وادی نیلم کو مشرق کی ملکہ حسن کہا جاتا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے اس کا آغاز مظفرآباد دومیل سے ہوتا ہے اور بلند ہوتے ہوتے تین سو کلو میٹر دور، کوہ برزل اور کوہ ہرمکھ کے دامن میں جلوہ پاش جھیل، اشنہ سر پر اس کا اختتام ہوتا ہے۔ انتظامی تقسیم کے لحاظ سے وادی نیلم، ضلع نیلم پرمشتمل ہے۔ جس کا صدر مقام اٹھمقام ہے۔ اس کی دو تحصیلیں اٹھمقام اور شاردہ ہیں۔ انتظامی تقسیم کے اعتبار سے اس کی لمبائی تقریبا دو سو کلو میٹر ہے۔ یہ جنت نظیر وادی بلند و بالا پہاڑوں، گھنے جنگلات، خوب صورت باغات، دل کش سبزہ زاروں، پرکیف جھیلوں، سیمابی چشموں، ندی نالوں، دودھیا جھرنوں اور پیارے لوگوں سے مزین ہے۔ دریائے نیلم اس کے بیچوں بیچ بل کھاتا بہتا جاتا ہے اور دومیل کے مقام پر اپنا وجود اور شناخت دوسرے جڑواں بھائی دریائے جہلم کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس وادی کی جادو نظارگی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ جو اسے ایک بار دیکھنے آیا تو اس کا جسد مجبوراً واپس گیا، دل یہیں رہ گیا۔ جب پڑوسی ممالک میں چلچلاتی دھوپ پڑ رہی ہوتی ہے تویہاں موسم نہایت خوش گوار اور معتدل ہوتا ہے۔ سردیوں میں وادی کے اسی فی صدحصے میں شدید برف باری ہوتی ہے اور کڑاکے کا جاڑا پڑتا ہے۔
اس وادی کو سیاحوں کی جنت بھی کہا جاتا ہے۔ جہان بھر سے لوگ اس جنت وادی کی سیر کی خاطر آتے ہیں۔ اس جنت وادی کے پرفضا اور قابل دید مقامات میں کنڈل شاہی، اٹھمقام، کٹن جاگراں، لوات، دواریاں، شاردا، وادی سرگن، کیل، اڑنگ کیل، سرداری، تاؤ بٹ، رتی گلی جھیل، کٹورا جھیل، چمچ جھیل، چٹا کٹھہ جھیل، پتلیاں جھیل وغیرہ شامل ہیں۔
اس فردوس نشاں وادی کے مکینوں کے علم وفضل کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ جب باقی سو رہے تھے تو شاردہ(کشن گنگا، موجودہ وادی نیلم) جاگ رہا تھا۔ علم و دانش دور دور تک بکھیر رہا تھا۔ ایک جانب کلکتہ اور دوسری جانب وسطی ایشیا سے علم و دانش کے پیاسے کنشک اول کی قائم کردہ یونی ورسٹی شاردہ میں حاضری کا اعزاز حاصل کیا کرتے تھے۔ ہندوستان اور وسطی ایشیا کا واحد راستہ شاردہ سے ہو کر گزرتا تھا۔ البیرونی جو گیارہویں صدی کے دوسرے تیسرے عشرے میں ان علاقوں میں رہا تو وہ اس نگری کے مکینوں کی ذہانت کا ''کتاب الہند'' میں یوں اعتراف کرتا ہے:
''میں نے دنیا کے ذہین ترین لوگ دریائے کشن گنگا کے آرپار آباد دیکھے ہیں۔''۱ ؎
یاد رہے کہ۱۹۷۵ء تک اس وادی اور دریا کا نام '' کشن گنگا'' تھا۔ لیجنڈری استاد اور شاعر انور مسعود نیلم ویلی اور اس کی کشتِ سخن کی مدح میں یوں رقم طراز ہیں۔
''میں دنیا بھر گھوما، ہر جگہ جانے کا اتفاق ہوا لیکن نیلم ویلی جیسا دل کش خطہ اور اس خطہ کے جفا کش، باہمت ذہین ترین اور رزقِ سخن سے مالامال لوگ کہیں نہیں دیکھے ۔''(۲)
