امتحانات کے اختتام پر جو ایک ماہ کی چھٹیاں ملی تھیں ، ان میں عادل نے ایک بار پھر گھر کا رُخ کیا
اس بار پھپھو بھی ساتھ ہی ائیں تھیں اور سب گھر والوں کو ایک ساتھ بٹھا کر مریم اور عادل کا باقائدہ رشتہ طے کرنا چاہتی تھیں
"میرے بھائی میں تمھارہ بیٹی کو اپنے گھر کی رونق بنانے میں ذرا دیر نہی کرنا چاہتی
پر ہاں میں جانتی ہوں مریم کو ہڑھنے کا بےحد شوق ہے اس سبب فلحال میں اسے آپ کے پاس ہی رہنے دینا چاہتی ہوں
اپکا اس بارے میں کیا خیال ہے؟"
انھوں نے سب کو سامنے بٹھا کر بات کا اغاز کیا
"جی باجی یہی مناسب رہے گا اور پھر اپ ہی کی بیٹی ہے
جب چاہیں رخصتی کرکے لے جایئے گا"
امی اور بھائی نے بھی فیصلے کے حق میں سر ہلایا
بات ختم ہوئی تو مریم پیر پٹختی ہوئی کمرے سے نکل آئی
عادل نے اس منظر کو دیکھا تو محسوس کیا کہ اس رات کئے گئے سوال کا یہی جواب ہے
مگر افسوس اب وقت ہاتھوں سے نکل چکا تھا
پھپھو اور عادل کے چلے جانے کہ بعد مریم سیدھا امی کے کمرے میں جا پہنچی
"امی آپ جو کر رہی ہیں مجھے یقین ہے اپکے لئیے بھی اور میرے لیئے بھی نقصان کا باعث بننے والا ہے
میری درخواست ہے کہ عزتوں کو پامال ہونے سے بچا لیں اور رشتے سے انکار ظاہر کر دیں"
مریم نے سخت لہجے میں کہا
"انکار کے سارے فیصلے تمھارے بابا جانی کے ہاتھ میں ہیں ، ہو سکے تو انسے جا کر یہ بات کہ دو
پر اتنا ضرور یاد رکھنا کہ جو مان اور فخر انہیں تم پر ہے۔۔۔۔کہیں اس قدر گھٹیا بات سن کر وہ غیرت کے نام پر اپنا ہی قتل نہ کر بیٹھیں"
"چلو اب جاو سید صاحب ٹی وی دیکھ رہے ہیں ،موقع اچھا ہے جا کر بات کر بات کر لو۔
بابا جانی سے بات کرنا تو دور کی بات
امی کی باتوں کو سوچ سوچ کر مریم پریشان ہوتی رہی
اگر امی کی کہی گئی بات سچ ہو گئی؟
نہی مریم تمہیں ہمت کرنی ہی ہوگی ، مت سوچو کچھ بھی اور جاکر انکار کر آو
کچھ ہمت پکڑ کر بابا سے بات کرنے لاونج میں جا پنچی مگر اسکی زبان بھی صرف امی کے سامنے ہی چلتی تھی
ابو کے آگے تو جیسے زبان کو تالا ہی لگ گیا ہو
جیسے گئی تھی ویسے ہی واپس کمرے میں آگی
***** """'"''' ****""""**" **** """" ****
باتوں کا سلسلہ جاری ہی رھا
پہلے پہل الجھنوں میں گھِری رہی کہ کیسے انکار کرے
پھر رفتہ رفتہ نبھانے کی ٹھان لی
نباہ کی کوششوں میں اسکی اپنی ذات جانے کہاں کھوتی جا رہی تھی
ایک دن اسی طرح کالج سے آئی تو ایک کال موصول ہوئی
"ہیلو؟"
"السلام علیکم کیسی ہو؟ِآگئی کالج سے؟"
دوسری جانب عادل ہی تھا
کال ریسیو ہوتے ہی پوچھ گچھ شروع کر دی
"جی آگئی ہوں، کیا ہوا؟"
اسنے پوچھنا چاھا
"ابھی تک تو کچھ نہی ہوا ،اگے بھی کچھ نہ ہو خیال رکھنا"
انکا لہجہ کافی طنزیہ تھا اور ساتھ بد اخلاقی کا مظاہرہ بھی کیا جا رہا تھا
"کیا مطلب ہے؟ یہ کس طرح کی بات کر رہے ہیں اپ مجھ سے؟"
آپ کی اطلاع کے لئیے بتاتی چلوں کہ اپکا ابھی تک مجھ پر کوئی حق نہی ہے"
مریم نے بھی اکڑ کر کہا
"حق نہی ہے تو وہ بھی ہو جائے گا، تاریخ تو طے ہے جناب!
