آخر فیصلہ مریم کے حق میں ہی ہونا تھا ، ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ مریم کے دماغ میں آنے والے خیال کسی دوسرے کے خوف سے اپنا راستہ بدل لیں
فیسبک کھولی اور ایسا مگن ہوئی کہ پتا ہی نہ چلا کب پیچھے امی آکھڑی ہویئں
"کہا تھا نہ کہ جن پیروں کو رستے میں تھک کر رُکنے کی عادت ہو جائے وہ منزل تک نہیں پہنچتے ، لو تم پھر سے تھک گئی؟"
امی کی بات سن کر اسکے چہرے پر شرمندگی تو تھی ہی مگر اب اس میں کچھ کہنے کی ہمت بھی نہ رہی
"بولو مریم؟"
"امی ایسا بھی کیا ہوا ، سب ہی تو استعمال کرتے ہیں"
مریم نے بات کا جواب دینا چاھا
"ٹھیک ہے مریم! وقت آچلا ہے کہ تمھارے پیروں کو مکمل آرام دیا جائے۔ اور تمھیں چلتی ہوئی کسی گاڑی میں بٹھایا جائے
جس کے چلانے والے اور روکنے والے دونوں ہی ہم ہونگے"
"یہ طریقہ صحیح نہیں ، زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگ ہی اکثر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں"
مریم کے خیال سے ہٹتا ہوا واقعہ رونما ہوتا تو اس کے اندر کا شیطان بولنے پر اتر آتا۔۔۔آج بھی اس کی زبان چل پڑی تھی
"تم بھاگنے کی کوشش جاری رکھو ،اور میں گاڑی کے بریک ذرا پکے کروا آؤں"
مریم بھول رہی تھی کہ اگر وہ شیطان کی زبان رکھتی ہے تو امی بھی آدم کی اولادوں میں سے ہیں
دن، سحر اور رات یونہی گزرتے رہے ۔۔۔امی کا واضح الفاظ میں بابا یا بھائی کو مریم کے بدلتے تیور اور انکی وجوہات سے اگاہ کرنا اتنا آسان نہیں تھا
نتیجے کتنے سنگین ہو سکتے تھے اسکا اندازہ انھہں تھا
مریم کی ضِد اور پھر اس پر پشیمان بھی نہ ہونا اب جیسے معمول بنتا جا رھا تھا
اور فلحال امی کو کچھ سمجھ نہیں آرھا تھا سوائے اسکے کہ دعا کرتیں اپنی بیٹی کے پھر سے راہ راست پر آنے کی
******* """""""" ******* """""" ******
"سنئے سید صاحب! محترمہ گھر کے کاموں سے اب دوری اختیار کرنے لگی ہیں ،کیا ممکن ہے کہ اپ کچھ دنوں کیلئے اس چھوٹے سے کھلونے کو اپنے ساتھ دفتر لے جایا کریں؟"
امی نے ڈھکے چھپے الفاظ میں رات کے کھانے کے بعد بابا جانی سے کہا
"کہیں آپ کو یہ ڈر تو لاحق نہیں کہ محترمہ گھر کے کام کاج نہ بھول جایئں؟"
ابو نے الٹا سوال کر ڈالا
"نہیں سید صاحب! بات کام بھول جانے کی نہیں ، کام کو نظر انداز کرنے کی ہے"
بابا نے امی کی بات مانتے ہوئے ڈیوائس اپنے ساتھ دفتر لے جانے کا فیصلہ کیا
دوسری صبح بابا جانی نے ناشتے کی میز پر مریم سے گفتگو چھیڑی
"آج کل دفتر میں internet کی رفتار میں کمی واقع ہو رہی ہے ، لگتا ھے بوس اب تنخواہ کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ دینے میں بھی کنجوسی دکھایئں گے"
"اچھا ایسا بھی ہوتا ھے؟ K_2 کی چوٹی جتنے لمبے گھنے افس ہوں مگر نیٹ کی رفتار کچھوے جیسی؟"
مریم نے حیرانی سے سوال کیا
"ہوتا ہے، چلتا ہے ، دنیا ہے"
بابا نے مختصر جواب دیا اور مریم کو حیران ہی رہنے دیا
"تو پھر اجازت ہے کچھ دن پہلے جو تحفہ تمہیں دیا تھا وہ لے جایا کروں آفس اپنے سنگ؟"
"بابا جانی اپ انٹرنیٹ ڈیوائس کی بات کر رہے ہیں؟"
مریم جو اب تک سکون سے بیٹھی تھی یک دم بے چینی سے پوچھنے لگی