اجڑ جانے والی قدیم تہذیبوں سے ہٹ کر نئے زمانے کی رو سے نیلم کے ادبی منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو نامساعد حالات، دورافتادگی جیسے مسائل کے باوجود نیلم کی کشت سخن مقابلتا زرخیز نظر آتی ہے۔ ستم ظریفی کا پہلو یہ ہے کہ ایک صدی پیچھے کے کسی بھی شاعر کا کلام محفوظ نہیں رہ سکا۔ احمد وقار میر نے وادی نیلم کے شعرا کے منتخب کلام کہکشاں میں لکھا ہے:
‘‘ضلع نیلم آزاد کشمیر کا ایک مردم خیز علاقہ ہے۔اردو کی محبت اس علاقے کے لوگوں کی رگوں میں خون کی طرح رجی بسی ہے۔یہاں کے اہل ادب ِ کی نثری اور شعری کاوشوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ ان کی مادری زبان ہندکو ہے یا اردو۔’’(۳)
نیلم شعری روایت کے اعتبار سے بے مثل رہا ہے۔ دیسی پہاڑی لوک گیت، ماہیے، چاربیتے اور دیسی سہ حرفیاں صدیوں سے نیم کی ثقافت کا حصہ رہی ہیں۔ یہ لوک کلام زیادہ تر ہندکو زبان میں ہی موجود ہے۔یہاں کا دو صدی قدیم لوک گیت ''قینچی'' اتنا مقبول ہوا کہ اب بیسیوں ورژنز میں دستیاب ہے۔ قینچی درشی کے بن میں رہنے والی ایک ہجر زدہ دوشیزہ کا دل فگار کلام ہے جو زبان زد عام ہے۔ درشی کا بن اب بھی اشکوٹ سے ملحقہ علاقے میں موجود ہے۔ نیلم میں اردو شاعری پر نگاہ کی جائے تو پہلا نام بابا عبداللہ کا آتا ہے۔ وہ نیلم میں مساجد کی تعمیر کے حوالے سے معروف ہیں۔ ان کی تعمیر کردہ مساجد کا استعمال زیادہ تر شک زدہ لوگوں کو قسم اٹھوانے کے لیے کیا جاتا ہے۔صرف چند مساجد کو ہی معبد کے طور پراستعمال کیا جاتا ہے۔ بابا عبداللہ کے شاعر ہونے کے بارے میں مشہور ہے مگر ان کا ایک شعر بھی محفوظ نہیں۔ نہ کسی یادداشت خانے میں، نہ کسی ورق پر۔
ان کے بعد نظر دوڑائیں تو منشی عزیز شیخ عزیزؔ کا نام سامنے آتا ہے۔ آپ انیس ویں صدی کے آخری عشرے میں دریائے نیلم کے بائیں کنارے پر واقع گاؤں بگنہ بالا(موجودہ ہندوستانی مقبوضہ) میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۱ء میں مع اہل و عیال اٹھمقام میں منتقل ہو گئے۔ فارسی اردو اور ہندکو تینوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ سربراہان ریاست جب بھی دورے پر جائیں تو ان سے کلام سنانے کی فرمائش کیا کرتے تھے۔ کلام زیادہ تر حمدیہ نعتیہ ہے۔۱۹۷۱ء میں انتقال کیا۔ نمونہ کلام پیش خدمت ہے۔
دلوں کا محرم، سبھی کا خالق، سبھی کا رازق، خدا ہمارا
ہیں لاکھوں قومیں جہاں میں لیکن، رکھا ہے رتبہ جدا ہمارا
ہم اس کی تعریف کیا کریں گے، امام نبیوں کا ہم کو بخشا
عزیزؔ بھی چھوٹ جائے گا جب کہیں گے ''آیا گدا ہمارا''
اسی طرح شاردہ کی نواحی بستی کے ایک مشہور و معروف مذہبی پیشوا،حضرت مولانا شجاع الحق جوبرطانوی ہندوستان کے دارلعلوم سے فارغ التحصیل تھے، شعر سے بہت شغف رکھتے تھے۔ ان کا مطبوعہ کلام بھی دستیاب نہیں۔ سینہ بہ سینہ محفوظ کلام میں سے نمونہ ملاحظہ ہو۔:
