بھیگی رات کا وہ پہر جس میں پتا پتا پانی بہا رہا تھا۔۔۔گیلی مٹی کی خوشبو مہک رہی تھی۔۔۔
اور کیچڑ ہی کیچڑ ہر طرف تھا۔۔۔۔کچی سڑکوں پر ایک سناٹا چھایا تھا۔۔۔
ایک دم برستی بارش کے ساتھ ہی بجلی گرجی اور نور جہاں تھم گئ۔۔۔ایسے جیسے بجلی اُس پر گِری ہو ارے نھی بجلی تو گری تھی لیکین اُس پر ایسی گری کہ وہ راخ ہو گئی۔۔۔۔۔۔
************
بنگلے کا گیٹ کھُلا اور ایمبولینس اندر داخل ہوئی۔۔۔۔آریانہ جہاں کے سامنے اُس کی لاڈلی اور پھول جیسی نازک بہن تھی۔۔۔بلکہ اُس کی بہن کی لاش تھی۔۔۔۔
وہ وہیں ڈھیڑ ہو چکی تھی۔۔۔۔آنسو سے بھیگا چہرہ اُٹھا کر سامنے کھڑے اپنے بھائی کو دیکھا۔۔
خلیل و رحمان نے نظریں چُڑا لیں۔۔۔لیکین اُس کی آنکھوں میں غصہ ، وحشت اور بدلہ لینے کا جنون تھا۔۔۔
آپا جہاں مجھے اجازت دے دیں گھر کے پاس ہی تو ہے فارم میں دو گھنٹے میں ہی واپس آجاؤں گی۔۔۔۔
تب اُس کے بے پناہ اسرار اور خلیل کی بے وجہ ہی ڈھیل کی وجہ سے اُسے اپنی سہیلیوں کے سنگ فارم پر پارٹی کرنے کی اجازت دے دی گئی۔۔۔
اور وہ پھر دو گھنٹے عزیت میں گزار کر وہ دو راتوں بعد جگہ جگہ کے ہسپتالوں سے ہو کر گھر کو پہنچی جانے کتنے ہی ٹیسٹوں کی سوئیاں اور پاسمارٹم کی رپوٹیں اُس سے لی گئی ۔۔ اُس نور جہاں سے جس کو آجتک جھاڑو کا تنکہ تک نہ چُبنے دیا گیا تھا۔۔۔
**********
لاریب ۔۔۔ لاریب۔۔۔۔۔ انس پاگلوں کی طرح گھر میں داخل ہو کر اُسے آوازیں دے رہا تھا۔۔۔
جی بھائ وہ کچن سے نکلی۔۔۔
کتنی بار کہا ہے میں تمہارا بھائی نھی ہو تم میری ماں کی اولاد نھی ہو جو بھائی کہو مجھے۔۔۔
میں جا رہا ہوں دو ، تین دنوں کے لیے۔۔۔کوئی بھی میرے بارے میں پوچھنے آۓ تو کہہ دینا میں گھر ہی نئ آیا گارڈس کو میں نے سب سمجھا دیا ہے۔۔۔
وہ بولتے بولتے اپنے کمرے تک آگیا اور لاریب اُس کے پیچھے پیچھے ۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔وہ خاموشی سے پلٹ گئ۔۔۔۔۔۔
آنسو اُس کی آنکھوں سے نکل کر گالوں پر آۓ اور اُس کے سیدھے گال پر ڈمپل میں آگرے۔۔۔۔
اُس نے فوراً کمرے میں جا کر اپنی دوا لی۔۔۔
تم میری ماں کی اولاد نھی ہو۔۔۔۔یہ جملہ سُن سُن کر اور اِسی جملے کی وجہ تلاش کرنے میں اُسے جانے کتنی بار ۔۔۔ نروس بریک ڈائون ۔۔۔۔ ہوا۔۔۔اور اب اُس کے پاس آخری تین مواقعہ تھے۔۔۔کہ وہ اِس تکلیف کو اور برداشت کر سکتی۔۔۔۔۔۔
*************
حبیب خان نے اپنی پہلی شادی کے کئ سالوں بعد دوسری شادی کی جس کی وجہ نعمت اولاد تھی دوسری شادی کے چند ماہ گزرے تو نسرین بیگم جو کہ خان کی پہلی بیوی تھی اللہ نے اُنہے بھی نواز دیا اور دوسری بیوی نورین کو بھی یہ خوشی مل گئ ۔۔۔
نسرین کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام انس حبیب خان رکھا گیا۔۔۔
