وہ گاڑی میں بیٹھی ملازمہ کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔کہ اچانک اُس کی نظر سامنے پڑی توملازمہ اُسی کے ساتھ باہر آرہی تھی۔۔لاریب کو تفسیش ہوئ وہ فوراً گاڑی سے باہر آئی۔۔۔
تم اِس کے ساتھ کیوں آرہی ہو۔۔۔؟ لاریب نے پوچھا
بی بی جی وہ اِن کا پرس کھو گیا ہے اِن کو پیسوں کی ضرورت ہے تو اگر آپ کوئ ۵۰۰ یا ۱۰۰۰ کھ مدد کر دیں تو کون سا گھاٹا ہو جانا۔۔لاریب نے ایک نظر ملازمہ کو دیکھا اور پھر غصے کی نظر سے مُعیز کو۔۔تم گاڑی میں بیٹھو زرا۔۔وہ ملازمہ کو دیکھ کر بولی۔۔اور وہ خاموشی سے بیٹھ گئ۔۔۔
کیا مسلئہ ہے آپ کا۔۔۔کیوں میرے پیچھے پر گۓ ہیں یہ ملازمہ اب جو سب کو وہ وہ بتاۓ گی جس کا کوئ اندازہ نھی آپ کیوں میری زندگی کو اور مشکل بنا رہے آگے پتا نھی کتنے دنوں کی رہ گئ ہے۔۔وہ آرام سے بولی آنکھوں میں نمی خود بہ خود اُتر آئ۔۔
لاریب آپ نھی جانتی میں نے اُس دن برسات میں بھیگتے آپ کو دیکھا اور میں وہی رہ گیا۔۔پیار کرتا ہوں آپ سے روز آپ کے گھر کے سامنے ہوتا ہوں اُس دن اتفاق تھا میں آپ کے گھر کے آگے سے بس گزر رہا تھا اور نظر موتی پے پڑی اور رُک گیا۔۔۔۔ گاڑی سے باہر نکل کر آپ کو دیکھنے کا جواز دیوانہ تھا۔۔
لیکین اب روز آپ میری آنکھوں میں رہتی ہیں۔۔۔
پلیز مسٹر مجھ سے کوئ توقع نہ رکھیے گا میرا دل پتھر کا ہو چُکا ہے کیوں کہ دنیا کا ہر بندہ مجھے ہی پاگل ملتا ہے ۔۔
وہ کہہ کر بیٹھ گئ اور گاڑی رورس کرنے لگی۔۔۔
بی بی جی کتنے پیسے دیے
تمہے تو میں نسرین آنٹی کے حوالے کرتی ہوں گھر جا کر ایک عجیب سیاپہ میرے سر لادا ہوا ہے۔۔۔
ہر بات میں تمہے کیوں بتاؤ ۔۔؟ تم ایسا کیا کرو میں جب کہیں بھی آیا جایا کرو نا تم یا تو میرے گلے میں رسی ڈال دو یا اپنے تاکہ ایک دوسرے کے کنٹرول میں رہیں۔۔۔ وہ آج شائد سب سے تنگ آچکی تھی اپنےاندر کتنی پی محرومیاں قید کیےہوۓ وہ اب تھک گئ تھی۔۔واقع تھک گئ تھی۔۔۔
*******
جہاں ہاؤس اب معامول پر آچُکا تھا۔۔۔لیکین نور جہاں کا کیس سُن کر قصبے کی اب کوئ بیٹی بہن گھر سے بھی نکلتی تو پردے میں نکلتی
آریانہ کے پاس بڑی بھُری امائیں اب بھی آتی اور ایک ہی جملعہ بول کر جاتی۔۔۔بہت افسوس ہوا اللہ ہر بیٹی کی حفاظت کرے ۔۔اور اُسے بھی جنت نصیب کرے۔۔۔۔
آریانہ خاموشی سے سُنتی رہتی آج دوبارہ یارہویں تھی۔۔۔وہ دربار کی تیاری میں تھی
۔۔۔آریانہ گاڑی میں بیٹھنے لگی تو اُس کی نظر سامنے لان میں سفید چادروں پر پڑی ۔۔وہ دیکھ کر حیران ہوئ پھر وہاں رجو کو بھیج کر اطلاع منگوائ۔۔،۔۔تو پتا چلا ایک ماہ گزر چُکا ہے نور جہاں کو گۓ ہوۓ رحیم صاحب نے قرآن خانی رکھوائ ہے۔۔
دل دوبارہ بھوجھل ہوا آنکھیں آنسوؤں سے دوبارہ بھیگی۔۔۔۔آریانہ حوصلہ کر کے گاڑی میں بیٹھی ۔۔۔
اور گاڑی بھرنے لگی۔۔۔۔۔۔
***************
گھر کاگیٹ کھُلا تو انس کی فراری باہر نکلی اور لاریب نے اپنی گاڑی پیچھے کر لی۔۔۔
لاریب کے پاس چھوٹی گاڑی تھی لیکین نۓ ماڈل کی ہی تھی۔۔۔
جو اُس کے پاسآنے سے ہہلے انس کی ملکیت تھی۔۔۔
اُس نے شاہی سواری کے نکلنے کا انتظار کیااور پھراپنی گاڑی اندر کی۔۔۔
ساتھ ہی وہ اپنے کمرے میں بھاگتی ہوئ آئ
اُسے شدید اُلٹی کی کیفیت ہو رہی تھی۔۔۔
تھوڑا ریلیکس ہونے کے بعد اُس نے ملازمہ سے کھانا منگوایا اور کھا کر میڈیسن لی۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں ٹیوی دیکھتے دیکھتے ہی سو گئ۔۔۔۔
دربار میں خوب رونق تھی۔۔۔
دعا کے بعد دیگیں بانٹیں گئ۔۔۔آریانہ کی طرف سے۔۔۔تو آریانہ اُسی عورت کے پاس آئ۔۔:۔۔
