راضی ہوں تیری مرضی پر لیکن بھید کھلے بھی
تیری مرضی کیا ہے یارا، کچھ تو کھل کر بول
اب 24 جولائی سے 31 جولائی تک کا خصوصی حا ل بیان کرتاہوں ۔ پس منظر اور منظر دونوں کے ساتھ۔
میں نے اپنے جاننے والے مختلف لوگوں کے ذریعے بھی معلومات حاصل کی اور خود بھی بعض لوگوں سے پوچھا جو کینسر کی بیماری میں مبتلا ہوئے اور پھر صحت یاب ہو گئے۔ ان کاجرمنی، آسٹریلیا اور پاکستان سے تعلق ہے۔ان میں سے بیشتر نے اس سے ملتا جلتا حال بتایاکہ طبیعت میں بے چینی اور گھبراہٹ ہوتی تھی۔خوامخوہ غصہ بھی آتا تھا اور بعض مریض تشدد پر بھی اتر آتے تھے۔
کیا کسی کو کوئی ایسا تجربہ ہوا جسے روحانی تجربہ کہا جا سکے یا اس سے ملتا جلتاکوئی خوشگواراحساس ہوتو ایسی کوئی مثال نہیں مل سکی۔ممکن ہے کہیں اور ایسے لوگ مل جائیں۔
6 جولائی کو پہلی تھراپی بالکل نارمل رہی۔ہچکی کی تکلیف ہوئی۔اس کے علاج کے بعد
25 جولائی تک سب کچھ معمول کے مطابق رہا ۔23 جولائی کا دن میرے لیے دوتین وجہ سے خوشی کا دن تھا۔ہسپتال سے چھٹی ملی تھی۔یہ دن رضوانہ کا یومِ ولادت تھا،اور اسی دن مجھے ڈاکٹر وسیم انجم صاحب کا فیس بک سے ایک تراشہ ملا تھا جس میں انہوں نے خبر دی تھی کہ نازیہ خلیل عباسی کا ’’فرحت نواز کی ادبی خدمات ‘‘کے موضوع پر ایم فل کا مقالہ باضابطہ طور پر منظور کر لیا گیا ہے۔یہ میرے لیے بے حد خوشی کی خبر تھی۔’’جدیدادب‘‘ خان پور کے زمانے میں میرے خان پور کے تین خاص ادبی دوست ایک سال کے بعد ہی مجھے چھوڑ گئے تھے۔ان کا خیال تھا کہ میں ان کی وجہ سے کچھ مشہور(مشہور؟)ہونے لگا ہوں۔تب صرف فرحت نواز ہی تھیں جنھوںنے ’’جدید ادب‘‘ کے آخر دَم تک ساتھ نبھایا۔آج فرحت نواز پر ایم فل کا مقالہ منظور ہو گیا تھا جبکہ ساتھ چھوڑ جانے والے دوست جو سب صاحبِ حیثیت بھی تھے،ابھی تک اس اعزاز سے خالی ہیں۔خوشی کی اس سے بھی اہم وجہ یہ تھی کہ 1980میں کسی غیر ادبی بندے نے ایک بڑا بول بولا تھا۔آج اس کی تلافی ہو گئی تھی۔فرحت نواز نے تب ’’ڈاکٹر وزیر آغا دیاں چونڑویاں نظماں‘‘ کے نام سے 80صفحات کی ایک مختصر سی اور غیر مجلد کتاب مرتب کی تھی۔اس میں وزیر آغا صاحب کی چند نظموں کا سرائیکی ترجمہ شائع کیا گیا تھا۔اس کتاب میں وزیر آغا صاحب کی ایک نظم’’ہوا اگر میرا روپ دھارے‘‘ کا ترجمہ احمد پور شرقیہ کے معروف شاعر مظہر مسعود صاحب نے کیا تھا۔اس میں اردو نظم کی روح کو ملحوظ رکھتے ہوئے آزاد ترجمہ کیا گیاتھا۔مجھے یہ ترجمہ اصل نظم سے زیادہ خوبصورت لگا تھا۔یہ چالیس سال پہلے (1980 ء)کی بات ہے۔تب ایک ’’ زمین دارصاحب‘‘ نے کتاب دیکھی تو بڑی حقارت سے کہا یہ کیا ہے؟اسے آپ ادب کی خدمت سمجھتے ہیں؟
انھیں تو تب میں نے مناسب جواب دے دیا تھا لیکن ان کا حقارت آمیز لہجہ دیر تک دکھی کرتا رہا۔اب جو فرحت نواز پر لکھے گئے مقالہ میں ان کی مرتب کردہ کتاب ’’ڈاکٹر وزیر آغا دیاں چونڑویاں نظماں‘‘کا بھی خاص ذکر ہوا ہے تو مجھے دلی خوشی ہوئی ہے۔میں نے ایک دوست کو لکھا ہے کہ ان ’’ زمیندارصاحب‘‘کو میری طرف سے یہ خبر بتا دیں اور ساتھ یہ بھی بتا دیں کہ ایم فل کیا ہوتا ہے۔تو یوں میں بے حد خوش تھا۔
24 جولائی کواسی لہر میں وزیر آغا صاحب کی نظم کا سرائیکی ترجمہ’’ہوا وٹاوے جے ویس میڈا‘‘پڑھنا شروع کر دیا۔پھر جو بچہ بھی ملنے آیامیں اسے یہ ترجمہ سنانے لگتا اور ساتھ بعض سرائیکی الفاظ کا مطلب بھی بتلاتا جاتا۔25 جولائی کو ٹیپو نے چھوٹی بیٹی مانو کے ہاں جانے کا پوچھا تو میں فوراََ راضی ہو گیا۔اور بیٹی کو فون پر بتا دیا کہ میں نظم سنانے آرہا ہوں۔چنانچہ اس کے گھر گئے اور یہ نظم سنائی۔
