اوائل مارچ کی صبح بہت تازی اور میٹھی سرگوشی کرتے ستار صاحب کے آنگن میں اتری تھی--- سیمنٹ کے فرش والا صاف آنگن دھلے دھلے آسمان سے باتیں کررہا تھا
"امی میں نے رات کو ہی استری کر کے رکھا تھا ابھی نہیں مل رہا" جنت نے رائٹنگ ٹیبل کے پاس پڑی کرسی کے اوپر بے ترتیب کپڑوں کو ایک بارپھر ادھر ادھر کر کے دیکھا
"جن بھوت تو ہیں نہیں گھر میں جو مل نہیں رہا--- امی اس کی حرکتیں ہی ایسی ہیں جھوٹ بول رہی ہے کوئی استری وستری نہیں کیا تھا رات بھر موبائل میں منہ دیے بیٹھی رہی ہے" یہ ستار صاحب کی دوسری بیٹی حمنہ تھی--- باتھ روم سے منہ پونچھتی نکلی تھی--- جنت سوگوار سا چہرہ بنائے اب پرانی الماری میں سر دیے کھڑی تھی
"کوئی اور دوپٹہ لے جاؤ--- ویسے بھی انٹرویو ہے تمہارا رشتے والے تھوڑی آرہے ہیں" حمنہ نے گیلا تولیہ مناسب سائز کے بیڈ پر پھینکا
"میرے منہ لگنے کی ضرورت نہیں ہے" جنت نے ٹھک سے الماری کا دروازہ بند کر کے انگلی اٹھاتے لال بھبھوکا چہرے سے جواب دیا
"چلو نکلو اپنا گندا منہ لے کر یہاں سے" حمنہ نے نخوت سے جوابی حملہ کیا
"امی حمنہ سے کہیں دوپٹہ واپس کرے---" کمرے سے ہی بولتی وہ کچن کی طرف چل دی--- چھوٹا سا کچن پراٹھوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا--- سامنے ہی امی پراٹھے پر گھی لگاتی نظر آرہی تھیں
"حمنہ میرا بچہ چل باجی کو دوپٹہ دے دے, پیاری بیٹی نہیں ہے میری" کچن سے ہی پیار بھری پچکارنے کی آوازیں جاری ہوگئیں
"امی یہ ہمیشہ میرے نئے کپڑے پہن لیتی ہے--- میں نے ایک بار نہیں لیا وہ دوپٹہ اسے کہیں بلیک لے لے--- بلیک کلر تو ہر کسی کے ساتھ چل جاتا ہے" حمنہ منہ بسورتی کچن کے دروازے کے پاس آکر کھڑی ہوگئی
"امی " جنت نے منتی لہجے میں پکارا
"اچھا میں نیا لادوں گی اپنی بیٹی کو ابھی بہن کو دے دو شاباش" کام کرتے کرتے وہ ان کے جھگڑے بھی سلجھا رہی تھیں
"یہ لو مرو" حمنہ نے دوپٹہ لا کر اسکی طرف پھینک دیا--- رونے والی صورت بنائے کھڑی جنت دوپٹہ ملنے پر جھوم سی گئی کمرے میں آکر الماری کے دروازے پر لگے بڑے سے شیشے میں اپنا عکس دیکھنے لگی--- کاجل کی باریک سی لکیر کو موٹی موٹی آنکھوں میں سجا کر ہونٹوں پر لائٹ پنک گلوز لگایا
"ابو دیر ہورہی ہے جلدی نکلیں--- بس کا بھی نہیں پتا مجھے" صحن میں ایک طرف کچن تھا تو اس سے تھوڑے فاصلے پر باتھ روم تھا--- اس نے صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ کر سینڈل پہنتے کہا
