اپنی کتاب ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘کے باب ’’علتیں،علالتیں‘‘ میں ،مَیں نے اپنی بعض ان بیماریوں کا ذکر کیا ہے جو مجھے پاکستان میں لاحق تھیں۔جرمنی پہنچنے کے بعد غالباََ 1996 ء میں مجھے شوگر کی بیماری ہو ئی۔پھر2009 ء کے اکتوبر تک دل کی تکلیف ہو گئی۔وقفے وقفے سے چار بار انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی۔۔۔اور ایک بار صرف انجیو گرافی کرانا پڑی۔بار بار سٹنٹ ڈالے جا رہے تھے۔ڈاکٹر نے ایک بار پھر سرجری کے لیے کہا لیکن اس بار میں نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا اوپن ہارٹ سرجری بے شک کر لیں لیکن مزید سٹنٹ بازی اب نہیں۔پھر میں نے دل کے لیے ایک سیرپ کا دیسی نسخہ استعمال کرنا شروع کیا اور اب دس سال ہو چکے ہیں،دل کے معاملے میں خیریت ہی خیریت ہے۔الحمدلِلہ۔اس کا کافی سارا حال یادوں کے باب ’’لبیک الّھم لبیک‘‘
میں لکھ چکا ہوں۔مبارکہ کی مسلسل اور سنگین بیماریوں کے دوران میرا زیادہ وقت ان کا خیال رکھنے میں گزر جاتا تھا۔میرے صحت کے معاملات نارمل ہی تھے۔27 مئی 2019 ء کو مبارکہ کی وفات کے بعد کے چند مہینے بجھے بجھے سے گزرے تاہم کوئی نئی بیماری نہیں ہوئی تھی۔
اب 17 فروری 2020 ء سے 19 اگست 2020 ء تک بیماریوں کی ایسی یلغار ہوئی کہ اس عرصہ کے دوران پانچ بار ایمبولینس بلانا پڑی اور ایک بار بیٹا خود ہسپتال لے کر گیا۔عمر گزرنے کے ساتھ صحت کے مسائل بھی بڑھتے جاتے ہیں۔میری بیماریاں بھی صرف اسی حد تک ہوتیں تو مجھے ان کا حال لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔تھوڑا بہت لکھنا پڑتا تو یادوں کے کسی نئے باب میں یا الگ مضمون میں کچھ ذکر کردیتا۔لیکن اس دوران چند دنوں پر محیط ایسا تجربہ ہوا کہ میرے لیے اس کو قدرے تفصیل سے لکھناضروری ہو گیا ۔
پہلے مذکورہ بیماریوں کے سلسلہ میں بار بار ہسپتال جانے کا مختصر بیان۔۔۔
بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ بھوک بالکل نہیں لگ رہی تھی۔ 17 فروری کوطبیعت اتنی خراب ہوئی کہ ایمبولینس بلانا پڑی۔ ایمبولینس والے Badsodenباڈ زودن شہر کے ہسپتال میں لے گئے ۔مختلف ٹیسٹ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ میرے بائیں گردے کو ٹیومر نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔اگر گردے کو نکال دیا جائے تو جسم کے دیگر اعضاء تک ٹیومر نہیں پہنچ سکے گا۔ میں نے آپریشن کے لیے رضامندی ظاہر کر دی تو 20فروری کو مجھے ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی۔آپریشن کے لیے 27 فروری کی تاریخ طے ہوئی۔