بیماریوں کے لگاتار حملوں کے باعث انتہائی نقاہت ہو گئی تھی۔یہ نظم پڑھتے ہوئے مجھے ہر بار ایسے لگتا کہ یہ نظم میری حالت اور کیفیات کو بیان کر رہی ہے۔ موت کی علامت ہوا جب تک مجھ پرجارحانہ حملے کرتی رہے گی میں نہیں مروں گا لیکن اگر وہ میرے پاس محبت کے ساتھ آئے تو میں اپنا آپ ہار دوں گا اور ہنستے ہنستے جان دے دوں گا۔
مظہر مسعود صاحب کی ترجمہ کردہ نظم یہاں بھی درج کیے دیتا ہوں۔
ہوا اگر میرا روپ دھارے از ڈاکٹروزیر آغا
سرائیکی ترجمہ: ہوا وٹاوے جے ویس میڈا از مظہر مسعود
ہوا حیران تھی ویندی اے جیندا ڈیکھ تے میکوں
میڈے بُتھے بدن وچ پوڑ تے سانگاں اکھیندی اے
’’تُوں ساہ حالی وی گھِندا پئیں؟‘‘
ہوا کوں کیا ڈسانواں میں
جو میڈے ساہ تاں بس ہک وہم ہِن
ہُن ہک برابر ہِے میڈا ہوون تے نہ ہوون
ہزاراں کالیاں،سُکیاں،بُکھیاں جِلماں
میڈے بوتے کوں چنبڑیاںپِن تے پیندیاں پِن لہو میڈا
بدن میڈا نچڑدا پئے، سُکڑدا پئے
میں کماندے سُکدے ون دا چھیکڑی بے رنگ پَنّا ہاں
میڈا تھرکاٹ میڈا نئیں
ہلارا خود ہوا دا ہِے
ہوا دا آپنا پھوکا میکوں آدے ہلا ڈیندے
میں
اکھی جے لیسواں پتھر ہاں
اندھے کھوہ دی کَنی تے
ذری اٹکیا کھڑا ں،ڈردا کھڑا ہاں
ہوا دے ہک اشارے نال ڈھیہ پوساں
ہوا کوں کیا ڈسانواں
میں سپاہی ہم جری کتنا،نڈر کتنا
مگر ساری دلیری اپنے اُتے آزما بیٹھاں
لہو اپنا ونڈا بیٹھاں،کھنڈاں بیٹھاں
ایہ سب کجھ ہے مگر ول وی
میڈا رشتہ حیاتی نال قائم ہِے
میں اینویں مَر نمہی سگدا،
میں اینویں ہرَ نمہی سگدا،
ایہ بئی گالھ اے
کیتھئیںبدلاں دے اولے تھی
وٹا تے ویس میں وانگے
ہوا میڈے کِنے آوے
ذری کھِل تے چا آکھے
’’اَپنیاں دے نال وی کڈھ پا۔۔
بھلا اپنیاں کِنوںکیا ڈر؟‘‘
تاں کھِل پوساں
میں اپنا آپ ہَر ویساں
میں کھِلدیں کھِلدیں مَر ویساں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
24 اور 25 جولائی کی درمیانی شب عجیب ماجرا ہوا۔رات کو جب بھی پیشاب کرنے کے لیے اُٹھتا،وضو کرکے باہر نکلتا اور کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے لگتا۔مجھے تب بھی نہیں معلوم تھا،اب بھی معلوم نہیں کہ میں عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا،تہجد پڑھ رہا تھا یا فجر کی نماز پڑھ رہا تھا۔ہاں اتنا احساس تب بھی تھا کہ میں نماز پڑھتے پڑھتے کرسی پر ہی ہلکا سالڑھکتا تھا اور پھر سنبھل جاتا تھا۔25 جولائی کا دن معمول کے مطابق گزر گیا۔26 جولائی کودن میں گزشتہ شب کی نیند پوری کی۔اس دوران شام پانچ بجے کے قریب دوسرا بیٹا عثمان گھر میں آیا،اس نے مجھے آواز دی لیکن میں گہری نیند میں تھا۔چنانچہ وہ ڈرائنگ روم میں جا کر صوفہ پر سو گیا۔آٹھ بجے کے لگ بھگ میں پیشاب کے لیے ہڑبڑا کر اُٹھا تو کچھ لڑکھڑاہٹ محسوس ہوئی۔دیوار کو تھام کر باتھ روم تک گیا تو سلواراتارتے اتارتے اس میں کچھ پیشاب نکل گیا تھا۔میں نے طہارت کی تو بہت سارا پانی باتھ روم کے فرش پر بہہ گیا،مزید یہ ہوا کہ لوٹا بھی میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا، ،سلوار کو وہیں چھوڑا اورشدید نقاہت کے باعث صرف قمیص کے ساتھ ہی اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا۔کافی دیر کے بعد نئی سلوار تبدیل کی ۔اس دوران چھوٹی بیٹی درِ ثمین (مانو)نے مجھے فون کیا تو اس کے بقول میں نے اسے کہا کہ باتھ روم جاتے ہوئے میرا سر دیوار سے ٹکرایا تھا۔