"طارق روڈ کی طرف تو بہت سی بسیں چلتی ہیں اُس سے آگے رکشہ لے لینا" ستار صاحب قمیض پہنتے غسل خانے سے نکلے "اللہ جی رکشہ کیوں کروانا ہے؟" وہ چڑ کر بولی--- سینڈل صاف کرنے والا کپڑا شوز ریک پر رکھا
"طارق روڈ سے پیچھے ہے آفس " "اچھا نا نکلتے ہیں تو دیکھ لیتے ہیں
" ستار صاحب کنگھا اٹھا کر صحن میں لگے شیشے کے سامنے ٹہر گئے
"امی اسے دیکھ لیں سینڈل بھی میرے پہنے ہیں" حمنہ نے بےنیاز بنی کھڑی جنت کے صاف شفاف پیروں کو اپنے نئے سینڈلز میں مقید دیکھ کر منہ بسورتے کہا
"مرو مت دعا کرو اگر تنخواہ اچھی ہوئی تو دس ایسی لا کر تمہارے سر پر واروں گی"
"اتنی سخی اور جنت ستار؟؟؟ ہونہہ " حمنہ اسکی کنجوس طبیعت سے واقف تھی "ابو مجھے اسٹاپ تک چھوڑ آئیں ناشتہ آکر کرلیجیے گا" دوپٹہ سر پر جماتے اس نے صحن میں لگے آئینے میں آخری دفعہ اپنا صبیح مکھڑا دیکھا--- چہرے پر بلا کی معصومیت رقص کررہی تھی اور آنکھوں میں کاجل کی لکیر ان کی ساخت نمایاں کررہی تھی
****************
ابو بس پر بٹھا کر جا چکے تھے بلکہ کھڑا کر کے--- کنڈیکٹر نے بس کو بس نہیں مرغیوں کا ڈربہ سمجھ رکھا تھا ایک کے بعد دوسری سواری چڑھائے جارہا تھا اگر عادت نہ ہوتی تو دم گھٹنے لگتا میرا خیر عادت بھی کیسے نہ ہوتی کالج, یونیورسٹی کی تعلیم ایسے ہی بسوں میں دھکے کھا کھا کر مکمل کی ہے--- آج بس میں کھڑی میں سوچ رہی ہوں کہ آج سے ساڑھے چار سال پہلے میں اسی طرح بس میں کھڑی سوچ رہی تھی کہ میرا کالج جانے کا کیا فائدہ مر کھپ کے ڈگری لوں گی پھر شادی, شوہر کی لعن طعن, سسرال والوں کی نکتہ چینی اور ڈھیر سارے بچے اُسی دن میں نے فیصلہ کرلیا تھا اگر زندگی بنانی ہے تو کچھ بن کر دکھانا ہوگا--- یہ موٹیویشنز بھی نہ عجیب چیز ہے کئی بار بندے کو مشین بنا دیتی ہے--- میں نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ ٹیویشنز دینا شروع کیں آدھی مڈل کلاس لڑکیاں یہی کرتی ہیں میں ان سے آنے والی آمدنی چھوٹے موٹے کورسز پر لگادیتی--- گرافکس اور ڈیجیٹل مارکٹنگ میرے بیسٹ کورسز رہے تھے--- بہت سارے ایونٹس کی مارکٹنگ کرچکی ہوں--- دل تھا کہ کمپیوٹر کی فیلڈ میں ہی آگے پڑھائی کروں مگر ابو نے دکان خریدنے کیلیے قرض لے رکھا تھا میری یونیورسٹی کی ہزاروں میں فیس بھرنا تو دور کی بات وہ ہزار بھی نہیں بھر سکتے تھے--- امی نے کہا کہ بارہ بہت ہیں پارلر کا کام سیکھ لوں اتنا غصہ آیا مجھے--- میرا دل چاہا سمندر میں جا کر چھلانگ مار دوں--- میں نے امی سے خوب جھگڑا کیا کہ آپ نے ہماری خواہشات کیا پوری کرنی ہم تو اپنی ضروریات کیلیے ترس رہے ہیں--- دو دن کی ناراضگی اور بخار کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے بی اے کرنے کی اجازت مل گئی--- میں اُن دنوں ذہنی اذیت میں مبتلا تھی میرا دل چاہتا کہ میرے پاس ڈھیر سارے پیسے ہوں اتنے سارے کے میرا دل جس چیز کی اُمنگ کرے سیکنڈز میں میرے پاس آجائے حمنہ مزاق اُڑاتی ہے کہتی ہے "بل گیٹس چاہیے؟؟؟" بل گیٹس دنیا کی امیر ترین شخصیات میں شمار ہوتا ہے---- ایک عرصے تک تو وہ دنیا کا پہلا امیر ترین شخص رہا ہے--- کمپیوٹر کا دیوانہ جس نے اپنے دوست پول ایلن کے ساتھ مل کر مائیکروسافٹ کی بنیاد ڈالی--- بل گیٹس کو اسٹڈی کرنے نکلے تو آپ میری کہانی سے نکل جائیں گے کئی بار میرا دل کرتا میں بھی کمپیوٹر کی دنیا میں چلی جاؤں اتنی ہی ترقی کرلوں بلکہ اتنا ہی پیسہ کمالوں--- بل گیٹس اتنا پیسہ کہاں کرتا ہوگا کئی بار میرے دماغ میں یہ سوال ابھرتا ہے--- سنا ہے کہ انسانیت کی بھی خدمت کرتا ہے--- اب کہیں تو خرچ کرنا ہے نا اتنا پیسہ "روکیں روکیں" آپ لوگوں کو اپنی
کہانی سناتے سناتے ابھی میں نے آگے نکل جانا تھا "رووووک" کنڈیکٹر نے لوہے کا دروازہ پیٹ ڈالا "جلدی اترو باجی " ایک تو بس والوں میں صبر نام کی چیز نہیں ہے--- پاکستان کی بسیں کئی بار مجھے ہوائی جہاز لگتی ہیں مطلب کہ حد ہوگئی بندہ اب اترے بھی چلتی بس سے
***********
جنت ویٹنگ روم میں بیٹھی اپنی باری کا انتظار کررہی تھی--- اے سی ٹھنڈک اتنا مزہ دے رہی تھی کہ اسے شام تک بھی اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تو وہ بیٹھی رہتی---- گریس فل ڈریسنگ میں اپنے اپنے کام میں مصروف عملہ کمپنی کی کامیابی کا راز کھولتا محسوس ہورہا تھا
"کتنا نفیس انٹرئیر ہے"
"ہر جگہ گلاس ڈور کتنا پیسہ لگا ہوگا اس عمارت پر؟؟؟" آ جا کر اسکی سوئی پھر پیسوں پر رُک جاتی
"اس کمپنی کا مالک کتنا امیر ہوگا--- شاید بزرگ ہو مگر اسکے بیٹے بھی تو ہوں گے" بہت سارے ڈرامے اور ناولز کے سین اب اسکے سامنے چلنے لگ گئے--- اسکا نام اناؤنز ہوا تو وہ اپنی فائل سنبھالتی اندر داخل ہوگئی--- نئے سوٹ اور نئے سینڈل بھی اسے اب بیکار لگ رہے تھے--- لائٹ لیمن کلر کی قمیض اور پجامے کے ساتھ لیمن اور بلیک کنٹراسٹ دوپٹہ پھیلا کر لیا ہوا تھا--- سامنے چالیس سے اوپر کا آدمی بیٹھا تھا اسکے ساتھ بھی اسی کی عمر کا ایک شخص موجود تھا