گھر پہنچنے کے دو دن بعد ہی مجھے اپنا ہاتھ سُن ہوتا ہوا محسوس ہوا ۔بچوں کو بتایا تو انہوں نے پھر ایمبولینس بلا لی۔پہلے باڈزودن والے ہسپتال لے جایا گیا ابتدائی تشخیص کے بعد وہاں سے Höechst ہوئیسٹ کلینک میں بھیج دیا گیا۔وہاں ہر طرح کے ضروری ٹیسٹ کرنے کے بعدمجھے فالج کے کسی امکانی حملے سے کلیئر قرار دے دیا گیااور 26 فروری کو باڈزودن کے ہسپتال میں واپس بھیج دیا گیا،جہاں 27 فروری کو میرا بایاں گردہ نکالنا طے تھا۔
ہوئیسٹ کلینک کی ایک اہم بات یہ رہی کہ یہاں میرا MRT ٹیسٹ خیروخوبی سے ہو گیا۔ یہ کوئی آسان مرحلہ نہیں تھا۔چند سال پیشتر مجھے میرے ڈاکٹر نے دو بار اس ٹیسٹ کے لیے اسی کلینک میں بھیجا تھا لیکن میں نے باہوش و حوا س اس ٹیسٹنگ تابوت میں جانے سے انکار کر دیا۔ دوسری بار مجھے نیند کی گولی دے کر ٹیسٹ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن میں جاگ رہا تھا سو پھر انکار کر دیا۔یہ الگ بات کہ گھر جا کر چوبیس گھنٹے تک سوتا رہا۔دراصل گولی دینے کے بعد میرے سوجانے کا انتظار کیا جانا چاہئیے تھا جو نہیں کیا گیا۔اس بار جو پھر MRT کے لیے کہا گیا تو چھوٹا بیٹا ٹیپو (طارق) میرے پاس موجود تھا۔ڈاکٹر کو اس نے میرے اصل مسئلے کا بتایا تو طے ہوا کہ گولی دینے کے بعد مجھے نیند آنے تک انتظار کیا جائے گا اور تب تک ٹیپو بھی وہاں موجود رہے گا۔یہ ترکیب کامیاب رہی۔ٹیپو نے جب تسلی کر لی کہ میں سو گیا ہوں تو تب میرا ایم آرٹی ٹیسٹ کر لیا گیا۔ویسے اس کے بعد فروری تا اگست دورانیہ کے ایک اور موقعہ پرجب باڈزودن میں میرا ایک اور ٹیسٹ طے پایا تو وہ لوگ ٹیپو کی موجودگی پر راضی نہ ہوئے اور مجھے نیند نہیں آئی۔چنانچہ یہ ٹیسٹ بھی نہیں ہونے دیا۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق 27 فروری کومیرے بائیں گردے کوآپریشن کر کے نکال دیا گیا۔ آپریشن کے بعد ٹیپو وہاں پہنچا تو میں بے ہوش تھا۔ڈاکٹر نے ٹیپو کو اجازت دی کہ وہ اندر جا کر مجھے دیکھ لے اور تھوڑی بہت بات بھی کر لے۔ٹیپو نے مجھ سے میری خیریت دریافت کی ۔ ایسے لگتا تھا جیسے ٹیپو کہیں دور سے بول رہا ہے۔میں نے مدھم سی آواز میں جواب دیا۔اسے تسلی ہو گئی۔ دوسرے دن معلوم ہوا کہ ٹیومر10.5 cm سائز کا تھا۔اس مرحلے سے گزرنے کے بعد گھر آگیا۔
8 مارچ کو طبیعت پھر بگڑ گئی۔پھر ایمبولینس بلائی گئی۔اس بار انفلوئنزا اور نمونیہ دونوں کا اٹیک ہوا تھا۔جرمنی سمیت دنیا بھر میںکورونا زوروں پر تھا،ایسے وقت میں انفلوئنزا اور نمونیہ ہونے کے باوجود اللہ نے کورونا سے محفوظ رکھا۔دونوں بیماریوں سے ہفتہ بھر میں نجات مل گئی اور 16 مارچ کو پھر گھر واپس آ گیا۔
تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد بھوک نہ لگنے کا مسئلہ پھرتنگ کرنے لگا۔طبیعت بگڑنے لگی۔ 26 جون کو پھر ایمبولینس بلانا پڑی۔ تشخیص میںکافی تگ و دو کے بعد معلوم ہوا کہ ٹیومر نے جگر کو بھی ٹچ کر لیا ہے۔تین جولائی کو کینسر کے ایکسپرٹ ڈاکٹر کے پاس بھیجتے ہوئے مجھے ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔اُس دن اسی لوکیشن میں ایک کنسلٹنٹ کے ساتھ بھی اپائنٹمنٹ تھی۔ٹیپو نے ہمت کرکے دونوں اپائٹمنٹس کے اوقات میں ایڈجسٹمنٹ کی۔
ڈاکٹر نے کچھ بھی چھپائے بغیر بتایا کہ ہم دو تھراپیاں شروع کریں گے۔کیمو تھراپی روزانہ ہوگی اور صبح شام ایک ایک گولی لینے کی صورت میں ہو گی۔گولی کا نام ہے Inlyta 5 mg ۔امیون تھراپی ڈرپ کے ذریعے ہو گی اور ہر 21 دن کے بعد ہو گی۔اس کے لیے طریق کار یہ ہے کہ میرے پہنچنے کے بعد پہلے میری طبیعت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔بالکل ٹھیک ہوں تو پھر ایک فرم کو امیون تھراپی کے لیے تازہ ڈرپ تیار کرنے کا فون کیا جاتا ہے۔بیس منٹ تک ڈرپ پہنچ جاتی ہے اور پھر بیس پچیس منٹ تک تھراپی مکمل ہوجاتی ہے۔ڈاکٹر نے سب کچھ سمجھانے کے ساتھ یہ بتایا کہ دونوں تھراپیوں کا مجموعی خرچہ دس ہزار یورو ماہانہ ہے اور سارا خرچہ جرمنی کے میڈیکل سسٹم کے مطابق ادا ہوگا اور یہ کہ اس میں مجھے خود سے کچھ بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔مزید یہ بھی کہ ڈرپ والی تھراپی کے لیے مجھے ہر بار ٹیکسی لینے آئے گی اور پھر گھر چھوڑ کر آئے گی۔اس کا خرچہ بھی یہاں کا میڈیکل سسٹم اداکرے گا۔اس کے ساتھ ہی مجھے ایک سال کے لیے ٹیکسی کا لیٹر بنا کر دے دیا گیا جو مجھے ٹیکسی فرم کو جمع کرانا تھا۔سو تب ہی جمع کرا دیا تھا۔
پہلی امیون تھراپی کے لیے 6 جولائی کی تاریخ طے ہوگئی۔یہ سب جان کر دل اللہ کی شکرگزاری سے بھر گیا۔بار بار اللہ کا شکر ادا کیا۔پھر جرمن نظامِ حکومت کو دعا دی جس نے ہمیں کسی مطالبے کے بغیر اتنا کچھ دے دیا تھا۔جرمنی والو!آپ کا،آپ کے سسٹم کا شکریہ۔۔۔پاکستان میں ہوتے اور یہ صورتِ حال درپیش ہوتی تو ہم تو ایک تھراپی کا خرچہ بھی ادا کرنے کے قابل نہ ہوتے۔
کنسلٹنٹ صاحبہ سے ملاقات ہوئی تو وہ کینسر کے خطرات سے آگاہ کرنے کے ساتھ حوصلہ دینے لگیں۔کچھ اگلے جہان کی باتیں کیں۔یہ لوگ کینسر کے مریضوں کو امکانی صورتوں سے آگاہ کرنے کے ساتھ نفسیاتی طور پرتسلی بھی دیتے ہیں اور ہمت بھی دلاتے ہیں۔