"جی یقینناً اسی کی بات کر رہا ہوں ۔ پر کیا میں تمھاری حیرانی کی وجہ جان سکتا ہوں؟"
بابا بھی چونک کر کہنے لگے
"نہیں بابا میں بس یہی سوچ کر پریشان ہوں کہ اب سارا دن کیا کروں گی"
مریم نے اترے ہوئے چہرے کے ساتھ جواب دیا
"جو پہلے کرتی تھی میری بیٹی! امی کا ہاتھ بٹانا ، تھوڑے بھت گھر کے کام کاج کرتی رہنا
اور اپنی امی کے بال بھی بنانا"
ایک دو دن تو کسی طرح گزار لئے مگر جب اندازہ ہوا کہ یہ دفتر کی نا اہلی نہیں بلکہ امی کی کوئی نئی ترکیب ہے تو مریم کی چڑچڑاہٹ بڑھتی چلی گئی
آئے دن کی بحث اور امی سے اکھڑہ ہوا رویہ اس حد تک بڑھ گیا کہ اب امی گھنٹوں بیٹھ اس کی حرکتوں کا اللہ جی سے گلہ کرتیں
****** """""""" """""""" ******** """" ***
"امی اپ چاھتی کیا ہیں مجھ سے ؟ کیوں نہیں جینے دیتیں مجھکو میری پسند کی زندگی؟"
ایک دن یونہی بیٹھیں امی اپنا دل ٹی وی سے بھلا رہی تھیں کہ مریم اچانک چلانا شروع ہو گئی
"مزاج یکدم نہی بدلتے بیٹا ، رویے کے بدلنے کے پیچھے کئی پُراسرار کھانیاں ہوتی ہیں۔۔۔انسان ان کہانیوں سے اتنا خوف کھانے لگتا ہے کہ پھر رویے اپنے آپ ہی بدل جاتے ہیں"
امی نے اسکی بات کا سادہ مگر گہرا جواب دیا تھا
"ٹھیک ہے امی آپ اب جنگ پر اتر آئی ہیں یہ بھی سوچے بغیر کے اگلا بندہ اپکی اپنی اولاد ھی ہےتو پھر میں بھی اب پیچھے نہیں ہٹوں گی"
مریم کس کی زبان بولنے لگی تھی، وہ خود بھی انجان تھی
****** """""" ******* """""""""" *******
"مریم تمھارے ارادے تمہیں لے نہ ڈوبیں"
"ہو سکے تو یہیں تھم جاؤ مریم"
مریم کا ضمیر اب ہر وقت اسے روکتا ، ملامت کرتا ، مگر وہ ضمیر کی اواز کو نظرانداز کر دیتی
"ارادے نیک ہوں یا بد ، جب میری ماں ہی میری خوشیوں کے پیچھے پڑی ہے تو میں کیوں اپنے حق سے پیچھے رہوں "
"یہ تم نہی ہو مریم ۔مجھے افسوس ہے یہ تمھاری زبان نیہں ہے"
اک ضمیر ہی تو تھا جو زندہ تھا ورنہ اخلاق کے تو وہ سارے تقاضے بھول چکی تھی
***** """"" ******* """""" *** """" **
اگلی صبح ابو کے دفتر جانے کے بعد پھپھو گھر تشریف لے آیئں
"السلام علیکم پھوپھو کیسی ہیں آپ؟"
"میں تو ٹھیک ہوں یہ بتاو میری بیٹی کیسی ہے ؟"
پھپھو نے پیار بھرے لہجے میں پوچھا
"میں ٹھیک ہوں"
"اچھا آپ یہ بتایئں کس کے ساتھ آئی ہیں؟
عادل بھائی آئے ہیں یا عدنان بھائی؟"
تمھارے عادل بھائی کے ساتھ آئی ہوں میں، جاؤ دیکھو تو کہاں رہ گیا ہے اندر نہیں آیا ابھی تک"
ابھی بھائی بھی گھر پر ہی تھا
اسے دروازے سے ہی یہ کہ کر واپس بھیج دیا کہ تم جاکر پھپھو کو پانی پلاؤ ،میں عادل کو لے کر آتا ہوں
"کیا میں جاتی ہوئی اچھی نہی لگ رہی؟، اچھا جاتی ہوں واپس"
مریم منھ بناتی واپس آئی ۔ عادل بھائی جنہیں وہ اپنا اچھا دوست سمجھتی تھی ، چاھتی تھی کہ وہی سب دے پہلے انسے ملے
مگر بھائی نے اسے روک دیا تھا
اندر پینچی تو دیکھا کہ امی اور پھپھو ادھر ادھر کی کچھ ضروری اور کچھ غیر ضروری باتوں میں مصروف تھیں
"پھپھو کن باتوں میں لگ گئی ھیں اپ ، یہ بتایئں کہ چائے بناؤں یا صبح صبح ناشتے کی میز سجاوں آپکے لئے؟"
"ارے نہیں تم بس یہاں میرے پاس ہی بیٹھو ۔اتنی دور سے صرف تمھارے لئے ہی تو آئی ہوں میں"
