ارشادباری تعالیٰ ہے کہ علم رکھنے والے اور نہ رکھنے والے ہر گز برابر نہیں ہیں۔خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے بھی علم کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں فرمایا ہے کہ:’’ علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔‘‘
علم و دانش کے میدان میں کردار ادا کرنے والے اَساتذہ کے مقام و منزلت اور رتبے کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ فرماتے ہیں کہ :’’جس نے مجھے ایک حرف سکھایا اس نے مجھے غلام بنا لیا۔‘‘
انسان کی فطرت میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ غیر معلوم کو معلوم کرنے اور ظلمتوں، تاریکیوں سے گریزاں ہوتے ہوئے علم و نور، معرفت اور روشنی کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔گزشتہ ادوار سے لے کر آج تلک والدین بڑے بڑے خواب دیکھتے ہوئے اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ان کی انگلیاں پکڑ کر مرکز علم و دانش اور درس گاہوں کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ وہ اس امید کے ساتھ اَساتذائے کرام کے حوالے کرتے ہیں کہ بچے تعلیم حاصل کرکے اچھی زندگی گزارنے کے ساتھ قوم و ملت کے خدمت گزار بن سکیں۔علم و ادب کی دنیا میں تین چیزوں کو اہمیت حاصل ہے اور یہ آپس میں اس طرح جڑی ہوئی ہیں کہ ان کو جدا اور علاحدہ نہیں کر سکتا۔''یعنی انفکاک ممکن نہیں ہے''
اگر شعبۂ معلمی کو دیکھا جائے تو یہ شعبۂ پیغمبری ہے اس لیے اُستاد کو روحانی باپ سے تعبیر دی جاتی ہے۔ شعبۂ معلمی خدمت و عبادت اور امانت داری پر مشتمل شعبہ ہے۔اگر استاد مادی پہلو کے ساتھ خدمت ِانسانیت کی نیت و جذبے اور پوری ایمان داری کے ساتھ درس گاہوں کی طرف تدریس کے فرائض سر انجام دینے کے لیے قدم اٹھاتا ہے تو یقیناً وہ ہر قدم کے عوض ثواب حاصل کرنے کے علاوہ اپنی قدر و منزلت اور توقیر میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔اس کاہم ہر شعبے میں ہر وقت مشاہدہ کرتے ہیں،جیسے فضا کی بلندیوں پر جہاز اُڑانے والا ہواباز ہو،سمندروں کا سینہ چاک کرتے ہوئے جہاز چلانے والا کپتان، مسندِ انصاب پر براجمان منصف ہو یا جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے والا سپاہی ہر ایک اپنے استاد کو عزت واحترام اور خلوص دل کے ساتھ سلام کرتا ہے۔ یہ بات بھی مسلم ہے کہ ایک مہذب اور کام یاب انسان کی زندگی میں ایک شفیق استاد کا کردار ضرور ہوتا ہے۔ تعلیمی سفر میں دوسرا اہم رکن طلبہ ہیں بل کہ طلبہ مرکز و محور ہیںاس لیے معماران قوم کو پوری امانت داری کے ساتھ فرائض منصبی بہترین طریقے سے سرانجام دیتے ہوئے مضبوط بنیاد رکھنے کے لیے پوری کوشش کرنی چاہیے۔ اگر خدانخواستہ غفلت برتنے کی وجہ سے بنیاد کم زور ہو جائے تو عمارت بہت جلد منہدم ہو جائے گی جس سے نہ صرف ملک کا نقصان ہوگا بلکہ خود بنیاد گزار بھی اس آزمائش کی لپیٹ میں آنے کے علاوہ مکافات ِعمل کے مراحل سے گزر کر سزا بھگتے گا۔ طلبہ جب نوجوانی کی منزل پر قدم رکھتے ہوئے جدید عہدوزمان اور نت نئی تہذیبوں کے دریاوں کی خطرناک لہروں اور بھنور کے قریب پہنچنا شروع ہوجائیں تو استاد کو ایک ماہر ناخدا بن کر تمام تر مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے طلبہ کو نہ صرف ان پر خطر موجوں اور لہروں سے مقابلہ کرنے کی طاقت ہمت دینی چاہیے بل کہ بلاتفریق ان سب کو سفینۂ علم و آگہی میں بٹھا کر محفوظ طریقے سے ساحل تک پہنچانا بھی ان کے فرائض منصبی کا اہم حصہ ہے۔