"ہمیں تجربہ کار اسٹاف چاہیے سوری " اسکی طرف سرسری نگاہ ڈالتے انٹرویور نے فائل پھینکنے کے انداز میں اسکی طرف دھکیل دی جب کہ ساتھ بیٹھے شخص نے سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا وہ اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف تھا "Sir Actually I am----" جنت کی بات سننے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی انٹر کام پر نیکسٹ کال کرکے وہ اپنے کام میں ایسے مصروف ہوگیا جیسے جنت یہاں موجود ہی نہ ہو--- مایوس سی اپنی فائل اٹھا کر وہ آفس سے باہر نکل آئی--- روڈ پر ٹرائفک کی بھرمار تھی--- فائل کو سینے سے لگائے دھوپ میں کھڑی وہ بس کا انتظار کررہی تھی "یہی اگر کوئی ناول یا ڈرامہ ہوتا تو ہیروئن جی بھر کر کھکھلا کر غلط جواب دے رہی ہوتی اور ہیرو جو کہ باس ہوتا مزے سے دنیا کا فارغ ترین انسان بنا اسکی بکواس سن رہا ہوتا اور ایک یہاں دیکھ لو آدھا گھنٹہ ہونے کو آیا ہے دھوپ میں جل رہی ہوں مگر کوئی ہیرو صاحب نہیں آئے لفٹ دینے یہ کیا سارے ہینڈسم امیر لڑکے ڈراموں اور ناولوں میں ہی ہوتے ہیں بلکہ ڈرامے اور ناولوں میں غریب لڑکیوں کیلیے ہوتے ہیں اصل میں تو یہ اپنی ہم پلہ لڑکیوں کو ہی پسند کرتے ہیں" تلخ حقیقی زندگی کا افسانوی دنیا سے موازنہ کرتے اسکی بس آچکی تھی پھر یہ ایک دو دن کا نہیں بلکہ پورے ہفتے کا معمول رہا--- نوکری کیلیے دھکے کھانا کسے کہتے درحقیقت اسے آج پتا چلا تھا نوکری کی اجازت بھی اس نے بھوک ہڑتال کر کے ہی لی تھی امی نے کہا تھا جب تک اچھا رشتہ نہیں آجاتا کر لے--- رشتے تو بہت آتے مگر وہی خاندان کے میٹرک پاس الیکٹرانکس کی شاپ پر کام کرنے والوں کے یا پھر ویلڈنگ کرنے والے --- ہر آنے والے رشتے کے بارے میں سُن کر وہ پورا دن روتی رہتی شور مچاتی امی کو خوب سناتی کہ اس دن کیلیے پڑھ رہی تھی کہ میٹرک پاس جاہلوں کے رشتے آئیں میرے لیے ایک ہفتے بعد اس نے ایک اور بڑی کمپنی میں اپلائے کیا
"آپ کی سی وی آپ کا تجربہ مارکٹنگ میں شو کررہی ہے اور آپ چاہ رہی ہیں گرافکس کی جاب واِئے؟؟؟" سفید بڑھی شیو اور موٹے چشمے والے انکل کچھ نرم خو لگے تھے اسے ورنہ اب تک جتنے بھی انٹرویو دیے ایسا ذلیل کرتے جیسے نوکری نہیں بھیک مانگی جارہی ہو ان سے
"سر مجھے آپ مارکٹنگ کیلیے ہائیر کرلیں آئی ڈونٹ ہاوو اینی ایشو" "مطلب بس کام چاہیے؟؟؟" اسکی سی وی کو غور سے پڑھتے پوچھا
"یس سر" جنت کے دونوں ہاتھ میز پر تھے
"بہت سارے ایونٹس کی مارکٹنگ کرچکی ہیں آپ--- گُڈ " انہوں نے تعریف کی
"کسی انٹرنیشنل ایونٹ کی مارکٹنگ کی ہے ابھی تک؟؟؟"
"yah... Last two events are of international standard. I have done their social as well as digital marketing"
اسکا اعتماد بحال ہونے لگا--- ہاتھ اب میز پر سے نیچے گرالیے
"that's cool"