تکبر نہ کر ہم سے دربان جاناں
کہ ہم بھی یہاں پاسباں رہ گئے ہیں
زمانے کے دامن پہ تیرے لہو کے
مٹائے مٹائے نشاں رہ گئے ہیں
مطبوعہ شعری مجموعوں کے حوالے سے بات کی جائے تو محترمہ ڈاکٹر آمنہ بہار کو ضلع نیلم ویلی کی پہلی صاحبِ کتاب شاعرہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان کے بعد لطیف آفاقی کی کتاب '' ستارہ ایک سا ہے'' منصہ شہود پر آئی۔کشت سخن کی آبیاری کرنے کی بات ہو۔ شعر کہنے کہلوانے کی بات ہو، بزم ہائے سخن آراستہ کرنے کی بات ہو تو عبدالبصیر تاجور، لطیف آفاقی، اقبال اختر نعیمی اور ضیاالرحمن ضیا پہلی صف میں سخن آرا نظر آتے ہیں۔ذیل میں چند موجودہ سرخیل شعرا و سخن وروں کے کلام اور کام کا جائزہ لیا جاتا ہے جو کہ نیلم خطہ کے ادبی منظرنامے پرمثالِ آفتاب و ماہتاب وارد ہوئے۔
ڈاکٹرسیدہ آمنہ بہار کا تعلق دواریاں نیلم ویلی سے ہے۔ اردو میں پی ایچ ڈی ہیں۔شعبہ درس و تدریس سے منسلک رہیں اور کئی انتظامی عہدوں پر بھی برجمان رہیں۔آج کل ریٹائرڈ لائف انجوائے کر رہی ہیں اور شعبہ اردو جامعہ آزاد جموں و کشمیر کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔مشاعروں میں بھی خوب داد سمیٹتی ہیں۔ آزاد کشمیر کی شاعرات میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ نوے کی دہائی میں آپ کی شاعری کا ایک مجموعہ ’’چناروں کی آگ ‘‘شائع ہو کر داد موصول کر چکا ہے۔ دیگر کچھ کتب ہنوز زیر طبع ہیں۔ایک اور مجموعہ‘‘منکشف’’بھی جلد اشاعت پذیر ہو گا۔ آپ نے شاعری کی صنف نظم اور غزل دونوں میں طبع آزمائی کی ہے اور دونوں اصناف پر بھرپور دسترس رکھتی ہیں۔ آزاد کشمیر بھر میں بجا طور پر سینئر اور اہم شاعرہ شمار کی جاتی ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظ ہو:
سرِ شاخ تمنا جو کھلا ہے
یہ گل ہے یا کوئی حرفِ دعا ہے
کہاں تک روشنی محفوظ ہوگی
ہوا کی دسترس میں ہر دیا ہے
میں اندھے موسموں سے کہا کہوں گی
تری بینائی سے مجھ کو گلہ ہے
یہ تنہائی تو ہے میری سہیلی
پسِ الفاظ اک ٹیلہ لگا ہے
ابھی میں منکشف خود پر نہیں ہوں
زمین پہ رہ کے بھی زیر زمیں ہوں
ڈاکٹر سیدہ آمنہ بہار روناؔ نیلم ویلی کے دبستان کا مستقل ستارہ ہیں۔ ان کے لطف و کرم کے فیض کئی علم و ہنر اور سخن کے دیے جل رہے ہیں۔ ان کے ہاں موضوعاتِ سخن کی بھرمار ہے۔ ان کے ہاں الفاظ و تراکیب کی کوئی قید نہیں۔ آج کل بھی ڈاکٹر صاحبہ علم و ہنر کے میدان میں اپنی تابہ مقدور خدمات سرانجام دے رہی ہیں اور ادب پروری میں مصروف ہیں۔
