اکتوبر۲۰۱۶ء کا مہینا تھا جب مجھے جامعہ آزاد جموں و کشمیر شعبہ اُردو میں داخلہ ملا۔اکتوبر کے وسط میں ہماری کلاسز کا آغاز ہوا،مختلف نا آشنا ہم جماعت دوستوں سے ملاقات ہوئی۔گپ شپ میں وقت صرف کیا،کلاسز میں چلے گئے باقاعدہ کلاسز کا آغاز ہوا۔پہلی کلاس محمدیوسف میر صاحب (تاریخ ادبِ اردو)نے لی،دوسری کلاس صداقت حسین شاہ صاحب نے (اسالیب نثر)کی لی۔ تیسری کلاس کا جیسے ہی وقت ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کے کہ ایک خوش پوش،کلین شیو، تروتازہ چہرہ اور پُرجوش نوجوان ہماری کلاس میں داخل ہوئے۔ لبوں پہ مسکراہٹ لیے سبھی کو سلام کیاجواب میں وعلیکم السلام کی صدا بلند ہوئی۔تب ہی خوش مزاج،لبوں پہ مسکراہٹ بھرے لہجے میں نوجوان استاد محترم نے کہا کہ کیسے مزاج ہیں آپ کے؟ جواب ملا کہ اللہ کا ’’شُکَر ہے‘‘ہے کہ ہم خیر و عافیت سے ہیں۔جواب ملا کہ یہ’’شُکَر‘‘ نہیں بل کہ’’شُکًر‘‘ ہیش مضموم جب کہ ک ساکن ہے۔اسے اردو ادب میں سہ حرفی بولا جاتا ہے(سہ حرفی سے مراد وہ الفاظ ہوتے ہیں کہ جن میں دوسرے حرف کو ساکن پڑھا جائے۔)۔آنے والے استاد نے بتایا کہ میں کلاسکی شاعری پڑھانے آیا ہوں اور یاد رکھیں شاعری میں تلفظ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔یقینا میرے ذہین میں خیال وادر ہوا کہ یہ کون سی جدید اردو ہمیں استاد محترم سکھلانے لگے ہیں۔اتفاقاً میرے منھ سے ایک لفظ’’عقل‘‘ نکلا تو جواب ملا کہ’’عقل‘‘ میں ق ساکن ہے نہ کہ مفتوح۔یہ سن کہ مجھے حیرانی ہو ئی کہ ہم اور ہماری قومی زبان اردو۔۔۔۔۔۔۔۔کہ ہم تو آئے روز ایسے ایسے الفاظ اپنے زبان سے ادا کرتے ہیں کہ جنھیں ادا کرتے ہی ان کے معانی و مطالب تبدیل ہو جاتے ہیں۔یہیں سے میرے دل میں اردو زبان کے ساتھ دلی انس پیدا ہوا۔کیوں کہ اردو زبان کے الفاظ کو جب تلک تلفظ کے ساتھ ادا نہ کیا جائے تو وہ لذت اور چاشنی باقی نھیں رہتی۔چناں چہ وقت گزرتا گیا آئے روز کچھ نہ کچھ نئے الفاظ کی ادائی سیکھنے کا موقع ملتا رہا۔یہاں ایک بات کا اضافہ کرتا چلوں کہ پانچویں جماعت سے لے کر گریجویشن تک ہم نے اردو زبان کے ساتھ ناانصافی کی،ہم میں سے ہر خاص و عام اس ’’مَرَض‘‘ میں مبتلا ہے۔میرے وہم و گماں میں نھیں تھا کہ اردو الفاظ کی ادائی بھی اہم ہوا کرتی ہے۔اردو زبان و اصلاح کے حوالے سے میرے دل کے اندر انسیت اگر کسی نے پیدا کی تو وہ میرے استاد محترم فرہاد احمد فگار ؔہیں۔اصلاح زبان و ادب میں شاید ان جیسا کوئی اور کمال دسترس رکھا ہو لیکن میری نظر میں ان جیسی کوئی با کمال شخصیت نہیں ہو سکتی۔اصلاح زبان کے ساتھ ساتھ انھوں نے ہمیں یہ بھی سکھلایا کہ آئے روز ہم اشعار مختلف تقاریب،مجالس اور تقاریر میں پڑھتے چلے جاتے ہیں اور ان اشعار کے ساتھ حوالہ جات بھی غلط دیتے ہیں کہ علامہ اقبال ؔفرماتے ہیں:
؎ قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
یقیناً میں بھی اس شعر کو شاعر مشرق کی طرف منسوب کیا کرتا تھا بلاآخر استادِ محترم نے بتایا کہ یہ اقبالؔ کا شعر نہیں بل کہ مضطرؔ ؔنظامی کا ہے جن کا تعلق پاکستان کے شہر پسرور سے تھا۔ یاد رہے کہ ہم میں سے اکثریت تعلیم یافتہ لوگ بنا تحقیق کیے معروف اشعار کوغلط شاعر سے منسوب کرتے ہیں جو کہ اُردو ادب کی دنیا میں گناہ سمجھا جاتا ہے۔ہمیں تنقید سے پہلے تحقیق کرنی چاہیے پھر تنقید برائے تنقید نہیں بل کہ تنقید برائے اصلاح کرنی چاہیے۔یقیناً میرے دل میں تحقیقی جستجو اور اصلاحِ تلفظ کی چاشنی کسی نے پیدا کی تو وہ میرے استاد محترم فرہاد احمد فگارؔ ہیں۔ الغرض وقتاً فوقتاً کچھ نا کچھ نئے الفاظ سیکھنے کو ملے۔یہ وہ شخصیت ہیں کہ جنھوں نے ہمیں اردو زبان کے بنیادی قواعد سے روشناس کروایا۔ اُردو ادب کے تحقیقی میدان عمل میں استادِمحترم فرہاد احمد فگارؔ کسی تعارف کے محتاج نہیں کوئی بھی تحقیقی کام چاہے شاعری ہو یا کوئی بھی ادبی شہ پارہ ان جیسی ہمہ گیر مدلل شخصیت میری نظر میں اس شہر میںکوئی اور نہیں۔یہ بات کہنا بہ جا ہے کہ اردو ادب میں اصلاحِ تلفظ کے حوالے سے ماضی کی مشاہیرشخصیات کسی سے کم نہیںلیکن میرے نظریے کے مطابق فرہاد احمد فگارؔ صاحب کا اگر علمی، عملی اور تحقیقی کام دیکھا جائے یعنی دورِ جدید کے محققین میں اگر ان کا شمار نا کیا جائے تو یہ یقیناً نا انصافی ہو گی۔اردو ادب کے ساتھ ان کی انسیت اس قدر ہے کہ وہ اپنا اوڑھنا بچھونا ادرو زبان و ادب کو سمجھتے ہیں۔
اردو زبان و ادب کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں خود بھی اس شعبے سے تعلق رکھنے والے آئے روز غلطیاںکرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں خود یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہم اپنے طلبہ کے ساتھ گفت گو اور درس و تدریس کے وقت ایسے الفاظ اپنے زبان سے ادا کرتے ہیں کہ ہمیں خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ الفاظ کا صحیح تلفظ کیا ہے اور ہم اٹک پن کا شکار ہو جاتے ہیں کیوں کہ ہمارے ہاں تحقیق کی جستجو شروع سے ہی نہیں۔ یہ وہ تمام تر خامیاں ہیں جو کہ آج کل کے دور میں زبان زد عام ہیں۔ جب تلک ہمارے ہاں تحقیق کا مادّہ پروان نہیں چڑھتا ناممکن ہے کہ ہماری اصلاح ہو سکے۔اگر ہم مساعی کریں تووہ دن دور نہیں کہ ہم اپنے طلبہ کو ادبی چاشنی سے روشناس کروا سکیں گے۔ میرے نزدیک ان تمام تر خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔میں خود ان غلطیوں کا مرتکب تھا لیکن میرے اندر ادبی محبت اگر کسی نے پیدا کی وہ میرے استادِ محترم فرہاد احمد فگارؔ ہیں۔
٭٭٭