زبانوں کی ضرورت و اہمیت :
زبان انسانی کی اہم ترین سماجی ضرورت ہے۔ سماج کے گونا گوں رنگ انسانی زبان کے ذریعے سے ہی اپنی آب و تاب کا اظہار کرتے ہیں۔ انسان کی سماجی ضرورتوں میںآنے والی تبدیلی سے انسان کی زبان مختلف الفاظ وتراکیب سے آشنا ہوتی ہے۔ انسانی سماج دراصل مختلف عقائد ، مختلف رسوم و رواج اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگوں سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ انسانی معاشرت میں شامل مختلف الخیال لوگوں کی اجتماعی معاشرت کی نمائندگی کے لیے جہاں ایک قومی زبان کی ضرورت ناگزیر ہوتی ہے وہاں علاقائی زبانیں بھی انسانی معاشرت اور سماج کے گل دان میں رنگا رنگ پھولوں کی طرح مہک رہی ہوتی ہے۔ان علاقائی زبانوں کے ذریعے سے ہی انسان اپنی علاقائی معاشرت کی بقا کو ممکن بناتا ہے۔ اس بارے میں داکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں:
’’ قوموں کے عروج و زوال میں زبان بڑی اہمیت رکھتی ہے۔قومی اتحاد و یگانگت اور تشخص میں زبان کو بڑی فوقیت حاصل ہے۔بل کہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مخلوقاتِ عالم میں زبان ہی انسان کو اشرافیت کا درجہ عطا کرتی ہے۔زبان ہی کے بل بوتے پر انسان اپنا معاشرتی تشخص برقرار رکھ سکتا ہے۔گویا زبان انسان کی سماجی، معاشرتی اور اخلاقی ضرورتوں کی ایجاد ہے‘‘(۱)
جہاں زبان انسان کی سماجی ضرورت ہے وہیں اس کے ذریعے سے ایک مخصوص تہذیب و ثقافت کی ترویج بھی ممکن ہوتی ہے۔ زبا ن ہی کی بدولت ایک مخصوص تہذیب و معاشرت کا ورثہ ا گلی نسل کو منتقل ہوتاہے۔ گویا زبان صرف ایک دوسرے سے رابطے کا ذریعہ ہی نہیں بل کہ انسانی معاشرت، تہذیب وتمدن اور ثقافت کی امین بھی ہے۔
زبانوں کی ابتدا کے متعلق مختلف نظریات:
دنیا بھر کے ماہرین لسانیات کا نظریہ ہے کہ ابتدا میں تمام انسان ایک ہی زبان بولتے تھے بعد ازاں سماجی ضرورت اور معاشرت کے تنوع نے نئی نئی زبانوں کی داغ بیل ڈالی۔عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک دنیا کی سب سے اولین اور قدیم ترین زبان عبرانی ہے اور یہی زبان قدیم زمانے میں انسانوں کی مشترکہ زبان تھی۔ زبان کی ابتدا کے متعلق گیارہ نظریات پائے جاتے ہیں جن کا مختصر خاکہ مندرجہ زیل ہے:
’’۱۔الوہی نظریہ
یہ نظریہ الہامی مذاہب میں بیان ہوا ہے۔اس نظریے کی رو سے ابتدا میں تمام انسان ایک ہی زبان بولتے تھے اور وہ عبرانی تھی۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے خود انسان کو اشیا کے نام سکھائے۔
۲۔ فطری نظریہ :
یہ فیثا غورث اور ہیرا کراٹس کا نظریہ ہے اس کی رو سے فطرت نے جبلی تقاضوںکے پیشِ نظر زبان کو پیدا کیا۔
۳۔ معائدہ کا نتیجہ :
یہ نظریہ پانچویں صدی قبل مسیح ڈیموکریٹس نے پیش کیا ۔ارسطو نے اس کی تصدیق کی اور روسو بھی اسی کا ہم خیال بنا۔ اس نظریے کے مطابق زبان انسان کے سماجی معائدے کا نتیجہ ہے۔
۴۔ حیوانوں کی آوازوں کی نقل :
