بہت دور نہیں یہ ابھی کچھ زمانہ قبل کی ہی تو بات ہے کہ ہم اپنی نانی اماںاور دادی جان سے بڑے چائواور لگائوٹ سے کہانیاں سناکرتے تھے۔ اپنی جیب خرچ سے پیسے بچا بچا کر کفایت شعاری کامظاہرہ کرتے ہوئے آٹھ آنے ،ایک روپے اور دو روپے کی مختلف ،رنگا رنگ اور دل چسپ کہانیاں لے کر بڑی دل جمعی اور شوق سے پڑھاکرتے تھے اور یہ کہانیاں جمع بھی کیا کرتے تھے۔ عمروعیار کی کہانیاں، حاتم طائی کی کہانیاں، ٹارزن اور طلسماتی کہانیاں پڑھ کربچپن میں ہم نہ صرف حظ اٹھاتے تھے بل کہ اِن کتابچوںسے سبق بھی حاصل کرتے تھے۔
؎یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں ؟
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
(اقبالؔ)
اقبال ؔکانام محتاج تعارف نہیں وہ نہ صرف ایک عظیم مفکر تھے بل کہ بڑے شاعربھی تھے۔ برصغیر میںغالِبؔ کے بعد اقبالؔ ہی کو اردو کا بڑا شاعر مانا جاتا ہے۔انھوں شاعری کے ذریعے اپنے ہم وطنوں کے دلوں میں اُمید،یقین،اعتماداور آدرش کی جوت جگائی ۔اقبالؔ کو یہ مقام و مرتبہ کتاب دوستی سے حاصل ہوا۔وہ رات بھر بیٹھ کر حصول علم کے لیے کتاب میں غرق رہتے تھے ۔ اُن کی کتاب دوستی نے ہی اُن کو وہ نام بخشاجو کسی اور کے حصے میں نہ ٓیا۔ اُن کے کام نے اُن کے نام کو ملک کی سرحدیں عبورکر کے اقصائے عالم پر محیط کرنے پر مجبور کر دیا ۔ مسلمانوں کی غفلت کے سبب جب اُن کا قیمتی علمی سرمایہ یورپ کے پاس چلاگیاتواقبالؔ نے اُس پر بہت افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا
؎مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
کسی دانش ور نے کہاہے ’’کتاب بہترین رفیق ہے‘‘۔ بے شک کتاب بہترین دوست ،معلم،ناصح، مشفق اور عظیم رہنماہوتی ہے۔ بچے تو بچے بڑے بھی وقت گزاری کے لیے کہانیوں ،ناولوں کو کماحقہ اہمیت دیتے تھے ۔علم ایک ایسا سمندر ہے جس کی کوئی انتہانہیں اور بلاشبہ کتاب حصول علم کا بہترین ذریعہ ہے ۔ علم کی روشنی سے ہی انسان اس تاریک معاشرے میں روشنی پھیلاسکتا ہے ،زندگی کی اونچ نیچ سکھاسکتا ہے۔ کتاب ہمیں زندگی کے نشیب و فراز سے آشناکرنے کے علاوہ مشکلات سے بھی آگاہ کرتی ہے اور عقل و شعورکی وہ قوت عطاکرتے ہیں جس کے ذریعے ان مشکلات سے مقابلہ ممکن ہے ۔ کتاب بہترین مونس وغم خوار ہے جو کنج تنہائی میں ہماری بہترین انیس ہے ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
؎رفیق کنج تنہائی کتاب است
فروغ روح دانائی کتاب است
یہ ایسا مخلص دوست ہے جو سفر و حضرمیں ـدن اور رات میں ہر جگہ ہرلمحہ ہمارا ساتھ دینے ، ہمیں بہلانے کے لیے تیار رہتا ہے ،عمربھر وفاداری کے ساتھ ہماری خدمت کرتا ہے۔ یہی کتاب ہے جو ہمیں تاریخ ،بزرگوں کے حالات ،بلند پایہ مصنفوں کے خیالات سے آگاہ کرتی ہے ۔ہمارا سرمایہ تاریخ لازول دولت کے طورپر کتاب کی صورت میں موجود ہے۔ کتاب ایک ایسا خزانہ ہے جس کو پڑھ کر ہم تجربہ کار حکماکے بیش قیمت اقوال سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ انتخاب کُتب ایک اہم مرحلہ ہے ۔پاکیزہ اور اچھی کتابوں کے مطالعے سے طبیعت میں تازگی اور شگفتگی پیدا ہوتی ہے اور دماغ کی ساری تھکاوٹ دورہوجاتی ہے۔بلاشبہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے ۔اکثر اوقات جب انسان اُداس ہو تو کتاب کے ساتھ لگائو اور مطالعہ کتب طبعیت میں بشاشت کا باعث بنتی ہے ۔یہی کتاب دوستی انقلابات بھی لاتی ہے ، اسی سے قوموں کی تاریخ بدلتی ہے ،بڑی بڑی سلطنتیں تہ و بالا کرنے میں کتاب کا بہت اہم کردار ہے ۔مشہور روسی سیاست دان ’’لینن‘‘نے انقلاب روس میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہر شخص واقف ہے لیکن اس کے پیچھے اہم وجہ کیا تھی یہ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے ۔’’لینن‘‘نے اُس وقت کے معروف ناول نگار میکسم گورکی کا ناول’’ماں‘‘ پڑھا جس نے اُسے تحریک دی علاوہ ازیں اُس نے کئی رسائل اور کتب کا مطالعہ بھی جاری رکھا اور روس میں تبدیلی لائی ۔