عبدالبصیر تاجور،تاجور تخلص کرتے ہیں۔ ۹۸۳ٍ۱ء کو اٹھمقام میں پیدا ہوئے۔ اعزازات کے ساتھ زبان و ادب کی ڈگریاں لی۔ عربی، اردو، فارسی اور انگریزی زبان و ادب میں دسترس رکھتے ہیں۔ انگریزی میں دو کتب Lang-Pith اور Paragonic Thoughts منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ’’یوسف دوراں‘‘ کے نام سے ایک تنقیدی کتاب بھی منصہ شہود پر آ چکی ہے۔ غزلیات، نظموں اور مزاحیہ قطعات کے تین مجموعے زیر طباعت ہیں۔ ہر صنف سخن کو اعتبار بخشا ہے اور نیلم ہی نہیں کشمیر کے شعری منظر نامے پر توانا آواز ہیں۔ منفرد شعری آہنگ کے سبب نسل نو کا مرجع ہیں۔ عروض و تنقید پر بھی دسترس حاصل ہے۔ اس وادی میں ادب و شعر و شاعری کے سرخیل دکھائی دیتے ہیں۔ سخن سنجی، سخن آرائی کے ساتھ ساتھ سخن پروری بھی ان کا شیوہ و شعار ہے۔ بہ قول ناز مظفرآبادی:
''غزل ہو یا نظم، نعت ہو یاحمد، مزاح ہو یا نقد، تاجور صاحب نے ہر صنف سخن کو اعتبار بخشا ہے۔''(۴)
بہ قول انور مسعود:
'' اس نوجوان کی دسترس، تخیل اور شعری جلوے نے مجھ شاعر کو بھی گونگا کر دیا ہے''(۵)
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
دلبرا! بہرِ خدا، ڈال دے پھیرا مڑ کر
دل میں چبھتا ہے ترے نام کا صفحہ مڑ کر
زندگی ہاتھ میں جنت لیے دوڑی پیچھے
ہم تری دُھن میں مگن تھے، نہیں دیکھا مڑ کر
تم جو کہتے ہو اُسے اب تو بھلا دوں یارو
کیا پہاڑوں پہ چڑھا کرتے ہیں دریا مڑ کر؟
پارَسا! ہاتھ ملا، خاک سے سونا کر دے
پھر سے دُھتکار، بنے راکھ وہ سونا، مڑ کر
تم کو ہونٹوں سے کروں پیش خراج ِ تحسیں؟
ہاں، بُرا لگنے پہ لے سکتے ہو بدلہ مڑ کر
تاجور صاحب دبستاں کشمیر کا معتبر استعارہ شمار کیے جاتے ہیں۔ فروغ علم و ادب سوسائٹی پاکستان و دنیا بھر میں ان کا شہرہ ہے۔ استادان فن میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اس جنت وادی میں اردو شاعری کی روایت کو صحیح معنوں میں لے چلنے کا بیڑا اٹھایا اور کمال نبھایا۔ نوجوان شعرا کی بڑی تعداد ان کے ہنر کا اعجاز ہے۔ ان کے سکھائے ہوئے بھی اب اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں اس بنیاد پر قلم قبیلے میں انہیں بجا طور پر استاد الاساتذہ کہا اور مانا جاتا ہے۔
لطیف آفاقی کا تعلق کٹن سے ہے۔ ۱۹۷۹ء میں پیدا ہوئے۔ آزاد جموں و کشمیر یونی ورسٹی سے ایم۔اے اردو کا امتحان پاس کیا۔سعودی عرب سے ایم۔اے عربی کی ڈگری حاصل کی۔ تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ قرطبہ یونی ورسٹی سے بھی منسلک رہے۔ نیلم ویلی کی موجودہ ادبی فتنہ سامانیوں کے موجد ہیں۔ آپ انتہائی نغز گفتار شاعر ہیں۔ بقول امجد اسلام امجد:
''لطیف آفاقی کی شاعری میں اسی عصری تازگی کا احساس ہوتا ہے جو ان کے ہم عصر اچھے شعرا کی پہچان ہے۔نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
ایسی ہستی سے آشنا ہوں میں
اک محبت کا سلسلہ ہوں میں
ایک عالم ہے مجھ میں حیرت کا
چشمِ بینا سے دیکھتا ہوں میں
