کون کہتا ہے کہ علمِ معاشیات کا زبان و ادب سے تعلق نہیں۔ آج بزم میں شریک ہوتے ہی علمِ معاشیات کی گرج دار آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔ معلوم ہوا کہ کسی نے یہ کِہ دیا تھا کہ کلامِ اقبالؒ کے علاوہ علمِ معاشیات کا ادب سے کوئی تعلق نہیں جس پر علمِ معاشیات کا جذبات میں آنا فطری تھا۔آج تو معاشیات سے جُڑے ادبی شاہ کاروں پر ہی بات ہو گی۔ علمِ معاشیات نے اُسی انداز میں بات جاری رکھی۔ مولانا حالیؔ مرحوم کا شعر ملاحظہ ہو؛
؎ جہاں علمِ تجارت میں نہ ماہر ہوں گے سوداگر
تجارت کی نہ ہوگی تا قیامت گرم بازاری
کیا اس ادبی فن پارے کا معاشیات سے تعلق نہیں؟ علمِ معاشیات نے مخاطَب پر سوالیہ نظریں گاڑھ دیں۔ تجارت، سوداگر اور گرم بازاری علمِ معاشیات ہی کے تو اجزا ہیں۔ ابھی یہ ناکافی ہے تو اکبرؔ الہ آبادی کے یہ معاشی شعر ملاحظہ ہو جس میں اہلِ مشرق کو اہل ِمغرب کی معاشی کارکردگی کی بنیاد پر غیرت دِلا رہے ہیں۔
؎ ضعفِ مشرق نے تو رکھا پاؤں کو چھکڑا وہی
مغربی فُقروں نے لیکن مُنہ کو انجن کر دیا
کیا انجن معاشی عامل یعنی سرمایہ نہیں؟ اِسی طرح کیا کسی شخص کا صاحبِ عقد ہونے کے لیے اس کا معاشی سرگرمی میں حصہ لینا ضروری نہیں؟ اور اسی جانب اکبرؔ الہ آبادی اپنے اس شعر میں اشارہ کر رہے ہیں۔
بے پاس کے تو ساس کی بھی اب نہیں ہے آس
موقوف شادیاں بھی ہیں اب امتحان پر
یہاں امتحان سے مراد ہی کام کاج، کمائی یا معاشی سرگرمی ہے۔ علمِ معاشیات کے لبوں پراَب تبسم کے آثار تھے جس کی وجہ سے لہجے میں نرمی پیدا ہو گی تو علمِ معاشیات نے یہ کہتے ہوئے کہ شاید آپ نے یہ شعر پہلے نہ سنا ہو جہاں اقبالؒ معاشیات کے ایک اہم عامل ِ پیدائش یعنی محنت کو درپیش مسائل بیان کر رہے ہیں۔
تو قادر و عادل ہے، مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
جناب فیض احمد فیض ؔکا یہ شعر ملاحظہ ہو ۔ذرا توقف کے بعد علمِ معاشیات نے کہا۔جس میں معاشی نظام میں خرابی کی نشان دہی کرتے ہوئے عاملینِ پیدائش زمین اور محنت دونوں کا ایک ساتھ تذکرہ کر رہے ہیں۔
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی
اسی طرح حبیب جالب اپنے ایک شعر میں عاملینِ پیدائش زمین،سرمایہ اور تنظیم کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی بات بیان کر رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
زمینیں ہو ں وڈیروں کی مشینیں ہوں لٹیروں کی
خدانے لکھ دی ہے یہ تمھیںتحریر مولانا
کیاساغرؔ صدیقی کا یہ شعر معاشیات سے متعلق نہیں ہو سکتا؟ علمِ معاشیات نے پھر سوالیہ انداز اختیار کیا۔ جس میں شاعر محنت، سرمایہ اور پیداوار کے ذِکر سے اپنے جذبات کا ا ِظہار کر رہا ہے۔
زَر دارتوقع رکھتاہے نادار کی گاڑھی محنت پر
مزدور یہاں بھی دیوانے، ذیشان یہاں بھی اندھے ہیں
اسی طرح ساغرؔ صدیقی کا یہ شعر ملاحظہ ہو جس میں محنت کے زوال اور سرمایہ کے عروج کی جانب خوب صورت اشارہ مل رہا ہے اور معاشی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کی جانب توجہ دلائی جا رہی ہے۔
انقلابِ حیات کیا کہیے
آدمی ڈھل گئے مشینوں میں
جناب انورؔ مسعود کے اشعار میں بھی معاشیات کی آمیزش پائی جاتی ہے۔ مثلاً
روزی کے تفکر میں بہت دور چلا ہے
تیشے کو سنبھالے ہوئے مزدور چلا ہے