(یہ بات نہ مجھے یاد ہے اور نہ ہی عثمان نے یہ بات سنی۔نہ ہی میرے سر پر کسی طرح کی چوٹ کا نشان تھا،تاہم مانو نے سنا تھا تو درست سنا تھا)اس نے فوراََ عثمان کو فون کیا کہ آپ کہاں ہیں؟ ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں لگتی۔اس نے بتایا کہ میں ابو کے گھر میں ہی ہوں۔مانو کے بتانے پر عثمان میرے کمرے میں آیا۔تاہم تب تک حالت بہتر ہو چکی تھی۔عثمان کچھ دیر رُک کر پھر ڈرائنگ روم میں چلا گیا۔پھر کچھ دیر کے بعد ہی میں نے عثمان کو آواز دی۔وہ آیا تو اسے کہا کہ مانو اور رضوانہ کو فون کرو فوراََ آجائیں،پھر شعیب کو بھی یہی پیغام بھجوایا۔ٹیپو شام کو اپنے چند دوستوں کے ساتھ دو روزہ ٹرپ پر نکلا تھا۔چار گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا۔ اسے بھی پیغام بھیجا کہ واپس آجاؤ۔
مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ میں اب آخرت کے سفر پر جارہا ہوں۔ رضوانہ، شعیب، عثمان، درِ ثمین سب اپنے بیشتربچوں کے ساتھ پہنچ گئے۔ٹیپو کے دونوں بچے بھی پہنچ گئے۔ٹیپو رات کو تین بجے پہنچ گیا۔سارے بچے اور بچوں کے بچے،بہو، دامادسب موجود تھے۔اب میرے پلنگ کے ارد گرد سارے بچے تھے۔پوتے،پوتیاں، نواسے، نواسی میں سے بعض تو میرے پلنگ پر آگئے۔ایسی خوبصورت صورتِ حال میں توبندہ’’مُردن موقوف‘‘کہہ کر اُٹھ بیٹھتا ہے۔
میری ظاہری کیفیت دیکھ کر سارے بڑے بچے سہمے ہوئے تھے اور میں مسلسل مسکرا رہا تھا۔(ہنس نہیں رہا تھا،مسکرا رہا تھا) ۔میں نے بچوں کومخاطب کرکے کہا کہ دیکھو ! میں کس طریقے سے دوسری دنیا میں جا رہا ہوں۔کیا کسی کو اس طرح مسکراتے ہوئے مرتے دیکھا ہے؟
موت کا رنگ بر حق،مگر نہ موت کا خوف،نہ کوئی گھبراہٹ،نہ نزع کی تکلیف،بس ایک مسکراہٹ،
لبیک الھم لبیک۔۔۔ آپ سب کو تو اس بات پر مطمئن ہونا چاہئے کہ ہمارا باپ اس انداز سے اپنے خدا کے پاس جا رہا ہے۔میں بچوں کو تسلی دینے کے لیے یہ باتیں کر رہاتھا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ بچوں نے زیادہ رونا شروع کر دیا۔
پھر میں نے دیکھا کہ میں عالمِ بالا میں پہنچ گیا ہوں۔میرا جسم بستر پر پڑا ہے مگر میں دوسری دنیا میں پہنچا ہوا ہوں۔میں وہیں سے بول رہا ہوں اور اپنے بچوں کو وہاں کا حال بتا رہا ہوں۔پہلے مرحلے میں یہ حال مختصراََ بتایا تھا۔اس کے بعد میں نے ،بستر پر پڑے ہوئے میں نے بالکل معصوم بچوں جیسی مسکراہٹ اور حیرت کے ساتھ کہنا شروع کر دیا۔
میں تو اپنے خدا سے بہت پیار کرتا ہوں لیکن مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ میرا پیارا خدا مجھے اتنا پیار کرتا ہے۔’’اتنا ‘‘کو میں بچوں کی طرح لمبا کرکے بے حد حیرانی کے ساتھ کہہ رہا تھا۔میں نے یہ جملہ بار بار کہا اور پھر اللہ اکبر۔۔اللہ اکبر کا ورد شروع کر دیا۔اللہ اکبر کہتے ہوئے میں اپنے سینے پر ہاتھ مارتا تھا۔اللہ اکبر کے بعد میں نے سورۃ الم نشرح پڑھنا شروع کردی۔اور بار بار پڑھتارہا۔اس کی ان آیات کو پھر میں ایک سے زائد بار دہرانے لگتا۔
وَرَفَعنَا لَکَ ذِکرَک۔فَاِنَّ مَعَ العُسرِ یُسرََا۔اِنَّ مَعَ العُسرِ یُسرََا۔
یہ آیات پڑھتے ہوئے میں اپنے دونوں بازو اٹھا کر پھر گدے پر اس طرح مارتا تھا جیسے بچے صوفے پر یا بیڈ پر جمپنگ کرتے ہیں۔بچوں جیسی ہی خوشی تھی اور بچوں جیسی مسکراہٹ تھی۔