بہرحال بات یہ ہے کہ تم ایک دیندار لڑکی دکھائی دیتی ہو۔۔۔اور دیندار لڑکیاں سر ڈھانپے بغیر رکشوں میں اکیلے نہیں گھوما کرتیں ،
ماموں جان سے بات کرو کہ تمہیں کالج خود چھوڑ کر آیا کریں"
انھوں نے سخت لہجے میں بات کی تو حیران ہی رہ گئی کہ یہ کیا ہو رھا ہے؟
اک حافظ قران اور ساری زندگی مدرسے میں پڑھنے والا آدمی اپنی بیوی میں جو باتیں دیکھنا چاھتا تھا وہی توجیہات عادل کی بھی تھیں
مگر مریم جو اس طرح کی روک ٹوک کی کبھی عادی نہ رہی تھی اور محظ بابا کی انا کی خاطر یہ رشتہ نبھانے کو تیار تھی ایک بار پھر سوچ میں پڑ گئی
پریشانی کے ان پیچیدہ حالات میں کچھ اور نہ سوجا تو اپنا دھیان موبائل میں لگا لیا
کبھی اس دوست کو فون تو کبھی اُسکو
مگر اب بات کچھ الگ تھی
طویل لڑائی جھگڑوں اور الجھنوں کے اس دور میں جب مریم کی زبان کڑواہٹ بھرا لہجہ اپنا چکی تھی
تبھی اچانک امی نے اسکے رویے اور لہجے میں تبدیلی محسوس کی
****** """""""" ******* """"""""" *****
" مجھے خوشی کے پل میسر کرنے والی ذات محض تمھاری ہے، ورنہ خدا نے میرے لیئے جیسے پریشانیاں ہی لکھ رکھی ہیں"
کچھ دیر کی خامشی ہوئی یقینناً دوسری جانب کا جواب سننے کے لیئے وہ خاموش ہوئی تھی
کوئی جواب نہ ایا تو کہنے لگی
"میری کیا خطا تھی؟ صرف اتنی کہ اپنی زندگی اپنے اصولوں پر جینا چاہتی ہوں ؟
کیا میں انسان نہی جسکا دل باقی انسانوں کی طرح دھڑکتا ہے ، جو خواب بُنتا ہے؟"
امی دروازے کے پیچھے کھڑی یہ سب سن رہی تھیں
مگر اس وقت یہی خیال ایا کہ کوئی دوست ہی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شائد
**** """"''" ****""""**** """""" ******
"ارے بیگم پڑوس میں نئے لوگ آئے ہیں ۔۔۔۔دیکھنے سے تو اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر ذرا دھیان رکھنا"
بابا رات دفتر سے ائے تو کہنے لگے
جی اچھا ، میں دیکھ لوں گی آپ ابھی تو کھانا کھایئے"
امی نے کہا اور کچن کا رُخ کیا
ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ پڑوس کی آنٹی ہاتھ میں پلیٹ تھامے تشریف لے آیئں
السلام علیکم ! جی کہیے؟
امی نے دروازہ کھولتے ہی آنے کی بابت دریافت کرنا چاہی
"وعلیکم السلام ، اپکے برابر والے گھر میں چند روز پہلے ہی منتقل ہوئے ہیں
عزت خلوص سے ملتی ہے لہذا میں عزت اور خلوص سے پکایا ہوا زردہ آپکے گھر لےدینے ائی ہوں, امید ہے بدلے میں بھی عزت ملے گی"
