دور حاضر میں اَساتذہ کو اپنا کرداد ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔یو ں تو استاد کوصدیوں سے معاشرے میں انتہائی پر وقار اور باعزت سمجھا جاتا رہا ہے۔چاہے وہ بادشاہوں کی اولاد ہو یا عام آدمی کی استاد تکریم کو ہی اپنی کام یابی کی کنجی سمجھتے تھے۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جن قوموں نے عروج پایا انھوں نے استاد کو انتہائی عزت دی اور اس بات کو اپنے لیے حرفِ آخرسمجھا اور ہمیشہ فہم وفراست کا منبع استاد کو ہی دیکھا اور شاگردوں کی بہترین تربیت سے استادکے قد کاٹھ کا اندازہ بھی ہو جاتا تھا۔مگر دورِ حاضر نے ان تمام باتوں کو یک سر تبدیل کر دیا ہے شاگردA+کی دوڑ میں لگ گئے اور اساتذہ۱۰۰ فی صدرزلٹ کے لیے فکر مند ہو گئے اور رہی سہی کسر اکیڈمیوں نے نکال دی۔ آج ہمارے بچے ڈاکٹر ،انجینئراورCSSکے پیچھے بھاگ رہے ہیںاور اٹھارہ سے بیس بیس گھنٹے پڑھتے ہیں۔اساتذہ اس بارے میں ان کی پوری معاونت کر رہے ہیں یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ معاشرے میں اعلا تعلیم یافتہ لوگوں کا اضافہ ہو رہا ہے مگر کیا ہم اتنا پڑھ لکھ کر ایک اچھی قوم بن گئے۔کیا ایک غریب آدمی کو ہمارے معاشرے میں عزت مل گئی جو تعلیم ہمیںسکھاتی ہے۔کیا ہمارا پڑھا لکھا پولیس آفیسراپنے تھانے میںلوگوں سے عزت سے ملتا ہے؟کیاہمارے آفیسر جوPSC/CSSپاس کر کے بڑی بڑی پوسٹوں پر تعینات ہوتے ہیں سفارش اور رشوت کے بغیر عام لوگوں کا کام کرتے ہیں۔کیا ہمارے ڈاکٹر مریضوںکامفت علاج کرتے ہیں؟کیا ان کے غیر ضروری ٹیسٹ نہیں کرواتے؟ جن سے وہ کمیشن لیتے ہیںکیا یہ ڈاکٹردو تین کمروںپر مشتمل اپنے پرائیویٹ اسپتال میں ان غریب اورلا چار مریضوں کی چمڑی نہیں ادھیڑتے؟ کیا ہماری سڑکیں اور عمارتیں معیار کے مطابق بن رہی ہیں ؟کیاٹھیکے دار سے پیسے لے کرNOCجاری نہیں کیا جاتا ۔بعد میں ناقص تعمیر قوم کے معماروں کی قبریں بن جاتی ہیں۔کیا ہماری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں جہاں انصاف کی کرسی پر بیٹھااعلا تعلیم یافتہ جج صرف ایک فون کال پر اپنا فیصلہ تبدیل کر لیتا ہے اور انصاف کے معاملے میں۱۲۴نمبر پر ہیں۔
اسی طرح ہماری اسمبلی میں پڑھے لکھے وزیر کس طرح سے کمیشن وصول کر کے ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا چکے ہیں۔اگر یہ تمام چیزیں دیکھیں تو یہ تما م اعلا تعلیم یافتہ لوگ ہی کر رہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہو تاہے کہ تعلیم نے ہمیں پھر دیاکیا ایک بات یاد رکھیں ہم صرف تعلیم دے رہے ہیں تربیت نہیں دے رہے ۔وقت حاضر میں ہنگامی بنیادوں پر بچوں کی تربیت کرنی ہے۔یہ کون کر سکتا ہے؟ یہ صرف والدین اور اساتذہ کر سکتے ہیں والدین گھر میں ماحول دیںاور اساتذہ ان کی تربیت کریں تو ایک اچھی نسل بنائی جا سکتی ہے۔انسانیت تو جیسے پیچھے بہت دور رہ گئی ہے ہم دردی،بھائی چارہ اچھے اخلاق نا پید ہوچکے ہیں۔اسا تذہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت بھی کریں صوم وصلوۃ کا پابند بنائیں اور روزانہ بچوں سے اس کے بارے میں استفسار کریں۔اس قوم کو عظیم قوم بنانے میں جڑ جائیں۔اور ہر ایک استاد اس کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھے اور تمام اساتذہ اس حوالے سے ہر کلاس میں کم از کم پانچ منٹ بات کریں تو ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب ہم ایک عظیم قوم بنیں گے جب جاپان کی طرح دیانت داری میں دنیا کی نمبر ایک قوم بن جائیں گے۔جیسے ایک سنگ تراش ایک عام سے پتھر کو انتہائی خاص بنا دیتا ہے،جیسے لوگ اپنے گھروں کی زینت بنا لیتے ہیں اسی طرح اس عام پتھر کو مندر کی مورتی بنا لیا جاتا ہے اسی طرح استاد بچے کو تراشے تو ایک عام سے بچے سے ایک بڑا انسان پیدا کر سکتا ہے جو کہ ملک وقوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ہر جج اللہ سے ڈر کے فیصلہ دے توکبھی کسی کی جراٗت نہیں ہو گی کہ وہ اس کا فیصلہ تبدیل کرے۔اسمبلی میں سیاست دان اللہ کے تفویض شدہ حقوق اللہ کی امانت سمجھ کر استعمال کریں ۔کوئی آ فیسر کبھی بھی کسی سے رشوت لے کرکام نہیں کرے گا بلکہ اپنا فرض سمجھ کر کام کرے گاپھر تھانے میں لوگوں کی بے توقیری نہیں ہو گی بلکہ عزت ملے گی۔بس ہمیں اچھی تربیت کرنے کی ضرورت ہے اور اپنا فوکس ۱۰۰ فی صدرزلٹ پر نہیں بلکہ اچھی قوم بنانے پر مرکوز کرنا ہو گا اور طلبہ بھیA+کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت لینے کے خواہش مند ہوں گے اور اچھے عظیم انسان بننے کی تمنا رکھیں گے۔ان شاء اللہ انقلاب ضرور آئے گا کیوں کہ ہم اس کا بیڑا اٹھا لیں گے۔
٭٭٭