اک نمی سی میرے وجود میں ہے
شاید اس آنکھ میں رہا ہوں میں
کبھی چپ بھی رہوں تو آفاقی
اپنے شعروں میں بولتا ہوں میں
لطیف آفاقی کی شاعری میں ندرت اور نئی جہات کی فرواوانی پائی جاتی ہے۔ شعرو ادب پرور ہستیوں نے ان کی شاعری کی بھرپور تعریف کر رکھی ہے۔
اقبال اختر نعیمی کنڈل شاہی کے مکین ہیں اور ریٹائرڈ لائف انجوائے کر رہے ہیں۔ آپ فروغ علم و ادب سوسائٹی نیلم کے بانی صدر بھی ہیں اور موجودہ سرپرست اعلا بھی۔ شاعری اور تنقید نگاری ان کے عمومی میدان ہیں۔ نیلم کے معتبر اصحاب علم و فضل میں شمار کیے جاتے ہیں۔اچھے خاکہ نگار بھی ہیں۔ دیگر شعری اصناف کے ساتھ ساتھ غزل اورآزاد نظم کو بھی منصہ شہود پر لانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
کروں اظہار مطلب ان کے آگے کس طرح سے میں
صدائے کن سے پر رونق غزل خوانی بہت مشکل
بھری محفل میں سندیسہ جودے قاصد تو کیسے دے
ہے بات ایسی جو محفل میں ہے بتلانی بہت مشکل
نعیمی مت کرو برباد اوقات عزیز اپنے
سلیقے سے تو اب کے ہے غزل خوانی بہت مشکل
اسی طرح حضرت نعیمی صاحب اس وادی میں علم و ہنر اور ادب کی خوشبو بکھیر رہے ہیں۔ ان کی مزاحیہ شاعری، نثر پارے اور شاعری کے موضوعات کا دائرہ کار سماجی مسائل اورنیلم سے لے کر چناب تک پھیلا ہوا ہے۔ نیلم ویلی کے ادبی و علمی مستقبل سے پر امید اقبال اختر نعیمی کے ادبی منظر نامے کا اعتبار ہیں۔ حق نواز مغل لوات نیلم ویلی میں متولد ہوئے۔ بسلسلہ تعلیم اور ملازمت عرصہ دراز سے مظفرآباد میں مقیم ہیں۔ ایم۔اے اردو کے ساتھ ساتھ جیالوجسٹ ہیں۔ شاعری کی دو کتب ''ذرا سی رات ڈھل جائے'' اور‘‘ نہیں میں تنہا نہیں ہوں’’منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ ڈاکٹر صابر آفاقی لکھتے ہیں:
''مجھے امید ہے کہ حق نواز جیسا ذہین نوجوان فنِ سخنوری کے رموز سیکھنے کی کوشش کرے گا اور وہ اپنی تمناؤں اور آدرشوں کا اظہار بہتر طور پٌر کر پانے میں کام یاب ہو جائے گا۔ اسی طرح حق نواز آزاد کشمیر کے حلقہ سخنوراں میں ایک مقام ضرور حاصل کرے گا۔''(۶)
ایک غزل سے چند اشعار:
یتیم بچوں کی بازیابی کو جوگئے تھے
خبر ملی ہے کہ ان کے بچے اٹھا دیے ہیں
ہماری ملت کی ذلتیں بھی بجا ہیں کیونکہ
بڑی جگہوں پہ بھی سارے چھوٹے بٹھا دیے ہیں
یہ میکدے سے نکل کے جو ڈگمگا رہے ہو
کسی نے لگتا ہے غم زیادہ پلا دیے ہیں
خدا خدا کر کے پہلا صدمہ بھلا رہا تھا
کسی نے کاغذپہ پھر سے دو دل بنا دیے ہیں
ان کی شاعری میں بلا کی ندرت اور جدت اور فروانی مضامین بہ مقدور پائے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری غم جاناں، غم دوراں، غمِ روزگار، غمِ دہر، غمِ سماج، غمِ انسانیت اور غمِ حیات کے گرد گھومتی ہے۔