یہاں سے فارغ ہو کر سیدھے بڑے بیٹے شعیب کے گھر پہنچے،وہاں باقی بچے بھی پہنچ گئے تھے۔باقی کا سارا دن گہما گہمی رہی۔رات کو گھر پہنچے۔اگلے تین دن آرام سے گزر گئے۔اس دوران سارے عزیزواقارب اور خاص احباب کو درپیش صورتِ حال سے آگاہ رکھا ہوا تھا۔6 جولائی کو میری پہلی امیون تھراپی ہوئی۔6 اور7 جولائی کی درمیانی شب عجیب ماجرا ہوا۔جدیدادب کی خان پورکے زمانے کی ایڈیٹر،معروف شاعرہ فرحت نواز نے مجھے سات جولائی کو دن میں واٹس ایپ کے ذریعے لکھا:
’’رات میں نے خواب دیکھا ہے ،آپ مبارکہ کو مجھ سے ملوانے کے لئے لاتے ہیں۔بہت لمبی ڈارک براؤن یا بلیک چادر میں لپٹی ہوئی اور خاص طور پر منہ پر چادر کو نیچے تک لٹکا کرچہرہ چھپایا ہوا۔یہ واضح محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا سے چھپ رہی ہیںاور آپ کو بیماری میں تسلی دینے آئی ہیں۔ اپنے چہرے سے چادر اٹھا کر ملتی ہیں۔ہم دونوں میں جو باتیں ہوتی ہیں ان کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ہاں میں ان کو تسلی دینے آئی ہوں۔موڈ خوشگوار ہوتا ہے۔ہنستی بھی ہیں۔پھر ہماری باتوں کے دوران محسوس ہوتا ہے کہ وہ جانے لگی ہیں۔
میں کہتی ہوں ٹھیک ہے،ٹھیک ہے۔۔آپ وہاں خوش ہیں نا،
جنت میں مقام اونچا ہے نا۔۔۔۔ہنس کر کہتی ہیں ہاں ہاں۔۔پھر اپنے دونوں ہاتھ مِلنے والے انداز میں سامنے پھیلا دیتی ہیں۔ہاتھوں کے درمیان تھوڑا فاصلہ ہوتا ہے۔میں ان دونوں ہاتھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیتی ہوںاور کہتی ہوں،آپ نے اپنے میاں کے لئے دعا کرنی ہے۔
ہاں ہاں۔
میرے بچوں کے لئے بھی ،میرے لئے بھی،
(ہنستے ہوئے) ہاں ہاں
ان سے گفتگو کے دوران ان کا چہرہ بھی چادر میں رہتا ہے۔میں چادر اٹھا کے ہی بات کرتی ہوں۔
اور ہم دونوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ وہ دوسری دنیا سے آئی ہوئی ہیں۔ہمارے مل لینے کے بعد آپ لپٹی لپٹائی مبارکہ کوکندھے سے پکڑ کے پیچھے کو چل پڑتے ہیں،مجھے یہ کہہ کر کہ میں مبارکہ کو واپس چھوڑ آؤں۔
اور پھر میں نے آپ کو بہت فاصلے پہ اپنا شیونگ کِٹ اٹھاتے دیکھا۔
میں اسی جگہ کھڑی خواب میں ہی سوچ رہی ہوں کہ اب آپ نے ٹھیک ہو جانا ہے۔ان شاء اللہ۔
میری آنکھ کھلی توسامنے کلاک پہ پورے تین بج رہے تھے۔‘‘