اس کیفیت کی اور بعد کی کیفیات کی جو باتیں لکھنے والی ہیں میں لکھ رہا ہوں۔بعض باتیں جولکھنے والی نہیں ہیں میں نے بچوں کی مختلف جوڑیوں کو بتائی ہیں۔مثلاََ کچھ باتیں رضوانہ اور درِ ثمین کو،کچھ باتیں ٹیپو اور رضوانہ کو،کچھ باتیں ٹیپو اور مانو کو۔پھر بعض باتیں صرف رضوانہ کو اور بعض باتیں صرف شعیب کواور چند باتیں صرف عثمان کو۔یہ باتیں بتاتے ہوئے میں نے انہیں کہا کہ یہ صرف آپ تک امانت ہیں۔بعد میں بے شک خاندان کے دوسرے بچوں کو بھی بتا دیں لیکن صرف خاندان تک رکھیں۔یہ کہہ کر میں نے بعض بچوں کو یہاں تک کہا کہ ان باتوں کو دوسروں تک پہنچانا ایسا ہی ہے جیسے میں ننگا ہوجاؤں۔ان باتوں کاپردہ بہت ضروری ہے۔ان باتوں کو سمجھ سکیں یا نہ سمجھ سکیں لیکن انہیں صرف خاندان کے لیے امانت سمجھیں۔ سو مجھے ننگا مت کرنا۔اس کتاب میں ناگفتنی کے بارے میں اتنا لکھا ہی کافی سمجھا جائے۔
ان کیفیات کے دوران ایک سے زیادہ مرتبہ ایسا ہوا کہ کوئی بچہ کسی دوسرے کو اشارتاََ کچھ کہہ رہا ہے۔دوسرا بچہ سامنے ہوتے ہوئے بھی اشارا نہیں دیکھ رہا اور میں دوسری طرف منہ ہوتے ہوئے بھی وہ دیکھ رہا تھا اور پھر میں نے اس بچے کو آواز دے کر کہاکہ وہ اتنی دیر سے اشارا کر رہی ہے اور آپ دیکھ ہی نہیں رہی ہیں۔رات بھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔دونوں بیٹیاں گھر پر ہی رکی ہوئی تھیں۔ان کے بچے بھی موجود تھے۔کوئی دوسرے کمرے میں ہلکی سی سرگوشی بھی کرتا تو مجھے سنائی دیتی اور میں فوراََ پوچھتا کہ فلاں نے کیا کہا ہے؟
ایک بار ایسا ہوا کہ مجھے کمرے کی بیرونی کھڑکی کے پردوں کے پیچھے سے ایک خوشنما سا بندر جھانکتا ہوا اور اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہاتھ ہلاتا ہوا دکھائی دیا۔اس کے سامنے ایک نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب بڑا سا کمبل جیسا کچھ پڑا ہوا تھا۔یہ سب پُر کشش تھا لیکن میں نے فوراََ اس طرف سے منہ پھیر لیا۔اس کے بعد ایک دو بار کنکھیوں سے اس طرف دیکھا کہ شاید وہ خوشنما بندر ابھی بھی وہیں موجود ہو۔لیکن وہ اب وہاں نہیں تھا۔
رات کو کسی پَل ہلکی نیند آئی تو بچوں نے بھی سونے کا ارادہ کر لیا۔تاہم دو بچے ہر وقت میرے کمرے میں رہتے۔بیداری کے بعد پھر وہی خوشی کا اظہار کہ میرا خدا مجھے اتناپیار کرتا ہے۔پھر اللہ اکبر کا ورد اور سورۃالم نشرح اور اس کی تین آیات کی دہرائی۔۔۔
پہلی تھراپی چھ جولائی کو ہوئی تھی اور ری ایکشن کے طور پرمجھے 26 جولائی کے دن تک کچھ نہیں ہوا۔اگلی تھراپی 27 جولائی کو تھی۔اپنے حساب سے میں فوت ہو چکا تھا اور اسی حالت میں بچوں سے باتیں کرتا رہا تھا۔بستر پر پڑا ہوا تھا اوردوسری دنیا میں پہنچا ہوا تھا۔نیا دن چڑھتے ہی مجھے ساڑھے نو بجے تھراپی کے لیے روانہ ہونا تھا۔سو وقت پر ٹیکسی مجھے لے گئی اورتھراپی کے بعد وقت پر گھر پہنچا گئی۔واپسی پر میں نے ہلکا سا کھانا کھایااور پھر گہری نیند سو گیا۔بعد میں چھوٹی بیٹی نے بتایا کہ آپ نے آتے ہی کہا تھا کہ پتہ نہیں میں کیسے یہاں تک پہنچا ہوں۔جبکہ مجھے یہ بات بالکل یاد نہیں ہے۔نیند سے بیدار ہوا تو پھر گزشتہ رات والی کیٖفیت تھی لیکن سفر اس سے آگے کا تھا۔
اب میں اگلی دنیا میں ایک اور سفر پر تھا۔آگے چل کر جب دادا جی کی وفات کے قصہ اور اباجی کی موت جیسی علالت میں مقامات اور رفتار کے مسئلے پر بات کروں گا تب اپنے اس سفر کی رفتار کے بارے میں بھی بات کروں گا۔