آنٹی بھی باکمال نکلیں ،اپنی میٹھی باتوں سے امی کو تو وہ جند لمحوں میں ہی لبھا گئی تھیں
"اپکو بھی دعوت ہے جب بھی مناسب سمجھے اپنی بیٹی کے ساتھ تشریف لے آئے گا
سنا ہے بہت با اخلاق اور اچھی بچی ہے
اتفاق سے میری بھی ایک ھی بیٹی ہے اور اس پہ یہ مزید اتفاق کہ دونوں کی عمریں بھی تقریباً ایک ہی ہیں"
بات ختم ہوئی اور پڑوسن دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے چلی گئی
امی نے رات کو بابا سے ذکر کیا تو انھوں نے بھی نئے انے والوں کی شرافت کے بول الاپے اور مریم کو امی کے ساتھ جانے کا مشورہ بھی دیا
مریم آج بہت دیر ہو گئی ہے لگتا ہے سب نے کھانا کھا لیا ،چلو اب تم مجھے کھانا پروس دو بڑی بھوک لگی ہے
بھائی گھر آیا تو تاخیر کے سبب گھر والوں کے ساتھ کھانا نہ کھا سکا تھا۔۔۔لہذا مریم سے کھانا لگانے کو کہا
" بھائی ابھی تو میں بیٹھی ہوں سکون سے ،تھوڑا اور لیٹ آجاتے میں ذرا دیر اور سکون سے بیٹھی رہتی"
اسنے پہے سے لیٹ آئے بھائی کو اور لیٹ آنے کا مشورہ دیا
پھر مجبوراً اٹھ کر کھانا پروسنے لگی
*****" """""""" *****"" '"""""" ******
وقت پانی بن کر بہتا رہا اور اپنے رنگ دکھاتا رہا
بابا کے علاوہ امی اور اب بھائی کے ساتھ بھی اسکا رویہ بد سے بدتر ہوتا جا رھا تھا
اور المیہ یہ تھا کہ وجہ کی کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی
امی نے سوچا کہ شائد تنہا رہتے رہتے خود سے ہی الجھ پڑی ہے تو یاد کے گوشے میں یہ اواز گونجی
"اتفاق سے میری ایک ہی بیٹی ہے اور مزید اتفاق یہ کہ دونوں کی عمریں بھی ایک ہی ہیں"
امی کو رستہ سوجھا تھا مریم کو تیار کر کے پڑوس کی سیر کرانے نکل پڑیں
بات چیت کا آغاز حال احوال پوچھنے سے شروع ہوا اور پھر یشفہ کے گھر کے چکر بڑھتے ہی چلے گئے
***** """"""" ******* """""""""" ******
"بابا جانی مریم کی دوستی یشفہ سے کافی اچھی ہو گئ ہے
اپکو پتا ہے اسکے پاس ہر وہ چیز ہے جس کی اسے خواہش ہو ، وہ ہر چیز میرے ساتھ بانٹ لیتی ہے۔ھم مل کر خوب مستی کرتے ہیں"
مریم نے خوشی خوشی بابا کو اپنی نئی دوست کے بارے میں بتایا
"اچھا جناب جبھی میری بیٹی اتنی خوش نظر آرہی ہے، مریم خوش رہو۔
مگر اک بات یاد رکھنا ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی
اپنے صرف اپنے ہوتے ہیں ، باہر والے کبھی اپنے نہیں ہو سکتے چاھے انھیں کتنا ہی سونے سے نہلا لو۔۔۔اور اپنوں پر مٹی بھی اچھالو گی تب بھی وہ تمسے مخلص ہی رہیں گے"