"اگر میں آپ سے آف لائن مارکٹنگ کی بات کروں تو آپ کے پاس کیا آپشنز ہوں گے؟؟؟" فائل بند کر کے رکھ دی اور مکمل طور پر جنت کی جانب متوجہ ہوگئے
"ٹی وی, ایس ایم ایس, بل بورڈز " جنت نے آرام آرام سے گنوائے
"اپنا اپائمنٹ لیٹر لیتے جائیے گا جنت ستار" سنجیدہ انداز میں انہوں نے کتنی بڑی خوشخبری اسے سنائی تھی وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے
"تھینک یو, تھینک یو سو مچ سر" وہ اپنی فائل لے کر کھڑی ہوگئی--- آفس سے نکلتے ہی اس نے یس کے انداز میں مکا بنا کر جھٹکا دیا--- اپنی خوشی میں مگن وہ لفٹ کے پاس آ کر کھڑی ہوگئی جیسے ہی لفٹ رکی تیزی سے اندر داخل ہونے لگی اسی وقت اندر موجود شخص باہر نکلنے لگا--- جنت کا سر جھکا ہوا اور دماغ ہواؤں میں تھا اگر لفٹ سے باہر نکلنے والا قدموں کو بریک نہ لگاتا تو وہ اس میں بج چکی ہوتی--- ہلکا سا کندھا مخالف کے سینے سے ٹکرایا تھا "سوری" غلطی اسکی تھی مگر معذرت وہ کررہا تھا جنت نے اپنا ڈھلکتا آنچل سنبھالا اور کسی بھی قسم کا تاثر دیے بغیر لفٹ میں سوار ہوگئی--- پہلا اتفاق تھا کہ لفٹ اندر سے خالی تھی لفٹ میں کوئی موجود نہ تھا اور اسے لفٹ آپریٹ کرنی نہیں آتی تھی--- جس لڑکے سے ابھی اسکا ٹکراؤ ہوا تھا اُسے دوبارہ لفٹ میں گھستے دیکھ کر اس نے شکر کا سانس لیا---
وہ اپنے مطلوبہ فلور کا بٹن پریس کر کے گھڑی دیکھنے لگا پھر جنت کی جانب دیکھا جو بلاوجہ ماتھے پر سے بال ہٹا رہی تھی
"اہمممم" معیز نے دائیں ہاتھ کا مکا سا بنا کر ہونٹوں پر رکھا--- در حقیقت اس نے جنت کو متوجہ کیا تھا
"آپ نے کون سے فلور پر جانا ہے؟؟؟" اسکے سوال پر جنت ہونق بنی کھڑی رہی--- معیز نے شانے ہلائے کہ ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟
"نیچے جانا ہے--- نیچے" جنت اسے جواب کے انتظار میں اپنی جانب دیکھتا پا کر جلدی سے بولی
"کتنا نیچے؟؟؟" جنت کو لگا وہ مسکرا رہا ہے
"گراؤنڈ فلور پر" جنت کے کہنے پر اس نے سر کو ہلکے سے جنبش دی اور
"جی" کا بٹن پریس کردیا--- لفٹ کا دروازہ کھلا تو وہ باہر نکل گیا--- جنت بھی اسکے پیچھے ہی نکلنے کو تھی جب وہ مڑا
"یہ ففتھ فلور ہے" اس نے گردن موڑ کر جنت سے کہا
"اوہ ہ" جنت واپس تیزی سے لفٹ میں گھس گئی ایک اور انکل بھی بھی سوار ہوگئے وہ لڑکا بھی واپس آگیا تھا (اللہ جی اتنی بےعزتی--- ایک لفٹ نہیں استعمال کرنی آتی تمہیں جنت بی بی کیا بنے گا تمہارا) اس نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوسا-- لفٹ پھر رُکی--- انکل باہر نکل گئے--- جنت نے ایک قدم باہر کی جانب بڑھایا جب وہ بولا