کئی مناظر سے گزرتے ہوئے ایک وقت آیاجب مجھے کہا گیا کہ آپ نے اب آگے جانا ہے تو خدا سے ملاقات ہو سکتی ہے لیکن پھر واپسی ممکن نہ ہو گی۔لیکن اگر واپس جانا چاہیں تو یہاں سے بھی آپ کو خصوصی طور پر واپس بھیجا جا سکتا ہے۔میں نے یہ بات اسی وقت بچوں کو بتائی کہ مجھ سے میری مرضی پوچھی جا رہی ہے۔پھر میں نے وہاں جواب دیا کہ میری ذاتی خواہش تو یہی ہے کہ اپنے پیارے خدا سے مل سکوں لیکن بچوں کی جو حالت ہو رہی ہے اس کی وجہ سے کچھ وقت کے لیے واپس چلا جاتا ہوں۔میرے جواب کے بعد کچھ دیر معاملے پر غور ہوا اور پھر بتایا گیا کہ مجھے واپس بھیجا جائے گا۔مزید کچھ دیر کے بعد میری واپسی کا حکم جاری کر دیا گیا۔میں تب ہی بچوں کو یہ سارا حال بتاتا جا رہا تھا۔
کچھ دیر کے بعد میں نے لیٹے ہوئے اپنا بایاں بازو دائیں طرف تکیے پر رکھنا چاہا تو وہاں تکیے کے اوپر صوفے کی ایک گدی پڑی تھی،ہاتھ اس گدی پر پڑا۔کچھ دیر کے بعد اس گدی میں ہوا بھرنی شروع ہو گئی۔میں نے قریب کھڑی چھوٹی بیٹی سے کہا گدی کو ہاتھ لگا ؤ۔اس میں ہوا بھر رہی ہے،یہ اس بات کا اشارا ہے کہ میری روح واپس آرہی ہے۔بیٹی نے گدی کو ہاتھ لگا کر کہا مجھے تو بالکل نہیں محسوس ہو رہی۔میں نے کہا ہاں یہ میرے لیے اشارا ہے۔پھر میں نے بائیں کروٹ ہو کر دائیں ہاتھ سے بیڈ کے گدے کو مضبوطی سے پکڑاتو پورے گدے میں ہوا بھرتی ہو ئی محسوس ہوئی ۔تب میں نے زیادہ بلند آواز سے کہنا شروع کر دیا کہ زندگی کی واپسی ہو گئی ہے،روح واپس آگئی ہے۔مجھے مزید کچھ جینے کے لیے واپس بھیج دیا گیا ہے۔اور پھر وہی اللہ کے پیار کا بیان،اللہ اکبر کاوِرد اور سورۃ الم نشرح اور پھر اس کی تین آیات کی بطور خاص دہرائی۔۔۔والا حال۔
بچے رو رو کر تھک چکے تھے۔میری طرف سے زندگی کی واپسی کے اعلان کے بعد بچے اب کچھ حوصلے میں آگئے تھے۔بعض بچوں کے ذہنوں میں کچھ سوال تھے۔انہوں نے وہ سوالات کیے۔مقصد یہ تھا کہ میں جو کچھ بیان کر رہا تھا اس کی مزید کچھ وضاحت ہو جائے۔بعض بچے سائنٹفک ذہن رکھتے تھے انہوں نے اپنے طریق سے سوال کیے۔ان کے ساتھ سوال جواب بحث کی صورت بھی اختیار کر گئے ۔ یہاں میں بچوں کے نام دے کر سوال پیش کرنے کی بجائے ان کے سوالات ہی لکھوں گا اور پھر اپنی سمجھ بُوجھ کے مطابق ان کے جواب بھی لکھوں گا۔یہ زیادہ تر جواب میں نے تب ہی بچوں کو دے دئیے تھے۔
ایک بار پھریہ واضح کر دوں کہ میں سائنس اور جدید میڈیکل سائنس کی برکات کا قائل ہوں اور ان کی اہمیت کو جانتا اور مانتا ہوں۔یہ علوم جو کچھ بتاتے ہیں ایک حد تک بالکل درست ہیں۔لیکن میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ان علوم سے آگے بھی بہت سارے جہان ہیں جن تک یہ علوم ابھی پہنچ نہیں سکے۔
ہمارے معاشرے میں ہسٹیریا کے مریضوں میں سے لڑکیوں کی حالت دیکھ کر ان پر کسی جن کے سائے یا کسی آسیب کی بات کی جاتی ہے اور مردوں میں اسے پاگل پن ،جنون میںشمارکیا جاتا ہے۔جبکہ یہ ایک بیماری ہے جس کا اب بہتر علاج ہو جاتا ہے۔
انسانی نفسیات میں کہیں کچھ گڑبڑ ہو تویہاں بھی بہت کچھ الٹا سیدھا ہو جاتا ہے۔تاہم ان میں عمومی طور پر خاندانی پس منظر اور مریض کی ذاتی زندگی سے بہت کچھ دریافت کیا جا سکتا ہے اور اس کا بہتر علاج کیا جا سکتا ہے۔
دیوانگی کو ہسٹیریا سے الگ کرتے ہوئے میں اس کی دو اہم کیفیات کا ذکر کروں گا۔دیوانگی کی ایک کیفیت میں انسان کسی ایک مقام پر رُکا ہوا ہوتا ہے،اور اس سے آگے نہیں جا پاتا۔دوسری کیفیت وہ ہے جس میں انسان اپنے وقت سے آگے نکلا ہوا ہوتا ہے۔سائنس کسی ایک مقام پر رُکے ہوئے انسان کو تو کچھ رواں کر سکتی ہے لیکن اپنے وقت سے آگے نکل جانے والے کو واپس لانا ابھی تک ممکن نہیں ہوا۔
