فی زمانہ(ہمارے زمانے میں)وہ جیسے فوج میں ترم بج گیا ہو،میں آیا تو چل کے مصداق ایم۔فل مسودات کی ریل پیل ہو رہی ہے۔جسے دیکھو کبھی باموضوع اور کبھی بنا موضوع کاغذی گھوڑے دوڑائے چلا جا رہا ہے۔محنت اور معیار کو کم ہی بروئے کار لایا جاتا ہے،مقامِ اطمینان ہے کہ پروفیسر فرہاد احمد فگارؔنے اس باب میں لائقِ تقلید محنت کی ہے اور حتیٰ المقدور معیارات کے اسباب مہیا کیے ہیں۔ان کا مقالہ برائے ایم۔فل اردوبہ عنوان ’’آزاد کشمیر کے منتخب غزل گو شعرا:تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ‘‘تحقیق،تاریخ اور تنقید کے لیے ایک بیش قیمت تجزیاتی معرکہ ہے۔فرہاد احمد فگارؔ نے مشاورت،معاونت اور مراسلت سے ایسے ایسے معلوماتی اور تجزیاتی ذرائع کی جمع آوری کی ہے کہ استعجابیہ کیف و کم سے بھرے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں آزاد کشمیر کے تین نئے اور تین پرانے شعرا(کل چھے شعرا)کا انتخاب کیا اور فرداً فرداً سب کی شاعری کے اوصاف،رموزِ شعر اور فنی محاسن کا دل خوش کن لہجے اور پیرائے میں تذکرہ کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان چھے شاعروں کے علاوہ بھی آزاد کشمیر میں پائے کی شاعری کرنے والے بلند قامت شاعر موجود ہیںمگر پسند اپنی اپنی ،نظر اپنی اپنی۔فی الواقع چھے منتخب شعرا بھی آزا د کشمیر کی تاریخِ شعر وادب میں واضح اور مستحکم مقام پر فائز ہیں۔ان شعرا کو تین تین کر کے دو حصوں میں بانٹا گیا ہے۔پہلے حصے میں الطاف قریشی،زاہد کلیم اور ڈاکٹر صابر آفاقی ہیں۔دوسرے حصے میںسیدہ آمنہ بہار،افتخار مغل اور واحد اعجاز میرہیں۔فرہاد احمد فگارؔ نے ان کی شعری حسیات کوپر خلوص اور پسندیدہ طرزِ تحریر سے آراستہ کیا ہے۔ان کی تحریر توجہ اور تعلقِ خاطر کی آئینہ دار ہے۔متذکرہ شعرا کے فن کی شہرت نے ملک کے چاروں کھونٹ داب رکھے ہیں۔ان کی مقبولیت پاکستان اور آزاد کشمیر کے ادبی حلقوں میں یکساں ہے۔ایم۔فل کے اس مقالے میں نوع بہ نوع شعری خصوصیات کے ضمن میں تغزل اور پیرائیہ اظہار (صنعتوں) کا خاطر جمعی سے مذکور ہوا ہے۔شعرا کے غزلیہ اہتمام اور انصرام کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔فرہاد احمد فگارؔ نے اس طرح ذات،ثبات،جہات اور صفات کو صدقِ دل سے مضمون آرا کیا ہے کہ ان کا یہ مقالہ ہر اعتبار سے مسندِ اعتبار پر بٹھائے جانے کے لائق ہے۔یہ اگر کتابی شکل میں سامنے آئے تو آزاد کشمیر کی شاعری کے تاریخی مطالعے میں خاصا متصور ہو گا۔منتخب شعرا اگرچہ نثر میں بھی اسم رکھتے ہیں مگر شاعری کے وصف سے مشہور ہیں۔الطاف قریشی نے ڈرامے بھی لکھے ،ریڈیو کی سروس میں اور بھی بہت کچھ لکھا،تقریریں بھی کیں مگر ان کی شاعری الفاظ کے بچھڑے ہوئے معانی کی حسین و جمیل بازیافت ہے۔زاہد کلیم نے اپنے والد مرحوم کی تربیت میں اعلا مقامِ شعر تک رسائی حاصل کی ہے۔وہ بھی الطاف قریشی کی طرح شعر و نثر کے دھنی رہے۔جوش ؔ ملیح آبادی کی شاگردی نے ان کے حسنِ تغزل کو چار چاند لگائے ہیں۔ڈاکٹر صابر آفاقی اردو،ہندکواور گوجری غزل کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ان کی اردو غزل چندے ماہ تاب چندے آفتاب۔انھوں نے اپنی ساری زندگی قلم ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ان کی کتابیں کثیر تعداد میں ہیں اور خوب ہیں۔سیدہ آمنہ ؔبہار نے غزل میںنِسوانی معصومیت اور ایثار استوار کیا ہے۔احمد ندیمؔقاسمی ان کی شاعری (نظم و غزل ) کواپنے رسالے’’فنون‘‘ میں بہ طورخاص شائع کرتے رہے۔محترمہ سیدہ نے آزاد کشمیر میں پروین شاکر کی روایت قائم کی ہے۔افتخار مغل کی شعر ذہانت اور فطانت لاجواب ہے ۔انھوں نے نظم میں بھی فنی کمالات کی بہم رسانی کی ہے۔ان کی غزل جدت اُسلوب ،کربِ اندروں و بیروں کی تمثال دار ہے۔واحد اعجاز میرؔ غزل میں بالکل نئے آہنگ کے روادار ہیں۔انھوں نے جہلم اور نیلم کے پانیوں سے تازگی کی جھلمل اتار کر اپنی غزل کو ہمہ رنگ کیا ہے۔جدید شاعری میں وہ پورے قد کے ساتھ کھڑے ہیں۔فرہاد احمد فگارؔ نے بہ صد تفصیل سے ان چھے شعرا کا فنی جائزہ لیا ہے۔ان کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر تنقیدی وتحقیقی محاکمہ لگایا ہے۔یہ مختصر سا مضمون تالیف قلوب کے ضمن میں دیکھا جا سکتا ہے۔
٭٭٭