بزرگوں سلام۔۔۔
پیار دیا سے پر۔۔۔
اور وہ عورت بولی۔۔۔
پکرا گیا۔۔۔جا پکرا گیا۔۔۔
اُس کے ساتھ ایسا کرو کہ داغ خود پے آۓ نا اور بدلہ برابر ہو جاۓ۔۔۔۔۔۔
آریانہ نے خوشی سے اُن کے ہاتھ چومے اور اُٹھ گئ۔۔۔
چلو رجو گھر چلو۔۔۔
وہ آنً فانً گھر پہنچی تو رحیم صاحب تو پُر سکون بیٹھے تھے۔۔قرآن خانی بھی ہو چکی تھی۔۔۔آریانہ نے ساری بات رحیم کو بتائ کی بزرگ عورت نے کیا کہا ہے۔۔۔۔وہ مسکرایا اور بولا اپنے بھائ سے پتا کرو۔۔۔
آریانہ نے فون ملایا اور خلیل نے بھی یہی کہا کہ آپا دعا کرو قتل نہ ہو جاۓ یہ میرے ہاتھو۔۔۔۔
اور فون بند۔۔۔آریانہ اب پریشان ہو رہی تھی۔۔۔
^*************
بول اب کیوں کیا تھا تو نے میری بہن کے ساتھ یہ سب۔۔تجھے کیا لگا تھا۔۔چلو ایک ماہ گزر گیا سب اُس کی موت بھول گۓ ہوں گے ۔۔چل اُس کی چھوڑ دنیا اب تیری یاد رکھے گی تیرا وہ حشر ہو گا کہ ہر عزت لوٹنے والے کو اپنی عزت کی پڑ جاۓ گی۔۔جو کہ اُس کے پاس ہو گی ہی نہی تم جیسے درندوں کے ساتھ کیا ہونا چاہیے اور کیا نھی یہ خدا جانتا ہے لیکین میں بھی کُچھ کر کے چھوڑو گا تمہارا۔۔۔۔
وہ غصے سے گرایا۔۔۔۔۔
انس نے حوش اور بد حواس سامنے کرسی سے باندھا ہوا پرا تھا۔۔۔
اُسے نور جہاں یاد آئ اُس کو بھی اُسنے ایسے ہی باندھا تھا۔۔۔
اور یوں ہی حواس گُم کیے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
انس کو پہلی بار اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ اب قید میں تھا خلیل کی ۔۔۔۔
دو ماہ تک یہ ایسے ہی رہے گا۔۔۔
میری بہن دو گھنٹے اِس سے زیادہ تکلیف میں تھی اب یہ اُس سے کئ گناہ زیادہ سزا پاۓ گا۔۔۔
منہ میں ایک نوالہ نہ ڈالنااِس کے زندہ رکھنے کے لیے اِسے پانی کے گھونٹ کو بھی ترساؤ۔۔۔۔۔
وہ لب چبا کر بولا۔۔۔۔۔۔۔
انس خوف اور تکلیف کی شدت سے ہی بے ہوش ہو گیا۔۔۔
*********
لاریب کی آنکھ تہجد کے وقت کھُلی تھی۔۔۔۔۔
اُسنے نفل ادا کیے اور خدا کے آگے اپنے درد وہ روز آنسو کی طرح بہاتی تھی اور آج بھی وہ وہی کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
آریانہ جہاں بھی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاۓ تھیں۔۔
اور ا وہ نور جہاں کے ساتھ لاریب کے لیے دعا کرتی کے اُس کی عزت سلامت رہے۔۔۔۔۔
وہ ایک انسان تھی جن میں انسانیت پائ جاتی تھی۔۔رحم دلی خوداری اور سب سے بڑی بات درد سہمے کی طاقت رکھتی تھی تو درد سمجھنے کی بھی ۔۔۔۔۔
دونوں ایک ہی وقت پر دعائیں کرتی۔۔۔اور ایک صرف روتی تو دوسری روتے روتے مانگتی۔۔۔۔
رونا ہی کافی ہوتا ہے اور رو کر مانگنا بھی۔۔وہ اپنے سامنے بیٹھا لے اور آنسو جاری کر دے تو سمجھ جانا تم اُس کے قریبی بندے ہو ورنہ یہ موقع بھی بڑوں کو نھی ملتا۔۔۔۔۔۔۔
جسے چاہے وہ عطا کرتا ہے اور جسے چاہے دے کر لے لیتا ہے۔۔یہ بھی اُس کا کرم ہے۔۔۔۔۔۔
*************
انس کی حالت بگڑی ہوئ تھی۔۔۔خلیل تہجد کے وقت گھر پہنچا تو آریانہ کے پاس آگیا وہ ہال میں ہی جائنماز بجھاۓ بیٹھی تھی۔۔۔
آگیا آپا۔۔وہ بولا
کیا کیا ہے۔؟ آریانہ بولی
یقین کرو آپا کُچھ نھی کیا۔۔۔۔
کیوں۔؟
آپا رہنے دو نا جتنی سزا اُس کی میرے ہاتھو لکھی ہے ملتی رہے گی اُسے ۔۔۔۔کیوں ہلکان ہوئیں ہم۔۔اور آپا وہ صرف نور کا نھی بلکہ بہت سی معصوموں کا قاتل ہے۔۔۔۔
آریانہ تھکے قدموں سے اُٹھی اور بولی۔۔۔
خلیل اللہ کے حوالے تو بھی اور اُس کی سزا بھی ۔۔۔۔
اور کمرے کی برف چلی گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
******^**^^*********^**********************