"تھرڈ فلور" جنت نے آنکھیں میچتے پیر واپس کھینچ لیا اسکی پُشت معیز کی جانب تھی وہ اسکے تاثرات سے انجان مسکرا رہا تھا--- اب کی بار لفٹ رکی تو جنت اپنی جگہ سے نہیں ہلی
"گراؤنڈ فلور ہے یہ" معیز نے لفٹ کے دروازے کے اوپر انگلی سے اشارہ کیا جہاں لال رنگ کا جی بلنک کررہا تھا--- جنت تیزی سے باہر نکلی--- پیچھے مڑ کر دیکھا وہ لفٹ کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سینے پر بازو باندھے اسی کو دیکھ رہا تھا نظریں چار ہونے پر مسکرا دیا--- جنت غڑاپ سے باہر تھی
*************
"کیسا ہوا تمہارا انٹریو" جنت کے اندر داخل ہوتے ہی حمنہ نے پیچھے سے دروازہ بند کرتے پوچھا
"شاندار, زبردست, بہت اعلٰی" جنت نے جھوم جھوم کر بتایا "سچی؟ تنخواہ کتنی ہے؟" حمنہ پرجوش انداز میں بولی "جتنی بل گیٹس کی ہے" جنت کا موڈ خراب ہوا--- دوپٹہ اتارا اور کمرے میں پہنچ کر بیڈ پر پھینکا
"بل گیٹس کو تنخواہ نہیں ملتی بھئی وہ تو خود باس ہے---- ایک سو بلین یو ایس ڈی ڈالر کل مالیت ہے اس سال کی--- چار بلین ڈالر کی زیادہ کمائی ہوئی ہے اُسکی اس سال جب کہ پچھلے سال کے حساب سے جب وہ دنیا کا دوسرا بڑا آدمی مانا جاتا تھا ایک سیکنڈ میں تقریباً تقریباً ایک سو سے زیادہ ڈالر کمالیتا تھا ایک منٹ میں تقریبا سات ہزار ڈالر" حمنہ شاید مزید بولنے کا ارادہ رکھتی تھی مگر جنت کے ٹوکنے پر رک گئی
"بس بھی کر جاؤ دماغ کھاؤ گی کیا میرا" جنت جھنجھلائی
"یہ سب تمہاری ہی کیلکولیشن ہے جو آتے جاتے تم کرتی رہتی ہو--- شکل دیکھو اپنی اور مقابلے دیکھو---ہونہہ" حمنہ نے مزاق اُڑاتے اسکے ہینڈ بیگ کو کھولنا شروع کیا
"کچھ نہیں ہے اس میں" جنت نے بیگ جھپٹ لیا
"بندہ کوئی مٹھائی ہی لے آتا ہے منہ ہی میٹھا کروا دیتا ہے" حمنہ نے ناراضگی دکھائی
"مارکٹنگ کی جاب ہے میری کوئی بل گیٹس کی طرح مائیکروسافٹ تو لانچ کر کے دنیا میں تہلکہ تو مچایا نہیں ہے جس کی خوشی میں مٹھائی بانٹتی پھروں" جنت الماری سے کپڑے نکالتی بولی
"سڑی ہی رہنا ہر وقت کبھی خوش مت ہونا لوگ نوکریوں کیلیے سال سال دھکے کھاتے پھرتے ہیں اور تمہاری تعلیم مکمل ہوتے ہی نوکری لگ گئی" جنت جو باتھ روم میں گھس رہی تھی اسکی بات پر سیخ پا ہوکر دروازے سے منہ نکالے کہنے لگی
"او ہیلو دو ہفتے جگہ جگہ مغرور, اونچی ناک والوں کو انٹرویو دیتی رہی ہوں وہ سال بھر کے دھکوں سے کم ہے کیا؟ آئی بڑی" ٹھک سے دروازہ بند کرلیا
"امی" حمنہ ساتھ والوں کے گھر سے انہیں بلانے چلی گئی
**************