فرحت نواز کے اس خواب کے ساتھ عجیب بات یہ ہے کہ اسی رات اور جرمن وقت کے مطابق اڑھائی بجے (پاکستان کے ساڑھے پانچ بجے صبح) میں نے خواب دیکھا کہ پرانی اور بوسیدہ سی کسی عمارت میں ایک تنگ سے کوریڈور سے میں آگے جانا چاہتا ہوںلیکن ایک بدمعاش جو نہایت تگڑاا ور لمبے قد کا ہے میر ا رستہ روکے کھڑا ہے۔وہ مجھے مارنا چاہتا ہے یا نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور میں اس سے دل ہی دل میں ڈر بھی رہا ہوں۔پھر یکایک نہ صرف وہ بدمعاش غائب ہو گیا بلکہ دیکھا کہ میں تنگ کوریڈور کی بجائے کسی عمارت کی کھلی چھت پر کھڑا ہوں۔وہیں سے ٹہلتے ہوئے میں ایک دوکان پر جاتا ہوں۔وہاں سے دو لڈو لیتا ہوں اور انہیں کھانے لگتا ہوں۔
میرا خیال ہے کہ دونوں خوابوں کی تعبیریں از خود ظاہر ہیں اور کینسر سے میری نجات اور شفایابی کی تسلی دیتی ہیں۔ہاں فرحت کے خواب میں میرے شیونگ کٹ اٹھانے سے میں نے یہ مراد لیا کہ زندگی معمول پر آجائے گی۔باقی واللہ اعلم۔(ویسے زندگی معمول پر آ تو چکی ہے)۔
بے شک اللہ تعالیٰ جب چاہے اپنے گنہگار اور کمزوربندوں کو ہر طرح سے تسلی دے دیتا ہے۔فالحمدلِلہ علیٰ ذالک۔
پہلی امیون تھراپی 6 جولائی کو ہوئی۔اس کے بعد بیماری یا دوا کا کوئی ری ایکشن سامنے نہیں آیا۔15/16 جولائی کو مجھے ہچکی لگ گئی۔جب ہچکی رُکنے میں نہیں آئی تو 19 جولائی کو پھر ایمبولینس بلا لی۔ ہسپتال میں جا کر مشکل یہ ہوئی کہ جب کوئی ڈاکٹر وزٹ پر آتا تو ہچکی بند ہو جاتی اور بعد میں پھر شروع ہو جاتی۔مختلف ٹیسٹ ہوتے رہے۔آخر ایک الٹرا ساؤنڈ کے دوران لگاتار ہچکی شروع ہو گئی۔ڈاکٹر نے اپنی رپورٹ میں اسے خاص اہمیت دی اور پھر اس کے علاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ایک گولی Baclofen تجویز کی گئی اور مفید ثابت ہوئی۔23 جولائی کو ہسپتال سے چھٹی مل گئی۔ ٹیپو مجھے لینے آیا تھا۔یہاں سے ہم گھر جانے کی بجائے بڑی بیٹی رضوانہ کے گھر چلے گئے۔ وہاں باقی بچے بھی پہنچ گئے۔رات کافی دیر کو گھر پہنچے۔اگلے دن کچھ آرام کیا اور پھر آنے والے بچوں کو وزیر آغا کی ایک نظم سنائی۔لیکن 24 جولائی سے 31 جولائی تک کا احوال بعد میں۔۔ ۔ کیونکہ وہی تو اصل روداد ہے۔
یکم اگست سے پانچ اگست تک مجھے معمول سے زیادہ پیشاب آنے لگا اورمیری تمام تر کوشش کے باوجود زیادہ تر سلوار میں ہی نکلنے لگا۔دوسری طرف قبض کی شکایت ہوگئی۔پانچ اگست کو شام تک پھر ایمبولینس بلانا پڑ گئی۔ایمبولینس والوں نے پہلے فوری چیک اپ کرنا شروع کیا ۔ اتفاق سے میرا ٹمپریچر38 سے کچھ اوپر نکلا۔عین اسی وقت مجھے عمر کے تقاضے والی کھانسی آ گئی۔ اب وہ لوگ کہنے لگے کہ باقی معاملات بھی دیکھتے ہیں لیکن پہلے کورونا ٹیسٹ ہوگا۔ یک نہ شد دو شد۔اس بار ایمبولینس مجھے باڈ زودن شہر کے ہسپتال کی بجائے ہوئیسٹ کے ہسپتال میں لے گئی۔