جبکہ نورین کے ہاں اللہ تعالیٰ نے رحمت اُتاری ۔۔۔۔
خان بیٹی کی پیدائش پر زیادہ خوش تھے۔۔۔۔
جو کہ اُن کی پہلی بیوی کو برداشت نہی تھا۔۔
لاریب کی پیدائش کے کُچھ عرصے بعد ہی نورین کو دوبارہ اولاد کی خبر ملی تو نسرین نے اپنی چالاکیوں کا استمعال کرتے ہوۓ اُس کی جان ہی لے لی۔۔۔۔
گھر کے تمام ملازمین گواہی دیتے تھے کہ نورین کی گاڑی کی بریکس نسرین نے ہی بیکار کروائی تھیں۔۔۔۔۔لیکین خان حبیب بھی اب نسرین اور انس کے ساتھ وقت گزارتے ۔۔۔
لاریب گھر میں ایک شو پیس کی طرح رکھی گئ تھی۔۔۔۔
کوئ آتا تو اُس کے سامنے لاریب کو شہزادیوں کی طرح پیش کیا جاتا کہ وہ خان ہاؤس کی اکلوتی بیٹی ہے لیکین حقیقت بھت لوگ جانتے تھے۔۔۔۔
اور وہ پاک زات بھی سب دیکھ رہی تھی لمحہ لمحہ اُس کے ساتھ تھی۔۔۔۔
***********
خلیل کہاں ہے ؟ رجو۔۔۔۔آریانہ جہاں نے رجو سے سوال کیا۔۔۔
جہاں بیگم اُپر چھت پر ہیں۔۔چارپائی پے بیٹھے ہیں اور حُقہ پی رہے ہیں ۔۔۔
اِس وقت حُقہ کیوں پی رہا۔۔وہ خود سے ہی بربرائ
اور رحیم صاحب کیا کر رہے۔۔؟ اب وہ اُنچا بولی۔۔۔
جہاں بیگم وہ بھی چھت پر ہیں لیکین حُقہ نھی پی رہے
اب کی وہ اور حیران ہوئی کیوں کہ دن دہارے صرف اُس کا میاں ہی گھر میں حُقہ پیتا تھا۔۔اور خلیل رات کے پہر۔۔۔
وہ کیوں نھی پی رہے۔۔؟ سوال کیا گیا۔۔
رجو بولی؛ وہ کہتے ہیں جب تک نور جہاں بی بی کا قاتل نھی ملتا تب تک حقہ منہ کو نہ لگائیں گے۔۔
آریانہ نے آنکھیں بند کر لی اور آنسو اُس کی آنکھوں سے گرنے لگے۔۔
آج یارہویں ہے نا،،؟ آریانہ نے سوال کیا۔۔
جی ۔۔رجو نے جواب دیا۔۔
جاؤ گاڑی تیار کرواؤ دربار میں نور کی جگہ اب ہماری حاضری لگے گی۔۔
اور دعا اُس کے قاتل کے سامنے آنے کی ہو گی۔۔اُس کی بوٹی بوٹی کنوے نوچیں ۔۔۔گے
وہ لب چُبا کر شدید غصے میں بولی۔۔۔
جی جہاں بیگم گاڑی تیار کرواتے ہیں۔۔۔۔رجو کہہ کر چلی گئ۔۔۔
آریانہ کے زہن میں اُس کی ہر یارہویں کی تیاری آگئی اور وہ وہی بیٹھ گئی۔۔۔
رحیم صاحب آپ کو کبھی اولاد کی کمی محسوس نھی ہوئ کیا۔۔۔
نھی بیگم کبھی نھی ہوئی۔۔۔
نور جہاں میری بھن بھی ہے اور بیٹی بھی ہے۔۔۔
وہ بھلے مجھے کہتی رہے کہ سالی ہوں میں آپکی لیکین میرے لیے وہ اولاد کی کمی کو پورا کر دیتی ہے۔۔۔
اُسی رات آریانہ نے اپنے شوہر سے اولاد کا سوال کیا تو اُس نے نور جہاں کو ہی اپنی اولاد کی کمی میں بھرپور پایا۔۔وہ تھی ایسی چنچل سی۔۔کہ بیٹی اور بہن دونوں کا پیار سب سے لیتی۔۔
آریانہ اب اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئ تھی۔۔۔
میری بھی تو جان تھی وہ۔۔ہمت تھی میری اماں ابا میرے حوالے کر گۓ تھے اُسے اور اب وہ میرے سے دور۔۔۔۔وہ اور کُچھ نہ کہہ سکی اور منہ چھُپا کر رونے لگی۔۔۔
رجو اندر داخل ہوئ ۔۔۔جہاں بیگم گاڑی تیار ہے۔۔۔