تیسری شے تعلیمی ادارے یعنی تعلیمی اداروں کی پالیسیاں اور نظام ہے۔ اگر خدا نخواستہ تعلیمی اداروں کی پالیسی اور نظام میں کوئی نقص اور کمی ہو نے یا پالیسی اور نظام پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت و حکم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی استاد گلستان علم و آگہی میں الگ فکر اور سوچ رکھتے ہوئے دوہرا عمل و کردار انجام دیتے ہوئے نظر آئے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا یہ فکر و عمل زوال کی علامت اور نشانی ہے۔ بعض دفعہ تو کچھ اَساتذہ سستی یا کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بل کہ خیانت کاری کی راہ پر گام زن ہو کر اپنے ہی ادارے کو خزاں رسیدہ گلستان سمجھ کر عدم اطمینان کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کواپنے اسکولوں یعنی سرکاری اداروں میں تعلیم دلانے کی بہ جائے دوسرے تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہوئے ہم دیکھ رہے ہیں۔ان کے اس رویے اور عمل سے سے والدین اور معاشرے میں ایک مایوسی کی ایک فضا قائم ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ لہذا سرکاری سطح پر منظم پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے بعد ازاں اس پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔گزشتہ ادوار میں تعلیمی اداروں کی کمی اور وسائل کی عدم دست یابی کی وجہ سے بہت سارے لوگ خواہش رکھنے کے باوجود علم کے نور سے محروم رہتے تھے لیکن اب تو ہر جگہ،ہر محلے، علاقے اور ہر شہر میں تعلیمی مراکز اور درس گاہیں موجود ہیں اور نئی نسل انھی درس گاہوں سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ پہلے نظام تعلیم،عمل کی روش تدریس اور ادارے ایک طرح کے ہوتے تھے۔ لیکن اب جدید فکر،سائنسی ترقی اور معاشی سطح کی تفریق کی وجہ سے امیر و غریب لوگوں کے زندگی گزارنے کے طریقے، نشست برخاست، رہائشی علاقے اور مارکیٹ غرض زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر شعبے مختلف اور الگ ہو چکے ہیں۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں بھی بڑی سطح پر اختلاف اور تفاوت پائی جاتی ہے۔ امیروں اور غریبوں کے لیے الگ نظام وغیرہ ہونا درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے منشور کی واضح مثال ہے۔ اس وقت بنیادی طور پر دو طرح کے تعلیمی ادارے موجود ہیں،ایک سرکاری اودوسرے ر نجی ادارے۔
ان دونوں اداروں کے مابین مختصر موازنہ کرکے ہمیں حقائق کو درک کرتے ہوئے بہتری کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اولاً اگر سرکاری تعلیمی اداروں کی بات کی جائے تو ان درس گاہوں میں اکثر غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے جب کہ تھوڑی استطاعت رکھنے والے طبقے کی اولادنجی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔سرکاری اداروں میں اساتذہ کو اپنی محنت کے مطابق مراعات و ترقی کے مواقعے زیادہ ملتے ہیں لیکن اکثر نجی تعلیمی اداروں میں اساتذائے کرام سے محنت و مشقت سے کام لیا جاتا ہے اور مراعات بھی کم دی جاتی ہیں۔
اکثر اساتذہ سرکاری اداروں میں شفاف اور میرٹ کی بنیاد پر لیکن بعض کو میرٹ کی پامالی کرتے ہوئے چور دروازے یعنی سفارش اور رشوت کے ذریعے قدم رکھنے میں کام یاب ہونے کے بعد سے سبک دوش ہونے تک ان کو کسی قسم کی دِقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بل کہ بعض اَساتذہ سیاسی محاذ پر بھی مداخلت کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اکثر نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو نظریاتی،سیاسی اختلافات کی وجہ سے برطرف ہونے کا خطرہ ہر وقت رہتا ہے۔ بعض اوقات معمولی سی بات پر اور اختلاف رائے کی وجہ سے اساتذہ کو برطرفی کا حکم نامہ تھما دیا جاتا ہے۔ سرکاری اداروں میں تعلیم کے لیے خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود تعلیمی ماحول،نتائج اطمینان بخش نظر نہیں آتے جب کہ نجی تعلیمی اداروں میں ظاہراً مناسب ماحول اور نتائج نظر آتے ہیں۔سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں پڑھانے والے اور درس و تدریس سے وابستہ اساتذائے کرام اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت کے لیے سرکاری اداروں کی بہ جائے نجی اداروں کو ترجیح دیتے ہوئے وہاں بھیجے ہوئے ہیں جوایک غور طلب پہلو اور صورت حال ہے۔ اس طرح والدین اور معاشرہ کا اعتماد و اطمینان سرکاری تعلیمی اداروں سے ختم ہو رہا ہے ہے اس کے باوجود غریبوں کے بچے سرکاری ا سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ یہاں پراساتذائے کرام کو امانت داری اور اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اپنے بچوں کی فکر کرنے کے علاوہ اپنے ہاں زیرتعلیم ذہین و فطین بچے جو قومی اثاثے ہیں کو مناسب تعلیمی ماحول اور نظام پر مشتمل کسی اچھے ادارے کی طرف راہ دکھانے یا ان کے والدین کو بلا کر اصل صورت حال سے انھیں آگاہی دینی چاہیے۔اَساتذہ اگر ان پہلوؤں کو نظر اندازکرتے ہوئے یامصلحت کا شکار ہوتے ہوئے چشم پوشی اختیار کریں تو یقینا بڑی ناانصافی ہوگی۔ہم سب کو بہ حیثیت قوم مل کر اس بات کی طرف توجہ دینے اور سوچنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم پر خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود کیوں خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہیں؟
اگر نظام تعلیم میں کوئی کمی ہوتو اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔سرکاری اداروں میں تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے لیے یہ ضروری اور لازمی امر ہے کہ تمام سرکاری اساتذہ کے بچوں کو سرکاری ا سکولوں اور کالجوں میں داخلہ کروانے پر نہ صرف پابند کیا جائے بل کہ اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔اس عمل کے ذریعے ہی سرکاری اداروں میں تعلیم کا ماحول نہ صرف بہتر ہوسکتا ہے بلکہ لوگوں کا اعتماد بھی بحال ہو سکتا ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے یہ بات نہایت قابل ِغور ہے کہ پہلے تو اس نوعیت کے ادارے ضرورت و خدمت کے پیش نظر بنائے جاتے تھے اب اکثر اداروں کے مالکان کاروبار کا ذریعہ بناکر اس مقصد کی خاطر تعلیم کا نظام قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض اداروں میں کہیں کہیں تربیت کا فقدان نظر آتا ہے بچے اساتذہ کی قدر و منزلت، آداب اور تہذیب سے ناآشنا نظر آتے ہیں اساتذہ کے علاوہ معاشرے کے بڑوں اور چھوٹوں کی عزت کا خیال رکھنے میں ناکام نظر آتے ہیں اس صورت ِ حال کی نشان دہی کسی شاعر نے اس طرح کی ہے:
سنبھل کر گفت گو کرنا بزرگو
کہ بچے اب پلٹ کر بولتے ہیں
اسکول و کالج تو گلستان کی مانند ہوتے ہیں جہاں طلبہ گل دستوں کی صورت میں صبح سے دوپہر تک نہ صرف کھِلتے ہیں بل کہ موسم ِبہار میں موجود خوش آواز پرندوں کی طرح چہچہاتے ہوئے گلستان کی رونق بڑھاتے رہتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ گلستان کے نگہ بانوں، آب یاری کرنے والوں اور سیرابی کے لیے اسباب فراہم کرنے والوں سے سستی اور کوتاہی ہو جائے تو ان گُل دستوں کی خوب صورتی ماند پڑ سکتی ہے اور گراں بہا موتیوں کا بھاؤ گر سکتا ہے۔ نتیجتاً اس طرح کے عمل سے طلبہ معاشرے کی خدمت کرنے اور معاشرے میں موجود ظلمتوں کو روشنیوں میں تبدیل کرکے لوگوں کی فلاح بہبود اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہوکر انسانیت کی خدمت کرنے کی بہ جائے،ظلم و زیادتی ،ناانصافی ، عدم برداشت اور انسانیت دشمنی کی طرف گام زن ہوکر فتنہ و فساد کی فضا قائم کرسکتے ہیں یہ کسی بھی ملت و معاشرے کے لیے ہرگز فائدہ مند نہیں ہے۔
٭٭٭