عہدِ عتیق کو دیکھا جائے تو لوگوں کا رہن صحن، طور طریقے بالکل مختلف تھے۔ رہائش سادہ،گھر کشادہ، زندگی پُر سکون اور آپسیں تعلقات خوب صورت تھے۔مشکل حالات کے باوجود لوگوں میں ہم دردی بلا کی تھی۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہنا نصب العین سمجھا جاتا۔ اس ماحول میں سڑکوں کی عدم تعمیر کے باعث عمارتی سامان کی ترسیل نہایت مشکل اور کھٹن ہوتا تھا۔ سیمنٹ، ریت،بجری،سریا اور جستی چادریں وغیرہ دور دروز علاقوں میں پہنچانا کارِ دشوار تھا۔ ان حالات میں کشمیر کے خوب صورت علاقوں نیلم اور لیپہ وغیرہ میں گھروں کی تعمیر خاص طرز سے کی جاتی۔ تعمیر میں دیودار کی لکڑ پتھر،مٹی،کا استعمال کیا جاتا تھا بناوٹ کے اعتبار سے اس کو دل کش بنانے کی کوشش کی جاتی گاؤں میں اکثرلوگ کوٹھوں میں رہائش پذیر تھے ۔کوٹھوں کی بناوٹ زیادہ تر اس طرح تھی کہ ڈیڑھہ بائیہ دو باھیہ کچھ تین بائیے کوٹھے ہوتے تھے۔ ایک بائیابہ طور گوہال جانوروں کے لیے۔ ایک بائیے میں ڈیرا اورر ایک کوچھی ہوا کرتی تھی، جس میں خور و ونوش کی اشیا رکھی جاتی تھی۔ کوٹھے گرمیوں سرداور سردیو ںکے موسم میں گرم ہوتے تھے۔بناوٹ ا س طرح کی تھی کہ گرمیوں میں کم گرمی اور سردیوں میں کم سردی ہوتی تھی ۔کوٹھے بھی کراہ ارض کی خوب صورتی کا باعث بنے رہے۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ دنیانے ترقی کی اسی طرح لڑی( ڈبل منزل مکان) بنانے کا رواج عام ہوگیا۔لوگوں نے کوٹھے بنانے کی بہ جائے لڑیاں بنانا شروع کیں۔اس سے ایک تو ذاتی ضرورت پوری ہو گئی دوسرا زمینی حسن بھی دوبالا ہوا۔لڑی بناوٹ کے لحاظ سے دل کش اور خوب صورت ہے۔ اس کی تعمیر میں لکڑ ،پتھر اور گارااستعمال کیا جاتا ہے۔ لڑی کوٹھے بناتے وقت لو گ ایک دوسرے کے ساتھ بلامعاوضہ کام کرتے۔ کسی قسم کی اُجرت مزدوری کا رواج نہ تھا ۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون کرتے تھے۔ مکان بنانے کے لیے جو لکڑی وغیرہ کا استعمال ہوتا لیتری کی جاتی تھی۔ اس میں تمام لوگ خوشی سے حصہ لیتے ۔ گاؤں میں پہلے کوٹھے عام تھے آہستہ آہستہ ختم ہو گئے۔لڑی بھی پرانی ثقافت کا حصہ ہے۔ اور کہیں کہیں آج بھی اپنی شناخت برقراررکھے ہوئے ہے۔ لڑی کے بے شمار فائدے ہوتے تھے۔لڑی میں تمام ضروریات زندگی کی اشیا بہ آسانی رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے ۔ دیہا ت میں لڑیاں اکثریت میں بنائی جاتی تھیں لیکن اب آہستہ آہستہ تعمیرات میں تبدلیاں آچکی ہیں اب لکڑ ی کی بہ جائے پختہ گھر بنائے جارہے ہیں جو ریت، سیمنٹ،سریا وغیرہ سے تعمیر ہوتے ہیں۔ کھڑکیا ں، دروازے، روشن دان، الماریاںوغیرہ کے لیے لکڑی کا استعمال ہوتا ہے۔لڑی بناتے وقت اس کو دو بائے یا تین بائے کی جگہ پر لڑی کے لیے پہلے داسا تیار کیا جاتا پھر اس کے بعد اس کی کرسی بنائی جاتی اور کے بعد میں اس پر اُڈ کر نے کے بعد اس کی دیواروں کی تعمیر کی جاتی ، کلائیں اور پھٹے ڈال کر ان پر مٹی ڈال دی جاتی۔اس کے بعد لپپائی کی جاتی۔ پہلے پہل عام مٹی لپپائی کے لیے استعمال کی جاتی،بعد میں اس پر خاص قسم کی مٹی کا کوچہ لگایاجاتا۔ اور پھر اس پر سفید مٹی کاکوٹ کیا جاتا اس طرح لڑی کی تعمیر ہوتی۔ دوسری منزل کی اُڈ کی جاتی اس کی دیواریں تعمیر کی جاتیں اسی طرح تیسری منزل کی تعمیر کی جاتی آخر اس کی چھت لگائی جاتی چھت میں صرف دیودار کی لکڑ ی کا استعمال ہوتا دیودار کی لکڑی کو چیر کر پھٹے بنا کر ان کی چھت لگا دی جاتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ لڑی کی تعمیر میں بھی تبدیلی آتی گئی۔ لکڑی کی بہ جائے جستی چادریں چھت کے لیے استعمال ہونے لگیں جس کی اہم وجہ لکڑی کی دستیابی میں مشکلات اور زیادہ محنت کا شامل ہونا ہے۔ کوٹھے اور لڑی کے درمیان موازنہ کیا جائے تو لڑی کوٹھے کی نسبت زیادہ گنجائش والی رہائش ہے۔ سردیوں میں کو ٹھے ایک مصیبت سے کم نہیں ہوتے کیوں کہ موسم سرماشروع ہوتے ہی اس کی دیکھ بھال کا جو سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کبھی اس کی بلیاں باندھ کرکا م کیا جاتا اور اس کے بعد اس پر مٹی ڈالی جاتی تا کہ چوئے سے محفوظ رہے ۔سیالا شروع ہوتے ہی لو گ لکڑ پتر اور گھاس وغیرہ اکٹھا کر لیتے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی کھانے پینے کی اشیا بھی جمع کر لی جاتی تھیں ۔ کھانے کی اشیا میں مکئی کاآٹا،، گندم کا آٹا، خشک میوا جات اور سبزیوں میں ٹاں جیاں، املوک، اخروٹ،۔ لوبیا کی دالیں، کنجی، لانگڑو، کو ڑان۔ کللا ڑی ، خشک گوشت بھی سردیوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔ پہاڑی علاقوں کے لوگوں کازیادہ تر پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ کوٹھوں والے لوگ نے کوٹھوں کے اُوپر سے برف ہٹانے لیے تمچوڑ بنا کر رکھے ہوتے تھے جس کی مدد سے کو ٹھے کے اُپر سے برف کو ہٹایا جاتاتھا۔ تمچوڑ یا پھے لکڑ کا بنا ہوتا تھا۔ جس کی مدد سے برف کو ہٹایا جاتا تمچوڑ کے تین کونے ہوتے تھے۔ایک کونے کے ساتھ دستہ لگا ہوتا جسے پکڑ کر برف ہٹائی جاتی تھی ان کی نسبت لڑی والے لوگ زیادہ خوش حال تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لڑیاںبھی معدوم ہو گئیں ۔ ا ب لکڑ کے مکان بنانے کم ہوتے جا رہے ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے۔ اب سڑکیں گاوں تک پہنچ چکی ہیں اور ریت، سیمنٹ، سریا، اور دیگر تعمیراتی سامان باآسانی پہنچ سکتا ہے۔ لڑی کی معدومی کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
عہد عتیق اور دور حاضر کا موازنہ کیا جائے۔ زمین آسمان کا فرق عیاں ہو گا۔ اُس دور میں لو گ آپس میں مل جل کر کام کرتے تھے ،ہم دردی بلا کی تھی۔ مکان بنانے کے لیے جولکڑ لانا پڑتی تھی وہ سب مل کر بلا معاوضہ لاتے تھے۔ کوٹھے کی عمر کم تھی۔ لکڑ مٹی میں کچھ عرصے بعد بوسیدہ ہو جاتی اور پھر اس کی دوبار ہ تعمیر کرنا پڑتی۔ آگ لگ جائے تو اس کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتی۔ پھر لوگوں نے پختہ مکان تعمیر کرنے کا رواج ہوا ۔ سڑکوں کا جال بچھ چکا ہے گھر گھر تک سڑک پہنچ چکی ہے۔ ہر طرح کا میٹریل لانا آسان ہو گیا ہے۔ کچھ بھی ہو لڑی آج بھی ہماری ثقافت کی اہم شناخت ہے نیلم اور لیپہ کے علاقوں میں اس کے نمونے آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔
٭٭٭