اُس نے سر اُٹھایا آنسو سے بھیگا چہرہ لیے وہ دربار کو چل دی۔۔۔۔
کن من سی برسات تھی ننے ننے موتیوں کی صورت میں پانی بادلوں سے گِر رہا تھا۔۔۔وہ دربار پہنچی تو دعا مانگ کر پیچھے ہٹی دھاگا لیا اور تھوڑا اُنچا بولی وہ راخ ہو خاک ہو اور ہم تماشا ضرور دیکھیں۔۔۔رجو بھی ساتھ میں بولی آمین ۔۔آریانہ بولی سُم آمین۔۔
بیگم جہاں وہ بی بی نور جہاں جب بھی دربار آتی اُن سے ضرور ملتی تھی۔۔۔رجو نے ایک کونے میں بیٹھی بزرگ عورت کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
آریانہ نم آنکھوں سے اُس کی طرف چلدی۔۔
ہاس جا کر بیٹھی سلام لیا اور بولی۔۔بزرگو۔۔نور جہاں کی آپا آریانہ جہاں۔۔۔۔
وہ عورت بولی ۔۔مت بتا مجھے تو کون اور کون نھی ۔۔لگ گیا مجھے پتا تیری آنکھوں سے ۔۔
خوف زدہ نھی ہیں نہ مایوس ہیں ۔۔نور کی طرح چمکتی ہیں پانی سے ۔۔
آریانہ نے لب بھنچ لیے اور آنسو روکے۔۔
بزرگو نور مر گئ ہے بلکہ ماری گئ ہے۔۔
تو کیا ہوا ۔۔۔ مرنا تو سب کو ہے ماری گئ ہے تو بھی مری ہی ہے نا
بزرگو وحشی درندے نے اُس کی عزت لوٹی اور اُس کا گلا دُبایا ۔۔
ششششش خاموش جانتی ہوں میں۔۔
اب سے تو حاضری دینے آۓ اور اگر میرے
پاس آۓ تو خاموش رہنا ۔۔۔وہ عورت اُس کے چہرے کو دیکھ کر بولی ۔۔آریانہ ہاتھ سے ہاتھ ملا کر اُٹھ گئ اُس عورت نے اُس کو پیار دیا اور دوبارہ جھُک کر بیٹھ گئ۔۔۔۔
********
انس کو ایک ہفتہ ہونے کو تھا کوئ اتا پتا نھی تھا۔۔۔
لاریب گھر میں ہی رہتی تھے۔۔گھر ہی پڑھانے ایک ٹیچر آجاتی اور یوں وہ بی اے کے امتحانات کی تیاری کر رہی تھی۔۔۔
پرائیویٹ ہی سہی اُس کو اجازت تو تھی نا کہ وہ پڑھ لے۔۔۔
شام کو وہ پڑھائ سے فارق ہوئ تو موسم نے سہی اُس کا دل مچلایا۔۔اور وہ چھت پر بھاگ گئ۔۔۔
بارش ۔۔۔ ایک پرانے قصبے کے ساتھ ہی چھوٹا سا شہر تھا۔۔جہاں حبیب خان کا مکان مقیم تھا۔۔۔اور اُس چھوٹے قصبے میں۔ آریانہ جہاں ۔۔۔کے والد کا گھر مقیم تھا۔۔۔
خلیل اکثر ہی اِسی شہر میں رہتا تھا۔۔۔کام کے سلسلے تھے۔۔۔۔۔۔
وہ بارش میں خوب کھیلتی تھی۔۔۔
ایک ملازمہ اُسکے پیچھے ہی رہتی تھی۔۔۔۔نسرین بیگم جاسوسی پوری کرواتی تھی ۔۔۔ خود تو ہر مہینے خان صاحب کے ساتھ کبھی کہی تو کبھی کہی ہوتی تھی۔۔۔
وہ بارش میں خوب مزے کر رہی تھی۔۔۔
پانی پاؤں سے اُچھالتی ہاتھوں میں بھڑ کر پانی چہرے پر پھینکتی وہ چنچل اور شرارتئ لگ رہی تھی لیکین وہ بلکل ایسی نھی تھی۔۔۔
وہ ہر حال میں اپنے آپ کو خوش ہی رکھتی تھی۔۔۔وہ بارش سے بھرپور طریقے سے مزے لے رپی تھی۔۔اچانک اُس کی نظر نیچے گئ تو گاڑی کے ساتھ ٹیک لگاۓ کوئ بگور اُسے دیکھ رہا تھا بلکہ جائزہ بھی لے رہا تھا۔۔وہ فوراً پیچھے ہٹی اور نیچے چل دی۔۔۔
************************************