اس نظریے کا بانی رنیاں ہے اس کے مطابق انسان نے سب سے پہلے اپنے ارد گرد کے جانوروں کی آوازوں کو نقل کرنا شروع کیا جو ارتقا سے گزر کا لفظوں میں ڈھل گئیں۔
۵۔ چیزوں کی جھنکار کی نقل :
اس نظریے کی رو سے انسان نے بے جان اشیا کی آوازوں یعنی گڑگڑاہٹ اور کھڑاہٹ وغیر ہ کی نقل کرنا شروع کی۔
۶۔مادوں کا نظریہ :
میکس ملر نے اس نظریے کا پرچار کیا جس کی رو سے انسان نے جب بھی کسی چیز کی آواز سنی تو بے ساختہ اس کی نقل کی جس سے زبان پیدا ہوئی۔
۷۔فجائی نظریہ :
اس نظریے کی رو سے انسان نے درد، لذت ،خوشی اور خوف کے وقت جو الفاظ منہ سے نکالے ان سے ہی زبان کی ابتدا ہوئی۔
۸۔ اجتماعی محنت کا نعرہ :
اس نظریے کی رو سے انسان نے جب مل جل کر کام کرنا شروع کیا تو سہارے کی خاطر کوئی بلند صدا لگائی تو اس سے زبان کی ابتدا ہوئی۔
۹۔ اشاری نظریہ :
اس نظریے کی رو سے زبان کا ماخذ انسانی اشارات ہیں۔ محنت کے دوران میں انسانی حرکات و سکنا ت سے جو مخصوص آوازیں پیدا ہوئیں اس سے زبان نے جنم لیا۔
۱۰۔ آواز حرکات بازو کی نقل :
یہ ڈائمنڈ کا پیش کردہ نظریہ ہے۔ اس کی رو سے انسان کو بولنے کی صلاحیت تب حاصل ہوئی جب بازوئوں کی محنت کے دوران میں خود بخود آوازیں پیدا ہوئیں۔
۱۱۔ نغماتی نظر یہ:
یہ نظریہ ڈنمارک کے ماہر لسانیات لیپر سن نے پیش کیا جس کی رو سے ابتدائی زمانے کا انسان موسیقی اور رومان میں مصروف رہتا تھا اس عمل کے دوران میں جو الفاظ اس کے منہ سے نکلے اسی سے زبان کی ابتدا ہوئی۔ـ‘‘(۲)
جموں و کشمیر کی علاقائی زبانوں کا پس منظر:
ریاست جموں و کشمیر اس کرہ ارض پر اپنے قدرتی حسن و جمال اور فطری مناظر کی دل کشی و رعنائی کی بدولت منفرد اور یکتا اہمیت کی حامل ہے۔ اس ریاست میں زبانوں کے رنگا رنگ مرقعے ملتے ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر کی تہذیب و ثقافت اس قدر بھر پور اور رنگا رنگ ہے کہ یہاں بیسیوں زبانیں بولنے والوں کا بسیرا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کی علاقائی زبانوں کے بارے میں میاں کریم اللہ قریشی لکھتے ہیں:
’’ ماہرین لسانیات کی اکثریت کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کی تمام زبانیں اور بولیاں ہند آریائی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب کہ بعض اس کے بر عکس رائے رکھتے ہیں۔‘‘(۳)
نہ صرف ریاست جموں و کشمیر بل کہ بر صغیر پاک و ہند میں بولی جانے والی بیشتر زبانوں کا تعلق ایک ہی خاندان یعنی ہند آریائی سے ہے اور بیشتر زبانوں کا پس پردہ آپس میں ایک تعلق موجود ہے۔ ریاست جموں و کشمیر ازمنہ قدیم سے ہی سنسکرت زبان کی تعلیم کا مرکز رہا ہے ۔ اس بنیاد پر ریاست کی علاقائی زبانوں پر سنسکرت زبان کے اثرات بہ خوبی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر میں اسلام کی آمد کے بعد ایک نئی تہذیب اور نیا تمدن سامنے آیا۔ چناں چہ عربی اور فارسی نے مقامی زبانوں پر اپنے اثرات مرتب کیے اور اس طرح عربی اور فارسی تہذیب کے رنگ بھی مقامی تہذیب کے رنگوں سے مل کر نمایا ں ہوئے۔
جموں و کشمیر کی علاقائی زبانوں کی تعداد:
ریاست جموں و کشمیر میں مختلف زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔ بولی دراصل زبان کی ترقی پذیر شکل کا نام ہے جسے زبان بننے کے لیے صدیوں کا ارتقائی سفر درکار ہوتا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں بولی جانے والی زبانوں اور بولیوں کی تعداد کے بارے میں مختلف اور متضاد نظر یات پائے جاتے ہیں۔ مثلا رمیش چند ڈوگر نے زبانوں اور بولیوں کی مجموعی تعداد ۵۲ بتائی ہے۔(۴)
ریاست جموں و کشمیر میں بولی جانے والی بولیوں اور زبانوں کی تعداد کے بارے میں معروف ماہر لسانیات میاں کریم اللہ قریشی نے بولیوں کی کثرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سات بڑی زبانوں کی تعداد گنوائی ہے۔ ان کے بقول ان سات بڑی زبانوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں آئینی تحفظ حاصل ہے۔ ان کے بقول:
’’ موجودہ ریاست جموں و کشمیر میں کئی غیر معروف بولیاں بھی رائج ہیں۔ لیکن معروف اور اہم زبانوں یعنی کشمیری، پہاڑی، ڈوگری، بلتی، دردی ، پنجابی اور لداخی کو ریاست جموں و کشمیر کے آئین میں تحفظ دیا گیا ہے۔‘‘(۵)
ریاست جموں و کشمیر کی علاقائی زبانوں کی تعداد اوریہاں آباد مختلف نسلی اور قبائلی گروہوں کے ہاں مروج زبانوں کے بارے میں جی ایم میر اپنی تصنیف ـ’’ جموںو کشمیر کی جغرافیائی حقیقتیں ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ چوراسی ہزار مربع پر پھیلی ہوئی ریاست جموں و کشمیر کے طول و عرض میں مختلف نسلی گروہ او رمتعدد چھوٹی چھوٹی قومیتوں کے لوگ آباد ہیں اور یہی قومیتیں آگے چل کر ایک عظیم کشمیری قوم میں متشکل ہوتی ہیں۔ ان تمام قومیتوں اور نسلی گروہوں کا اپنا اپنا جداگانہ کلچر اور جداگانہ زبانیں ہیں۔ ریاست کی مختلف قومیتوں میں گلگتی ، بلتی ، لداخی ، کشمیری ، ڈوگرہ ، گوجر وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ یہاں بولی جانے والی زبانیں شینا ، بلتی ، لداخی ، بروشسکی ، گوجری ، ڈوگری ، پو نچھی ، پہاڑی پویگی اور خور ( چترالی ) ہیں۔ ‘‘ (۶)
جموں و کشمیر کی علاقائی زبانوں کا مختصر تعارف:
ریاست جموں وکشمیر میں بولی جانے والی معروف زبانیں مندجہ زیل ہیں ۔ ان میں وہ بولیاں شامل نہیں ہیں جو غیر معروف ہیں اور تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی ڈھانچے اور گلوبلائزیشن کے اثرات کی وجہ سے تیزی سے معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔
۱۔ کشمیری ۲۔ پہاڑی ۳۔ گوجری ۴۔ ڈوگری ۵۔ پنجابی
۶۔ لداخی ۷۔ بلتی ۸۔دردی یا شینا ۹۔کنڈل شاہی یا دراوڑی
ذیل میں ان معروف زبانوں کا مختصر تعارف پیش ہے:
کشمیری:
یہ زبان ریاست جموں و کشمیر کی سب سے بڑی زبان ہے۔ اس زبان کے بولنے والے ریاست کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس زبان کی اہمیت اور عظمت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ یہ زبان لفظ’ کشمیر ‘کی مناسبت سے ’کشمیری‘ کہلاتی ہے۔ اس اعتبار سے اس زبان کا تعلق اپنی سرزمین کے ساتھ گہرا اور مربوط ہے۔