دواؤں کا ردِ عمل۔۔۔۔مختلف بیماریوں کے اثرات کے نتیجے میں بھی اور بعض دواؤں کے اثرات کے نتیجے میں بھی انسان کی حالت دگرگوں ہو جاتی ہے۔کینسر کی تھراپیوں کاری ایکشن تو کافی سخت رہتا ہے ۔جیسا کہ شروع میں ذکر کر آیا ہوں کہ مریض پر گھبراہٹ طاری ہوتی ہے،شدید بے چینی ہوتی ہے ،غم و غصہ کی حالت ہوتی ہے۔اس حد تک کہ بعض اوقات وہ مضطرب ہو کرتشدد پر بھی اتر آتا ہے۔
میں اپنے آپ کو ان ساری بیماریوں اور ان کے اثرات کے حوالے سے دیکھتا ہوں تو ابھی تک اللہ کے فضل و کرم سے ان سب سے محفوظ ہوں۔کینسر کی تھراپیوں کے ری ایکشن کو اگر میرے تجربے کا سبب کہا جائے تو میرا بڑا سیدھا اور سائنسی نوعیت کا سوال ہے کہ کیا کینسر کے کسی مریض کو صدمے کے معلوم شدہ ری ایکشن سے ہٹ کر کبھی ایسا ری ایکشن بھی ہوا جیسا مجھے تجربہ ہوا ؟یا کوئی اور مگر نہایت خوشگوار کیفیت اس پر طاری ہوئی؟۔اس سلسلے میں کوئی ’’سٹوری‘‘ نہیں بلکہ آج کے ہزاروں مریضوں میں سے کوئی ایک مثال لائی جائے۔
اب میں سائنسی ذہن رکھنے والے اپنے بچوںکے لیے اپنے تجربے کاایک عقلی جواز پیش کرتا ہوں۔ انسانی دماغ کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو یہ بھی اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔صرف سائنس پر تکیہ کرنے والے احباب بخوبی جانتے ہیں کہ ہزاروں برسوں سے ترقی پذیر انسان جو پتھر کے زمانے سے آج کمپیوٹر کے زمانے تک آن پہنچا ہے،یہ سب اس کے دس سے پندرہ فی صد دماغ کی کار کردگی کا ثمرہے۔دماغ کا باقی کا جو 85 یا 90 فی صد حصہ خاموش پڑا ہے،اگر وہ بھی انسانی دسترس میں کام کرنے لگے تومزید اور بے پناہ انسانی ترقیات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے
میرا موقف یہ ہے کہ دماغ کا خاموش حصہ کبھی کبھار کوئی لشکارا سا آگے بھیج دیتا ہے جسے علوم کی دنیا میں کبھی کوئی بڑا انکشاف بھی کہا جاتا ہے ،جسے کبھی کوئی روحانی تجربہ بھی کہا جا سکتا ہے۔کیونکہ دماغ کا کمپیوٹر کہیں کسی آسمانی سپریم کمپیوٹر سے بھی جڑا ہوا ہے۔جدید میڈیکل سائنس خود دماغ کی کار کردگی کو ابھی پوری طرح نہیں جان سکی۔یہ حقیقت خود میڈیکل سائنس والے بخوبی جانتے ہیں۔
ایک سوال یہ تھا کہ آپ اگر فوت ہو گئے تھے تو باتیں کیسے کر رہے تھے اور تھراپی کے لیے بھی کیسے چلے گئے تھے؟
اس کا جواب یہ تھا کہ روحانی تجربے کو جاننے کے لیے اُس دنیا سے کچھ شناسائی ضروری ہے۔تاہم یہ معاملہ تو سائنسی طور پر بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔اُردن کے موجودہ شاہ عبداللہ کے والد شاہ حسین امریکہ میں تھے۔وہیں ان کی وفات ہو گئی ۔کلینیکل موت ڈیکلئیر کر دی گئی لیکن کسی خاص طبی عمل سے وہ پورے پروٹوکول کے ساتھ چلتے ہوئے ائر پورٹ تک گئے،جہاز میں سوار ہوئے اور اپنے وطن پہنچے،حالانکہ ان کی وفات ہو چکی تھی۔سو اگر مادی دنیا میں سائنسی طور پر ایسا کچھ ہو سکتا ہے تو خدا کے لیے کسی بندے کے واسطے ایسا کچھ کر دینا کون سا مشکل کام ہے کہ وہ فوت بھی ہو گیا ہے اور چل پھر بھی رہا ہے اور بات بھی کر رہا ہے۔
ایک سوال یہ تھا کہ آپ ایک ہی وقت میں اُس دنیا میں بھی ہیں اور اِس دنیا میں بھی ہیں۔ اوربیک وقت دونوں مقامات پر بات کر رہے ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے؟