بدرالحق بدر کی ۱۹۶۷ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق کھریگام نیلم وادی سے ہے۔ سینئر مدرس ہیں۔ تعلیمی کیرئیر انتہائی شان دار ہے۔ اسلامیات، تاریخ اور ایجوکیشن میں ایم۔اے کیا ہے۔ اسلامیات اور تاریخ میں گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ آزاد کشمیر بھر میں تعلیمی کیرئیر کا مقابلہ ٹاپ کرنے پر صدارتی تمغے اور اعزاز سبقت کے حامل ہیں۔ کشتِ سخن انتہائی سیراب و زرخیز ہے۔ پہلے رضوان تخلص کرتے تھے لیکن اب بدر تخلص کرتے ہیں۔ نمونہ کلام دیکھیں:
اے دنیا آگیا رونا تری اس بے ثباتی پر
ترے ہر گھر میں ماتم ہے ترے شہروں میں ویرانی
کہیں سکھ چین دیتی ہے کہیں آلام لاتی ہے
جو اک گھر میں ہے آبادی تو سوخانوں میں ویرانی
کبھی جو تجھ سے بالا تھے وہی زیر زمیں اب ہیں
نہ صحرائی بچا تجھ پہ، کوہساتانی نہ میدانی
موضوعاتِ دل چسپ اور پسندیدہ ہیں۔زیادہ تر دنیا کی بے ثباتی، موت کی تلخی، اندوناکیاں، غمِ جاناں، غمِ دوراں، دکھی اندانیت کے دورد، غم و آلام، ہجرو فراق اور دیگر آدمیت کے مسائل ہیں۔
مزاحیہ شاعری کی بات کی جائے تو ضیاالرحمن ضیا کشمیر بھر میں اپنے کلام کا لوہا منوا چکے ہیں۔ پیروڈی ان کا خاص میدان ہے۔ مزاحیہ شاعر ضیا الرحمن ضیا کا مجموعہ کلام ''علاج ِغم'' کے نام سے طباعت کے آخری مراحل میں ہے۔عثمان ہارونی کی شہرہ آفاق غزل می رقصم پر یوں ہاتھ صاف کیا ہے:
مزاروں خانقاہوں سے عقیدت تو نہیں لیکن
برائے نان و بریانی بہ ہر دربار می رقصم
ضیا بیگم سے یا افسر سے جب تکرار ہوتا ہے
نتیجتا ہمیشہ بعد از تکرار می رقصم
سنجیدہ ترین موضوعات پر خیر الزمان راشد کی نثری نظموں کا خاص مقام ہے۔احمد وقار میرپختہ غزل کے تخلیق کار ہیں۔ احمد وقار شعبہ درس و تدریس سے منسلک ہیں۔ایم۔فل اردو کی بھی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔’’کہکشاں ‘‘اور ’’ادبی اصناف‘‘ کے مراتب ہیں۔نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
اشک نکلا کہ مری آنکھ سے تارا نکلا
جو بھی نکلا وہ ترے ہجر کا مارا نکلا
ہر شجر خون سے سینچا تھا مگر وقتِ جزا
نوکِ ہر شاخ سے نکلا تو شرارہ نکلا
پھر ترے درد نے شب دل میں پڑاو ڈالا
میرا سورج مرے آنگن میں دوبارہ نکلا
نیلم ویلی کے دیگر قابل ذکر شعرا میں سے محمد صدیق (درد حیات) طاہر محمود طاہر(تصویر عشق زیر طبع)، داد صدیقی، غلام جیلانی مکرم، عابد افضل عندلیب، رضوان ساقی، عبدالمنان وانی، اسلم رضا خواجا،رضیہ اسلم مرحومہ، رفیق پروانہ، حامد عزیز، حسیب دراوی، زبیر ایوب، مشہود خواجا،احتشام شامی،میاں فرہاد،مزمل بانڈے، سعادت فوزیہ،اخلاق رانا، احسن شہزاد، اشفاق احمد میر، احتشام شامی، رضوان وانی، سلیم وانی،عبدالمنان وانی،منیب اسفند،شکیل قمر الحق کھریگامی،خلیق الرحمن انجم،بشیر الدین چغتائی،اخلاق احمد میر،زاہد حسن،داد صدیقی،کاتب اعوان،ضیا الحق ضیا،اسلم سحر،جلال الدین مغل،قانتہ تحریم،انعم فضیل راجا،قمر الزمان قمر،میاں شفیق اورشفیق الرحمن الدراوی کے علاوہ بھی کچھ نام ہیں جنھوں نے نیلم کے رنگوں کے ساتھ ساتھ دیگر موضوعات کو اپنی شاعری میں مزین کر کے نیلم میں اردو شاعری کی روایت کو جان دار بنایا۔ نیلم ویلی میں اُردو شاعری کی روایت کو فروغ دینے میں یہاں کی ادبی تنظیموں اور مشاعروں نے بھی بھرپور اور اہم کردار ادا کیا۔
نیلم ویلی کے تمام سخن وران کے اسمائے گرامی کا احاطہ محال امر ہے۔ وادی میں آفات ناگہانی کے علاوہ بھی دیگر کئی مصائب اور شدائد نے یہاں کے مکینوں کو ابتلا میں رکھا اور ابتلا ہی شعری تحریک کا وسیلہ بنتی ہے۔ نیلم کے شعرا کے ہاںسماجی،سیاسی،حسن و عشق اور دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ عدم مساوات، محرومی اور استحصال کے خلاف مزاحمت کا شعور اور اعلااحساس ہی شعر کو جنم دیتا ہے۔چمن،گل و بلبل،لب و رخسار،ہجر کے ساتھ ساتھ کئی روایتی اور جدتی موضوعات موجود ہیں۔نیلم کے شعر ا کے ہاں نیچرل شاعری موجود ہے۔معیار و مقدار کے لحاظ سے بھی اردو شاعری جان دار ہے۔ تاہم مقدار ایک قدم آگے ہے اور معیار ایک قدم پیچھے،البتہ معیار کا تقابل کیا جائے تو نیلم کے شعرا کو بھی صف اول میں ہی رکھا جا سکتا ہے۔نیلم کے شعرا کی اکثریت کے کلام میں بغاوت اور مزاحمت کا رنگ نمایاں تر ہے۔ اسی بنیاد پر وادی نیلم میں دیگر کسی بھی ضلع کی نسبت شعرا کی شرح بہت زیادہ ہے۔ وادی نیلم کے شعراکے منتخب کلام کا مجموعہ بنام ''کہکشاں ''۲۰۱۴ء میں چھپ کر منظر عام پر آیا جسے خوب پذیرائی ملی۔ کہکشاں میں نیلم کے بتیس شعرا کا کلام شامل ہے۔ دیگر شعرا کے شعری مجموعے زیر ترتیب ہیں۔بہرحال وادی ِ نیلم میں اردو شاعری کے روشن مستقبل سے انکار ممکن نہیں اب بے شمار نوجوان شعرا اپنے خون جگر سے نیلم ویلی کی شاعری کو زرخیز کر رہے ہیں۔غزل کے ساتھ ساتھ دیگر دیگر اصناف ادب میں بھی اب اردو شاعری میں ایک جان دار سرمایہ موجود ہے۔مختلف فکری و فنی جہتوں سے نیلم کے شعرا کا کلام مزین خوش بو بکھیر رہا ہے۔
حوالہ جات
۱۔البیرونی،کتاب الہند،ترجمہ سید اصغرعلی،انجمن ترقی اردو (ہند)دہلی ۲۴۹۱ ص ۴۵
۲۔انور مسعود،انٹرویو،بہ مقام شعبہ اردو،آزاد جموں و کشمیر یونی ورسٹی مظفرآباد،بہ تاریخ،۱۱ جولائی۲۰۱۸ء
۳۔احمد وقار میر،عرضِ مرتب،مشمولہ،کہکشاں،مرتب احمد وقارمیر،ادراہ نکس میرپور۲۰۱۴ء،ص۳۱
۴۔ناز مظفرآبادی،انٹرویو نازمظفرآبادی،ہم سخن،مثال پبلی کیشنز،فیصل آباد،۲۰۱۴ ء
۴۔انور مسعود انٹر ویو،بہ مقام شعبہ اردو آزاد جموں و کشمیر یونی ورسٹی مظفرآباد بہ تاریخ،۱۱ جولائی ۲۰۱۸ء
۵۔امجد اسلام امجد،مشمولہ، کہکشاں،مرتب احمد وقارمیر،ادراہ نکس میرپور۲۰۱۴ء،ص۷۱
۶۔ڈاکٹر صابر آفاقی،ہمہ آفتاب بینم،نیلم پبلشرز،مظفرآبا۲۰۱۰ء،ص۳۱