بعض محققین اور ماہرین لسانیات نے کشمیری زبان کو ہند آریائی زبان قرار دیا ہے جب کہ بعض کے نزدیک یہ درد آریائی زبان ہے اور اس کا ماخذ شینا زبان ہی ہے۔ مثلا مشہور ماہر لسانیات میر عبدالعزیز اس کا تعلق درد زبان سے جوڑتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ کشمیری زبان درد زبان کی ایک شاخ ہے ۔ کیوں کہ جب کشمیر کی عظیم جھیل سے پانی نکل گیا تو سب سے پہلے دردستان کے ہی لوگ یہاں آکر آباد ہو گئے۔‘‘ (۷)
کشمیر ی واحد دردی زبان ہے جس کا ادب قدیم ،اعلا اور رنگا رنگ ہے۔ کشمیر ی ادب کے نام ور شاعروں میں لل دید ، نند ریشی، حبہ خاتون ، رسول میر، شمس فقیر، غلام احمد مہجور اور عبدالاحد آزاد عظیم شاعر ہیں۔
پہاڑی:
یہ زبان پہاڑوں میں آباد لوگوں کے بولنے کی مناسبت سے پہاڑی کہلائی۔ ماہرین لسانیات نے پہاڑی زبان کو ہند آریائی خاندان کے پشاچہ یا دردی گروہ کا ایک ذیلی گروہ قرار دیا ہے۔ اس گروہ کی کئی ذیلی بولیاں ہیں۔ اس زبان کی وسعت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ یہ انتہائی مشرق میں ہمالیہ کے پہاڑوں میں واقع نیپال سے لے کروسط میں ہماچل پردیش اورمغربی کشمیر کے علاقوں تک بولی اور سمجھی جاتی ہے۔البتہ اس کے تین زیلی گروہ یعنی مشرقی ، وسطی اور مغربی کا فرق اور تفاوت قائم ہے اور تینوں جگہوں پر اس کا لہجہ مختلف ہے۔
اس زبان کا ابتدائی رسم الخط بدھ متوں کے دور میں ایجاد کردہ رسم الخط ـ’ لنڈا‘ یا شاردہ رسم الخط تھا۔ یہ بدھ دور میں شاردہ پیٹھ میں ایجاد ہوا۔ یہ رسم الخط گورمکھی کے مماثل ہے۔ بعدازاں یہ رسم الخط مسلمانوں میں مقبول نہ ہو سکا اور فارسی رسم الخط کو اپنا لیا گیا۔ ۱۹۴۷ء کے بعد اس زبان کے بولنے والوں نے اس زبان کے تحفظ او بقا کے لیے طویل جدوجہد کی۔ اب اس زبان میںریاست کے دونوں حصوں یعنی آزاد اور مقبوضہ حصوں میں اعلاپائے کا ادب تخلیق ہو رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ زبان ایک زندہ زبان کے طور پر موجود ہے۔
گوجری:
اس زبان کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ ریاست جموں و کشمیر میں بسنے والے بکر وال قبائل کی زبان ہے۔ اس زبان کی وسعت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ریاست جموں و کشمیر سے باہر بھی کئی علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ یہ ریاست کے دونوں آزاد اور مقبوضہ حصوں میں گوجری بولنے اوالوں کی ایک کثیر تعداد آباد ہے۔اس زبان کا ادبی ورثہ بھی انتہائی قدیم ہے۔ اس زبان کا تعلق بھی ہند آریائی زبانوں کے قبیلے سے ہے۔ بعض ماہرین لسانیات مثلا جی اے گریرسن نے گوجری زبان کو میواتی زبان کے مماثل قرار دیا ہے۔گوجری زبان بولنے والے لوگ زمانہ قدیم میں ہندوستان کے علاقوں سے نقل مکانی کر کے کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں آکر آبا ہوئے۔ یہ لوگ خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے۔ ان قبائل نے ہندوستان کے کئی علاقوں میں اپنی زبان کی مناسبت سے شہر آباد کیے جن میں گجرات اور گوجرانوالہ اہم ہیں۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے ان لوگوں کے بارے میں پروفیسر عبدالقادر سروری لکھتے ہیں:
’’ گوجر مورخین نے لکھا ہے کہ اکبر کے عہد میں مغل اور راجپوت قوموں نے جب ان پر پے در پے حملے کر کے انہیں شکست دے دی تو یہ شمال کی طرف چلے گئے اور ہمالیہ کہ پہاڑیوں میں پناہ لی۔‘‘(۸)
ڈوگری:
ڈوگری زبان کا تعلق ریاست کے حصے جموں سے ہے۔ یہ زبان صوبہ جموں کے تین اضلاع یعنی جموں ، اودھم پور اور کٹھوعہ میں بالخصوص بولی جاتی ہے۔اس زبان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے بولنے والے اس کی نسبت سے ڈوگرے کہلاتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ زبان بھی لوگوں کے ساتھ مربوط ہے اور اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔ اس زبان کے لہجے اور صوتی نظام کی پہاڑی زبان کے لہجے اور صوتی نظام کے ساتھ کافی مماثلت ہے۔ اس بارے میں میاں کریم اللہ قریشی لکھتے ہیں:
’’ معانی و مطالب اور لب و لہجے کے اعتبار سے ڈوگری پہاڑی کے بہت قریب ہے۔ بلکہ اگر پہاڑی اور ڈوگری دونوں زبانوں سے نا آشنا کسی تیسرے شخص کے روبرو یہ زبانیں بولی جائیں تو سننے والوں کے لیے ان میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘ (۹)
ڈوگری بھی ہند آریائی زبان ہے اور اس زبان میں دیگر علاقئی زبانوں کے الفاظ کی آمیزش بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ زبان گوجری ، پہاڑی اور پنجابی کا آمیزہ ہے۔
پنجابی:
پنجابی زبان بھی ریاست جموں و کشمیر میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ لیکن اس کے بولنے والوں کی تعداد کافی کم ہے۔اس زبان کو ریاست جموں و کشمیر میں مغربی پنجابی کہا جاتا ہے۔ اس زبان کے رسم الخط کے حوالے سے بعض لوگ فارسی کی پیروی کرتے ہیں اور بعض بالخصوص سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے مشرقی پنجابی کی پیروی کرتے ہوئے اسے گورمکھی رسم الخط میں لکھتے ہیں۔ پنجاب چوں کہ ریاست جموں و کشمیر کے پڑوس میں واقع ہے اور کئی مقامات پر اس کے ساتھ ملحق ہے اس بنا پر اس زبان کا ریاست جموں و کشمیر پر بہت گہرا اثر رہا ہے۔قدیم زمانے میں اہل پنجاب تجارت یا ملازمت کی غرض سے ریاست جموں و کشمیر میں آئے اور اسی طرح ریاست کے لوگ روزگار کے سلسلے میں پنجاب کے مختلف علاقوں میں آتے جاتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجابی زبان اہل کشمیر کے لیے نامانوس نہیں رہی۔ یاست جموں و کشمیر پر جب سکھوں کا تسلط قائم ہو ا تو بہت سارے سکھ گھرانے ریاست جموں و کشمیرمیں آکر آباد ہوئے۔ اس طرح ریاست کے بعض علاقوں میں پنجابی زبان بولنے والے موجود ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر میں پنجابی زبان بولنے والے کے علاقے کے بارے میں پروفیسر عبدالقادر سروری لکھتے ہیں:
’’ پنجابی بولنے والے اس وقت ریاست کے مختلف حصوں میں آباد ہیں۔ جموں صوبے میں پونچھ کا علاقہ اور کشمیر میں بارہ مولہ اور اطراف و جوانب کے دیہات میں سکھوں اور پنجابی بولنے والوں کی خاصی تعداد موجود ہے۔‘‘(۱۰)