انھوں نے اسے یشفہ کی نیک نامی پر چوکنا رہنے کا مشورہ دیا
اس شام جب مریم یشفہ کہ گھر گئی تو اسنے لیپ ٹاپ کھول کر سامنے رکھ لیا
اور دونوں اپس میں ان باتوں کا ذکر کرنے لگیںُُ جو یشفہ کیلئے تو خدا جانے مگر مریم کیلئے نقصان کا باعث ثابت ہونے والی تھیں
***** """""""" ******** """"""""" ****
تو مریم بتاو نا سارا دن کیا کرتی رہتی ہو؟ اکیلے بور ہو جاتی ہوگی
یشفہ نے اپنے انداز میں اس سے باتیں اگلوانا شروع کیں
"بور تو ہو جاتی ہوں ،لیکن امی کے ساتھ گھر کے کام کروا دیتی ہوں یا پڑھائی کر لیتی ہوں
جو ٹائم بچتا ہے اس میں دوستوں کو کال ملا لیتی ہوں"
مریم نے سیدھا سا جواب دیا
"بس؟اتنی پھیکی زندگی ہے تمھاری؟کیا تمھارے دوست نہی؟"
یشفہ نے اسے ترچھی نظروں سے گھورا
"دوست ہیں نا ، کالج میں ہم چار لڑکیاں۔۔۔۔"
مریم کی بات ابھی جاری ہی تھی کہ یشفہ نے بات کاٹتے ہوئے کہا
ارے نہی ،میرا مطلب ہے لڑکے دوست
اب دیکھو نا اجکل کوئی بھی اتنا شریف تو ہے نہیں کہ دوست نہ بنائے
کچھ لڑکیوں کے کھلے دوست ہوتے ہیں اور کچھ کے چھپے بھی ہو سکتے ہیں نا
اب بتا بھی دو"
یشفہ نے اسکی چھپی باتوں کو ظاہر کرنے پر اسرار کیا اور یوں ظاہر کیا جیسے چھپے دوست ہونا تو عام سی بات ہے
"ہاں میرے دوست ہیں، لیکن میں انسے زیادہ بات چیت نہیں رکھتی
میرا رشتہ میری مرضی کے بغیر میرے بھائی جیسے کزن سے طے کر دیا گیا ہے۔۔۔لہذا مجھے محتاط رہنے کی ضرورت ہے"
مریم نے اپنی روداد سنائی تو یشفہ نے اپنا شیطانی دماغ چلا کر اسے اپنی باتوں میں الجھانا چاہا
"اوہ میرے خدا، اتنا ظلم سہتی ہو تم؟
تم میری دوست ہو اور میرے پاس ہر چیز موجود ہےتم جب چاہو میرے گھر اکر یہ سب استعمال کر سکتی ہو
دوست بنانا کوئی بری بات تھوڑی ہے۔۔۔دوست ہی تو ہیں جو انسان کا برا وقت بانٹ کر اچھا وقت لوٹا دیتے ہیں"
مریم اب اسکی باتوں میں آکر رہی سہی کسر بھی پوری کرنے پر تلی ہوئی تھی
بہت مایوسی رہی امی کو اسکی حرکتوں پر
اور جب تک اس بات کا اندازہ ہوا کہ روش کی تیزی یشفہہے کے گھر سے پکڑی گئی ہے
بہت دیر ہو چکی تھی
مریم اپنے ناتواں پروں سے جو اڑان اُڑ رہی تھی اسے اندازہ نہ تھا کہ وہ پر بہت جلد بھاری وزن کے سبب ٹوٹ جانے والے ہیں
اور بظاہر آسمان کی اڑان اسے اوندھے منہ زمین پر گرانے والی ہے