وہاں کورونا کے ٹیسٹ کا فوری انتظام موجود تھا۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے رات بھر میں ہی چیک کر لیاگیا اور صبح کے ناشتے سے پہلے سٹیشن 25-B کے کمرہ نمبر58 میں شفٹ کر دیا گیا۔چند دنوں کے بعد کمرہ نمبر52 میں بھیج دیا گیا۔یہاں اب میں اکیلا نہیں تھا۔ایک اور مریض بھی موجود تھا۔ان دونوں کمروں کا کچھ حال آگے چل کر ’’روحانی تجربے کے بعد تک اس کے اثرات‘‘ میں بیان کروں گا کیونکہ اس کا تعلق بھی اس خاص تجربے سے ہے۔
یہاںیہ بتا دوں کہ 17 فروری سے لے کر 19 اگست تک متعدد ٹیسٹ لیے گئے۔بعض
ٹیسٹ مختلف اوقات میں ایک سے کئی بارزیادہ لیے گئے۔ اینڈو سکوپی،کولونو سکوپی،سونو گرافی،الٹرا ساؤنڈ،سی ٹی سکین،ایم آر ٹی،ای سی جی،خون کے مختلف اور متعدد ٹیسٹ،اور نہ جانے کون کون سی گرافیاں اور سکوپیاں۔۔۔گردے کے بعدلیور میں ٹیومر ملنے سے پھر دیگر اعضا ء میں ٹیومر کی تلاش شروع کر دی گئی،اس سلسلے میں دل کے اندر کا حصہ تو ٹھیک تھا لیکن ایک چیک اپ ہوا جس میں دل اور اس کی شریانوں کے باہر کے حصہ کو بھی دیکھا گیا۔وہ حصہ بھی صاف نکلا۔اسی رات جن بھائی،بہنوں اور احباب نے اس ٹیسٹ کی بابت پوچھا میں نے ایک ہی جواب دیا۔میرا دل اندر سے بھی ٹھیک تھا اور اب باہر سے بھی ٹھیک نکلاہے۔ثابت ہوا میرا دل اندر اور باہر سے ایک جیسا ہے۔
یورین انفیکشن کے سلسلہ میں تین ٹیسٹ ہوئے۔یہ پہلے ہونے والے ٹیسٹوں سے مختلف تھے ۔ان کے نام بھی یاد نہیں۔چھ اگست سے 19 اگست تک یورین انفیکشن کا علاج ہوتا رہا۔ دیگر میڈیسنز کے علاوہ چودہ دن تک تین وقت روزانہ اینٹی بایوٹک کی ڈرپیںلگتی رہیں۔19 اگست کو طبیعت سنبھلنے پر چھٹی دے دی گئی۔چند دن کمزوری دور ہونے میں لگے اور پھر میں گھر کے اندر تھوڑا بہت چلنے پھرنے لگاپھر قریبی مارکیٹ تک جانے لگا اور اب قریبی قبرستان تک بھی آہستہ آہستہ سہی لیکن چکر لگا لیتا ہوں۔وہاں مبارکہ کی قبر پر دعا کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔
کیموتھراپی کی ٹیبلٹس تو میں خود ہی صبح شام لے لیتا ہوں۔امیون تھراپی کے لیے ہر 21 دن کے بعد جانا ہوتا ہے۔پہلی تھراپی 6 جولائی کو ہوئی،دوسری تھراپی27 جولائی کو،تیسری تھراپی
17 اگست کو ہونی تھی لیکن چونکہ میں ہسپتال میں داخل تھا اس لیے ڈاکٹر نے فون کر کے تھراپی کے لیے27 اگست کی تاریخ لے لی۔یہ تھراپی ہو گئی۔چوتھی تھراپی 17 ستمبر کو ہوئی۔اور ۔۔۔یہ تھراپیوں کی گنتی اس لیے کر رہا ہوں کہ ان کا حوالہ بھی آگے آئے گا۔ان شاء اللہ۔کینسر کا علاج اور تھراپیاں ابھی جاری ہیں۔اللہ تعالیٰ سے کامل شفا ملنے کی پوری امید ہے۔
ویسے جو اس کی مرضی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