لداخی :
لداخی ریاست جموں و کشمیر کے علاقہ لداخ میں بسنے والے لوگوں کی زبان ہے۔ یہ زبان ہندوستان کے شمال مشرقی حصے کی زبان ہونے کے ساتھ گوجری ، ڈوگری، پہاڑی وغیرہ کے لیے اجنبی زبان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس زبان کا ریاست جموں و کشمیر کی دوسری علاقائی زبانوں سے کوئی واضح تعلق ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اس زبان کا تعلق تبت چینی خاندان السنہ سے ہے۔ اس زبان کا رسم الخط دیوناگری کے مشابہ ہے ۔ یہ زبان کئی لہجوں میں بولی جاتی ہے۔ جن میں لداخی ، شمسکت،ستوسکت اور نوبرا اہم ہیں۔ کئی علاقوں میں اسے نئے نام ’ بھوٹی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے لیکن عام اور مقبول نام لداخی ہی ہے۔
بلتی:
بلتی اپنے ماخذ کے اعتبار سے تبتی زبان ہے اور اس میں دردی زبان کے بھی کافی اثرات پائے جاتے ہیں۔ یہ زبان ریاست جموں و کشمیر کے علاقوں کارگل، بلتستان ور گلگت کے علاوہ کشمیر ویلی کے بعض حصوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ بعض ماہرین لسانیات نے اس زبان کو بنیادی طور پر تبتی زبان کی ایک شاخ قرار دیا ہے جب کہ بعض نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اس ہند ایرانی سے متعلق قرار دیا ہے۔ مثلا کریم اللہ قریشی لکھتے ہیں:
’’ بلتی اور پہاڑی لسانی خاندان کے اعتبار سے ایک ہی خاندان یعنی ہند ایرانی کے دردی یا پشاچہ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔‘‘ (۱۱)
تبتی بولنے والے لوگ دریائے سندھ کے دونوں اطراف کارگل سے لے کر ہارلوشاور قراقرم سے لے کر دیوسائی تک آباد ہیں۔ اس زبان کا ادب دستیاب نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس زبان کو لداخی کے مقابلے میں زیادہ پہچان نہیں مل سکی۔
درد یا شینا :
دراوہ یعنی وادی نیلم کے شمالی حصے میں واقع علاقوں جن میں استور ، گریز ، لداخ ، گلگت ، چلاس اور چترال وغیرہ آباد ہیں۔ ان علاقوں کی نسبت ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ ان میں ہند آریائی اور تورانی زبانوں کی کئی شاخیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ان ہی زبانوں کے انضمام سے درد یا شینا زبان وجود میں آئی ہے۔ درد زبان کو پشاچہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ زبان ہند ایرانی زبان ہے اور ریاست جموں و کشمیر کے علاقون گلگت، بلتستان ، کشمیر ویلی کے علاوہ بیرونِ ریاست میں چترال ، سوات اور افغانستان کے بعض علاقوں میں بولی جاتی ہے۔