اس کا جواب یہ تھا کہ عام خواب میں بھی انسان ایک ہی وقت میںبستر پر لیٹا ہوتا ہے اور خواب میں کہیں سے کہیں پہنچا ہوتا ہے۔جبکہ یہ تجربہ خواب سے اوپر کا تھا۔شاید کشف کی ایسی نادر صورت تھی جس میں جسم بھی کسی نہ کسی طور شریک تھا۔
مجھ سے سوال نہیں کیا گیا بلکہ وضاحتاََ مجھے یہ بات بتائی گئی کہ ہپنا ٹزم کے ذریعے انسان کو اگلی دنیا کے No Mans Land ایریا میں بھیجا جا سکتا ہے اور وہاں سے دنیا میں واپسی بھی ہوجاتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہپناٹزم کے ماہرین کسی کو اگلی دنیا کے کسی بھی زون میں نہیں بھیج سکتے۔ ہاںکسی انسان کو ٹرانس میں لا کر اسے اس کے ماضی کی دنیا کا کچھ حال دکھا سکتے ہیں۔اس سے بھی انسان کا کتھارسس کرکے اس کے بعض ڈر اور نفسیاتی مسائل دور کیے جا سکتے ہیں۔میں نے اس سلسلہ میں دس سال پہلے کچھ لکھا تھا،وہ لکھا ہوا یہاں درج کردیتا ہوں،اس سے اس مسئلہ پر میرا موقف کافی وضاحت کے ساتھ سامنے آجاتا ہے۔
’’ پاکستان اورانڈیاکے کئی چینلز جرمنی میں آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ایسے ہی چینلز میں ایک کا نام NDTV Imagine ہے۔گزشتہ برس اس چینل پر ایک رئلیٹی شو’’راز پچھلے جنم کا‘‘کے نام سے دکھایا گیا۔چند محدود قسطوں کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔میرے گھر والے اس شو میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے کہ شاید انہیں یہ اپنے معتقدات کے خلاف لگتا تھا۔میرے پیش نظردو باتیں تھیں۔ایک تو یہ کہ میں ایک طویل عرصے سے کبھی ایسا محسوس کیا کرتا ہوں کہ جیسے میں کسی پچھلے جنم میں بادشاہ؍راجہ یا سردار قسم کی چیز تھااور کبھی ایسے لگتا ہے کہ میں کوئی سادھو، سنت، فقیر یا ملنگ تھا۔میں اس بات کو اپنی بیوی کے علاوہ بعض بچوں کے ساتھ بھی بیان کر چکا ہوں۔یہ دو مختلف دھاروں کا احساس پاکستان میں قیام کے زمانے سے چلا آرہا ہے ۔اس لیے پچھلے جنم کا اسرار میرے لیے ذاتی دلچسپی کا موجب تھا ۔ دوسری بات یہ کہ مجھے روح کے بھید کو سمجھنے کی خواہش ہمیشہ سے رہی ہے۔ یہ گیان اور معرفت مجھے کہیں سے بھی ملنے کی امید ہو میں ممکنہ حد تک وہاں پہنچنے کی کوشش کرتاہوں۔یہ شو تو گھر بیٹھے ہی دستیاب ہو رہا تھا ۔ اس میں ایک ماہرِ نفسیات خاتون ایک خصوصی نوعیت کے بیڈ کے ساتھ براجمان ہوتی تھیں۔وہاں اپنے پچھلے جنم کی یاترا پر جانے کے خواہشمند کو لٹا کر پچھلے جنم کا کچھ حصہ دکھایا جاتا تھا۔میرا اپنا اندازہ یہ تھا کہ مسمریزم سے ملتے جلتے کسی نفسیاتی طریقے سے مریض کو ٹرانس میں لا کرپھر کسی جینیٹک وے سے یا صدیوں سے محفوظ لاشعور کے ذریعے ہمارے آباؤ اجداد کے کسی کردار کی فلم کے ذریعے سے نفسیاتی علاج کر دیا جاتا ہے۔
اس شو میں آنے والے بعض لوگ اپنے پچھلے جنم کی کئی انوکھی داستانیں سنا رہے تھے۔میں ان سب کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ تو سائنس کی ایک سادہ سی ،درسی نوعیت کی عام سی بات ہے کہ ہر انسانی سیل کے نیوکلس میں ۴۶کروموزوم ہوتے ہیں۔۲۳ ماں کی طرف سے اور ۲۳ باپ کی طرف سے۔کروموزوم کے اندر ایک کیمیائی مادہ ہوتا ہے جسےDNA کہتے ہیں۔اس DNA کے مالیکیول کے مخصوص حصوں کو جین کہتے ہیں۔سیل کے ہر فعل کو کنٹرول کرنے والی ایک مخصوص جین ہوتی ہے۔انسانی جسم کے اربوں سیل میں سے ہر ایک سیل کے ۴۶ کرو مو زو موں کو ملا کرکروڑوں کی تعداد میں جینز ہوتی ہیں۔