کتاب کی اہمیت سے کسی صورت انکار ممکن نہیں ۔ کتاب کی اہمیت کا انداز اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں انسانوں کی اصلاح کے لیے وقتاً فوقتاً پیغمبر بھیجے جنھوں نے لوگوں کو شعور عطاکیا۔اللہ تعالیٰ نے صرف اسی پر اکتفانہیں کیا بل کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے صحیفے بھی بھیجے اور نبی آخرالزمان حضر ت محمدﷺ پر آخری کتاب قرآن مجید کو اتاراجوکہ تاقیامت ہدایت کی آخری کتاب ہے ۔نہ صرف معلومات کا خزانہ بلکہ تاریخ سے آگاہی کا سبب اور زندگی کے ہر شعبے میں انسان کو رہنمائی عطا کرتی ہے ۔زمانے نے کروٹ بدلی جہاں بہت سے انقلابات رونماہوئے دنیا میں وہیں انسان کے مزاج میں بھی خاطر خواہ تبدیلی آگئی جس نے اُسے بہت سے معاملات میں پستی کا بھی شکار کر دیا۔
’’کتاب آشوب‘‘دورجدید کا بہت بڑا المیہ ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس جدید دورمیں رفتہ رفتہ کتاب کا وجو د معدوم ہوتا جارہا ہے ۔مطالعہ کتب کا روجحان کم ہو رہا ہے ۔سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کو کتاب سے دور کر کے بے راہ روی کا شکار کر دیا ہے ۔ علم وہ روشنی ہے جس سے انسان اپنی ذات اور تمام انسانیت کو ماضی ، حال اور مستقبل کے آئینے میں دیکھ اور پرکھ سکتا ہے اور یہ آئینہ کتابوں کی صورت میں ملتا ہے۔
دوسوسال قبل تک ڈگری کا کوئی وجود نہ تھا لوگ علم کبھی بھی کسی ڈگری کے لیے حاصل نہ کرتے تھے علم و حکمت شخصیت میں نکھار پیدا کرتی تھی اور ڈگری کے کوئی بھی اہمیت نہ تھی۔ انسان اپنی حکمت ودانائی، دانش وّری اور فن کی بنیاد پر ملازمت کرتا تھا۔ آج کتاب صرف ڈگری کے حصول کا ذریعہ بن چکی ہے اور کتب بینی آج طبیعت پر گرانی کا باعث ثابت ہو رہی ہے ۔ سوشل میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ مگر اُس نے کتاب کی اہمیت کو اس قدر کم کر دیا ہے کہ نوجوان آج لائبریریوں کا رُخ کرنے کی بجائے انٹرنیٹ پر کتاب پڑھ کر صرف ڈگری کی حد تک اس سے فیض یاب ہوتا ہے ۔
عصر ِحاضر میں کتاب فقط فیشن بن کر رہ گئی ہے کچھ عرصہ قبل گھروں میں کتابوں کو باعث رحمت سمجھا جاتا تھا آج کتابیں صرف گھر کی زینت میں اضافہ کر رہی ہیں اور رفتہ رفتہ گھروں میں ان کا وجود بھی ناپیدہوتاجارہا ہے ۔اچھی کتب کا مطالعہ بہترین دوست کی طرح ہماری زندگی کی اعلیٰ قدروں سے روشناس کراتی ہے ۔کتاب گھر بیٹھے ہمیں کائنات کی خوب صورتی ، رنگوں اور موسموں کا احساس دلاتی ہے ، کبھی ہنساتی ہے تو کبھی رُلاتی ہے اور کبھی کبھار تو قہقے لگانے پر بھی مجبور کرتی ہے ۔ کتاب اپنے وجود میں دُنیا کے ہر رنگ سموئے ہوئے ہے ۔ غرض کون ساایسا موضوع ہے جو کتاب میں بیان نہ ہوا ہو۔حیف صد حیف !آج انسان، معاشرے اور قوم کی تنزلی کی بہت سی وجوہات میں کتاب سے دوری بھی اک اہم وجہ ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ کتاب سے بھی وابستگی قائم کریں اگر ہم مطالعہ کتب کی عادت کو اختیار کریں گے تو کئی برائیوں سے از خود بچ جائیں گے ۔کتاب ہی ہے جس نے قوموں کو وقار اور تمکنت بخشی اور آج دنیا کی بیشتر قومیں اپنی کتب اور اپنی لائبریریوں کے حوالے سے ہی پہچانی جاتی ہیں۔ بغداد ، لندن،استنبول وغیرہ دنیاکے اُن شہروں میں سے ہیں جن کی لائبریریاں بہ طور مثال پیش کی جاتی ہیں۔ کتابوں کی دُنیا آباد رہنی چاہیے اور اس دُنیا کی رنگینیاں کبھی ماندنہیں پڑنی چاہیں ۔ مطالعہ کتب کی اس زبوں حالی کا نوحہ نوجوان شاعر حسنؔ ظہیر راجا نے یوں بیان کیا ہے
؎قصے کہانیوں کی وہ دُنیا تو خوب تھی
پھر یوں کہ میں کتاب سے آگے نکل گیا
واقعہ ہی ہم کتاب سے آگے نکل چکے ہیں ہمیں کتاب سے تعلُق بنانا ہو گا ۔جو ہمیں آنے والی تباہی سے بچانے میں معاونت کرے گا۔۔آپ بھی سوچیے۔
٭٭٭