یہ زبان ریاست جموں و کشمیر کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔اس زبان کا ادبی زخیرہ دستیاب نہیں ہے۔ البتہ لوک ادب کی صورت میں بعض لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہے۔اس اعتبار سے یہ زبان جس قدر قدیم ہے ادبی اعتبار سے اسی قدر نو آموز ہے۔کچھ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ اس زبان کا ادب بدھ دور میں حادثات زمانہ کی نذر ہو گیا۔ میں کریم اللہ قریشی پہاڑی اور دردی دونوں زبانوں کو ایک ہی خاندان یعنی ہند آریائی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ دردی یعنی شینا اور پہاڑی لسانی خاندان کے اعتبار سے ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ دونوں آریائی زبانیں ہیں اور دونوں میں کئی الفاظ مشترک ہیں اور دونوں کا رسم الخط فارسی ہے۔‘‘(۱۲)
درد یا شینا زبان بولنے والے ۸۰فیصد لوگ پاکستانی زیرانتطام علاقوں میں آباد ہیں جب کہ صرف بیس فیصد لوگ ریاست کے مقبوضہ حصے میں آباد ہیں۔
کنڈل شاہی ( دراوڑی):
یوں تو کنڈل شاہی وادی نیلم جسے قدیم زمانے میں دراوہ کہاجاتا تھا کے ایک خوب صورت قصبے کا نام ہے۔ یہ قصبہ دارالحکومت مظفرآباد سے تقریباـ۶۰ کلو میٹر کے فاصلے پر شمال کی طرف واقع ہے۔ یہ زبان ایک ایسا عجوبہ جسے کنڈل شاہی کے اس قصبے سے باہر کوئی سمجھتا اور بولتا نہیں ہے۔ اس زبان کے بولنے والے اسے بولی ، کشمیری اور شینا زبان کی ایک قسم بھی قرار دیتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمان خواجہ نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے اس زبان کو موضوع تحقیقی بنایا اور ڈگری حاصل کی۔
حوالہ جات
۱۔ ہارون الرشید تبسم ، ڈاکٹر: ملی و اخلاقی مضامین : نیشنل بک فائوندیشن، اسلام آباد:۲۰۱۸ء:ص۱۹۹
۲۔گیان چند، ڈاکٹر: لسانی مطالعے: نیشنل بک ٹرسٹ ، دہلی : ۱۹۷۳ء:ص۳۱تا ۴۱
۳۔ میاں کریم اللہ قریشی : پہاڑی اور اردو ایک تقابلی جائزہـ : مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد: ۲۰۰۷ء: ص۲۸۳
4.Ramesh Chandr Dogra: Jammu & Kamshmir a select and annoted bibliography of manuscripts , books & astiols : verinag publishers , Mirpur AJK: 1991: p 46 to 68
۵۔میاں کریم اللہ قریشی : پہاڑی اور اردو ایک تقابلی جائزہـ : مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد: ۲۰۰۷ء: ص۱۴
۶۔ جی ایم میر : جموں و کشمیر کی جغرافیائی حقیقتیں : مکتبہ جدید پریس ، لاہور: ۱۹۹۸ء ص۵۳
۷۔میر عبدالعزیز : کشمیری زبان ، مضمون مشمولہ تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند: پنجاب یونیورسٹی ، لاہور : ۱۹۷۱ء: ص۱۴۵
۸۔ عبدالقادر سروری، پروفیسر:کشمیر میں اردو: جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ ، کلچر اینڈ لینگویجز ، سرینگر: ۱۹۹۳ء:ص۲۰۶
۹۔ میاں کریم اللہ قریشی : پہاڑی اور اردو ایک تقابلی جائزہـ : مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد: ۲۰۰۷ء: ص۲۹۰
۱۰۔ عبدالقادر سروری، پروفیسر:کشمیر میں اردو: جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ ، کلچر اینڈ لینگویجز ، سرینگر: ۱۹۹۳ء:ص۲۰۶
۱۱۔میاں کریم اللہ قریشی : پہاڑی اور اردو ایک تقابلی جائزہـ : مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد: ۲۰۰۷ء: ص۳۰۱
۱۲۔ایضا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ص۳۰۰
٭٭٭