ایک سیل جس کے اندر یہ کروڑوں کی سرگرمیاں جاری و ساری ہیں،اس کی مادی حیثیت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ سوئی کی نوک پر ۲۰ہزار سیل سما جاتے ہیں۔(یہاں مجھے ایک غیر متعلق بات یاد آگئی۔بغداد پر ہلاکو خان کے حملہ کے وقت علماء کے دو گروہوں میں اس مسئلہ پر مناظرہ ہورہا تھا کہ ستر ہزار فرشتے سوئی کے ناکے میں سے گزر سکتے ہیں یا نہیں؟۔سوئی کی نوک پرمادی صورت کے حامل ۲۰ ہزار سیل سما سکتے ہیں جبکہ ہر سیل کے اندر کروڑوں جینز موجود ہیں، تو ناکے میں سے ستر ہزار فرشتوں کا گزرنا تو معمولی سی بات لگتا ہے)۔
سیل کی کاکردگی کی اس تفصیل کے بیان سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ ہمارے اندر ہمارے آباؤ اجدادکی عادات و افعال کا کتنا بڑا حصہ موجود ہے۔ان کے ذریعے ہمارے نانہال،ددھیال کے اعمال وعادات کا بہت سارا حصہ ہم میں منتقل ہوجاتا ہے۔اپنے آپ کو کبھی کوئی مہاراجہ یا سرداراور کبھی کوئی ملنگ فقیر محسوس کرنا مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میرے ددھیال،نا نہال میں سے کوئی ایسے رہے ہوں گے اور انہیں کی وہ بادشاہی اورفقیری میرے اندر بھی سرایت کرکے کسی نہ کسی رنگ میں میرے مزاج کا حصہ بنی ہوئی ہے۔
این ڈی ٹی وی پرپچھلے جنم کا جو سفر میں دیکھ رہا تھا مجھے لگا کہ وہ اصل میں ان کے کروموزوم میں محفوظ آباؤ اجداد کے کسی کردار کی زندگی کی کوئی پرچھائیں جیسی جھلک تھی۔یہ میں ان افراد کے بارے میں لکھ رہا ہوں جن کی داستانوں میں کہیں کوئی ربط تھا۔لیکن کئی باتیں بے ربط یا بے جوڑ بھی محسوس ہوئیں۔مثلاََ کسی کو شدید گھٹن کا احساس ہوتا ہے تو اس کے پچھلے جنم میں اسے کسی صندوق میں بند کر کے ڈبو دیا گیا تھا۔پچھلے جنم میں ظلم ہوا تھا تو اب تو اس کے بدلہ میں من میں شانتی اور کھلے پن کا احساس ہونا چاہیے تھا۔اگر وہی گھٹن کا احساس ابھی تک موجود ہے تو پھر نیا جنم پچھلے جنم کا اجر نہیں بنتا بلکہ اسی سزا کا تسلسل لگتا ہے جس کے نتیجہ میں پچھلا جنم انجام کو پہنچا۔تاہم میرا مقصد یہاں ہر گز ہرگز کسی کے عقائد پر اعتراض کرنا نہیں ہے بس اس پروگرام کو دیکھتے وقت روح کی کھوج کی میری لگن جو کچھ سجھاتی رہی وہ بیان کر رہا ہوں۔بعض پروگراموںمیں جو کچھ دکھایا گیا انہیںکے اندر پچھلے جنم کی داستان کی تردیدہو گئی۔مثلاََ ایک لڑکی کے پچھلے جنم میں اس کی ساس نے اسے زندہ جلا دیا تھا۔وہ اپنے پچھلے جنم کے گھر کے علاقہ اور ہاؤس نمبرسے لے کر اسکول کے نام پتہ تک کی ساری تفصیل بیان کرتی ہے ۔لڑکی کا پچھلا جنم بھی دہلی میں ہوا اور موجودہ جنم بھی دہلی میں ہوا۔لیکن جب پچھلے جنم کے مقامات کی تصدیق کرنے گئے تو کوئی بھی درست ثابت نہ ہوا۔اسی طرح انڈیا میں پنجابی فلموں کی ایک اداکارہ پچھلے جنم میںیاسمین خان تھی،سلطان نامی مسلمان سے محبت کرتی تھی۔رنجیت سنگھ کے مزار پر جھاڑو دیا کرتی تھی۔۱۹۴۷ء میں اسے مسلمانوں نے قتل کر دیا۔کسی مسلمان کو کسی ہندو یا سکھ کے ہاتھوں قتل ہوتا بتایا جاتا تو قابلِ فہم بات ہوتی یا پھر لڑکی ہندو یا سکھ ہوتی اور پھر مسلمانوں کے ہاتھوں ماری جاتی تو پچھلے جنم کا راز سمجھ میں بھی آتا۔ اس طرح کے کئی بے جوڑ نتائج پر مبنی پروگرام ماہرِ نفسیات خاتون کی تشخیص کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘
(’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘ کے باب ’’زندگی در زندگی‘‘ سے اقتباس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