ بھی منقطع ہوجاتا ہے۔
تعلیم دارصل ایک روشنی پھیلانے کا ذریعہ ہے۔ جس کے ذریعے سے اندھیروں میںٹامک ٹوئیاں مارتی ہوئی انسانیت کو روشنیوں کی طرف لایا جاتا ہے۔ لہٰذا اپنی نسلوں کو علم کی روشنی سے منور کیجئے ۔ علم کا حصول دور حاضر میں ناگزیر ہو چکا ہے۔ حالات حاضرہ کے تقاضے ہیں کہ علم کا حصول ہر صورت یقینی بنایا جائے وگرنہ اس دور میںجیسا مشکل ہو جائے گا۔ الیکڑانکس کے اس دور میں علم کے بغیر زندگی گزارنے کا عمل مشکل سے مشکل تر ہو جائے گا۔
٭٭٭