مزدور عاملِ پیدائش ''محنت'' جب کہ تیشہ ''سرمایہ'' ہے اور روزی کی فکر معاشی سرگرمی۔ لیکن اس میں ایک معاشی نکتہ اور بھی ہے جو معاشیات سے جڑے لوگ زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور وہ ہے عاملینِ پیداش کی نقل پذیری یعنی محنت اور سرمایہ کا ایک مقام سے دوسرے مقام بہتر مواقع کی تلاش میں نقل مکانی کرنا۔ شرکامنہمک تھے اوراَب علمِ معاشیات بھی نرم گفتار۔ توقف کے بعد علمِ معاشیات گویا ہوا۔ اِنھی کا ایک اور شعر ملاحظہ کریں جس میں معیشت کی اہمیت یوں اجاگر ہو رہی ہے کہ اس دور میں جنگ اسلحے سے نہیں بل کہ معیشت سے لڑی جا رہی ہے۔
جو نو آبادیاتی تھے شکنجے
وہ سارے مالیاتی ہو گئے ہیں
قتیلؔ شفائی کا بڑھتی طلب اور چڑھتی قیمت سے جُڑا یہ خوب صورت شعر ملاحظہ کریں۔
حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
اَب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں
اسی طرح احمد فرازؔ محبت کے جذبات کو کس خوب صورت انداز سے معاشی جامہ پہنا رہے ہیں:
دِن کے ڈھلتے ہی اُجڑ جاتی ہیں آنکھیں ایسے
جس طرح شام کوبازارکسی گاؤں میں
نسیم سید کا زیرِ نظر شعر محنت کش خاتون کی معاشی جدوجہد کو الفاظ کی صورت دیتے ہوئے معاشیات کی خوب صورتی عیاں کر رہا ہے:
ہنرکی چادر بازیب اس نے پہنی ہے
معاشیات کی پازیب اس نے پہنی ہے
بوئی ہزارہ کے درویش آصف ؔثاقب تعلیم میں روا غربت اور امارت سے پیدا ہونے والے معاشی مسائل کی جانب یوں اشارہ کر رہے ہیں؛
بستی میں اِک امیر نے کھولا ہے مدرسہ
لیکن غریب بچوں کو داخل نہیں کیا
اسی طرح ڈاکٹر عابد سیاؔل کا معاشی اور معاشرتی معاملات کے حسین امتزاج سے مزین یہ شعر ملاحظہ ہو؛
یہ چائے خانوں کی میزوں پہ قہقہوں کے شریک
دلوں میں جھانک کے دیکھو تو سب کے سب تنہا
حیدرؔ علی جعفری کا یہ خوب صورت شعر جس میں مزدور اور سرمایہ کا حسین امتزاج اجاگر ہو رہا ہے؛
خون مزدور کا ملتا جو نہ تعمیروں میں
نہ حویلی نہ محل اور نہ کوئی گھر ہوتا
تنویر سپراکا بہترین اور ضرب المثل کا درجہ پانے والا معاشی شعر جوعاملینِ پیدائش، محنت(میں)، سرمایہ(لوہا یعنی خام مال)، تنظیم(مل مالک)اور پیداوار(کستوری اور خوش بُو)کاحسین امتزاج بھی ہے اور نظام کی خامی کی طرف اشارہ بھی۔
آج بھی سپراؔ اُس کی خوش بُو مل مالک لے جاتا ہے
میں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں
رانا سعیدؔ دوشی کا یہ خوب صورت شعر جس میں معاشی متغیرات کا استعمال کرتے ہوئے شاعر سماجی مشکلات بیان کر رہا ہے۔ ملاحظہ ہو؛
حصص میں بانٹ رہے ہیں مجھے میرے احباب
میں کاروبارِ شراکت میں مارا جاؤں گا
فرہاد احمد فگاؔر کا یومِ ِمزدور کے حوالے سے یہ معاشی شعر جواپنے نام پر ہونے والی چھٹی کے دِن بھی صرف محنت کشی کر رہا ہے اور اپنی معاشی سرگرمی کے جاری رہنے کی فکر میں ہے۔
مزدوروں کے نام پہ اَب کے بھی
کچھ لوگوں نے صرف سیاست کی
یہ اور اس کے علاوہ اور بہت سے اشعار بھی ہیں جن کا براہ راست معاشیات سے تعلق ہے۔ علمِ معاشیات نے نرمی سے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ میری خواہش ہے کہ میں سارے اشعار ڈھونڈ ڈھونڈ کر آپ کو سنا دوں۔
ہم اَدب اور علمِ معاشیات کے آپسیں تعلق کے قائل ہیں۔ شرکاء میں سے کسی نے کہا۔ اگر کسی بات سے آپ کو تکلیف پہنچی تو ہم سب معذرت خواہ ہیں۔ علم معاشیات نے بھی شرکاکو سراہا اور یوں سب نے علمِ معاشیات کو گلے لگا کر آج کی بزم کا خوش گوار اختتام کیا۔
٭٭٭