پھپھو کی اس بات پر مریم ایک لمحے کیلئے کچھ گھبرا گئی
وہ ایک سخت شخصیت کی حامل عورت تھیں جو مریم سے پیار بھی کرتی تھیں مگر ڈانٹتی بھی بھت تھیں ، مگر اج تو انکے ہر لفظ سے شہد ٹپک رہا تھا
"کیا بات ہے پھپھو آج تو آپ کے لہجے میں بہت مٹھاس ہے ،کہیں آج آپکی سالگرہ تو نہیں؟"
"کیوں سالگرہ کے دن کوئی انوکھی بات ہوتی ہے؟ بات تو کچھ اور ہی ہے میری جان"
ابھی پھپھو جانی کی بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ امی نے انکی بات کاٹتے ہوئے کہا
"مریم کیا انھیں باتوں میں لگایا ہوا ہے؟ جاو جا کے چائے بناؤ پھوپھو اور عادل کے لئے، اور ہاں بھائی سے کہو وقت کا دھیان رکھے کہیں دیر نہ ہو جائے دفتر سے"
"اف امی ابھی میں بات کر رہی تھی ۔اپ تو چاہتی ہی نہیں کہ میں سکون سے بیٹھوں"
مریم منہ بسورتی ہوئی کمرے سے نکل گئی
****** """""""" ******** """"""""" *****
شام ہوئی تو امی جان اور پھپھو ارام کی غرض سے کمرے میں جا کر لیٹ گئیں
عادل بھائی جو کہ آج آفس سے چھٹی لے کر آئے تھے ، مریم کو اکیلا دیکھ کر اسکے ساتھ ٹی وی دیکھنے بیٹھ گئے
قران حافظ، پانچ وقت کے نمازی ، سب سے محبت کرنے والے، انتہائی سادہ اور نرم دل عادل بھائی مریم کے favourite تھے
ہنسی مذاق ہوتا رہا اور پھر عادل نے اس سے رابطہ کرنے کا کوئی طریقہ طلب کرنا چاھا
"مریم یہ بتاو موبائل لینے کا کوئی ارادہ ہے کہ نہیں؟ "
"موڈ مت خراب کریں عادل بھائی بس"
مریم نے چِڑ کر کہا
"کیوں کیا ہوا؟"
انھوں نے مزید تفصیلات معلوم کرنا چاہیں
"ایسا لگتا ہے جیسے یہ ساتویں اسمان پر پہنچنے کی کہانی ہو ، اتنا اسان نہیں ہے وہاں پہنچنا"
مریم نے جواب دیا
"ہاہا، ارے لیکن کیوں؟"
"میں کیا جانوں ؟بس امی ہیں نا میری آجکل دشمن سے کم نہیں ہے ،انٹرنیٹ ڈیوائس بابا جانی نے تحفے میں دی تھی
بس ذرا سی ایف بی کیا استعمال کر لی ،امی نے انسے شکائت ہی لگا دی
اور تب سے وہ بابا کے پاس ہی ہے"
مریم نے ہمیشہ کی طرح اپنی دکھ بھری داستان عادل بھائی کو سنائی
"ہاہاہا، بس اتنی سی بات
دیکھو وہ تمھارے بڑے ھیں نا ، تمہارا برا نہیں چاہ سکتے۔۔۔۔کچھ دن یونہی چلنے دو اور ہاں نماز اور قران کبھی نہ چھوڑو ،پھر دیکھنا ایک وقت آئے گا اللہ تمہیں ہر چیز عطا کر دے گا"
"اور ہاں بھئی ذرا اپنی فیسبک کا نام مجھے بھی تو بتاو؟
جب موقع ملا کرے گا ایک آدھ پیغام ہی بھیج دیا کرنا"
"ٹھیک ہے میں اپکو میسج کر دوں گی"
****** """"""" ******* """""""" ******
"اتنی جلدی جا رہی ہیں پھپھو؟"
مریم نے پھپھو کو چادر اوڑھتے دیکھا تو کہنے لگی
"ہاں مریم اب تم آنا ھمارے گھر اور وہ بھی پوری تیاری کے ساتھ "
***** """""" ***** """"" **** """ ****
اگلی صبح معمول کے مطابق رہی۔۔۔۔اور اج مریم نے بابا سے ضِد کر کے یو ایس بی گھر پر ہی رکوا لی
آج ہی اسے موقعہ ملا تھا عادل بھائی سے بات کرنے کا
عادل بھائی مریم کے بھائی نُما دوست تھے ،جن سے وہ اپنی زندگی کی ہر چھوٹی بڑی بات شئیر کرتی تھی
عادل بھائی کا سب سے بڑا ہتھیار انکا حُسن اخلاق تھا
"مریم اج پھر تم نے بابا سے یہ کھلونہ لے لیا ہے۔۔اور مجھے افسوس ھے کہ آج مجھے بھی تمہارے ساتھ اپنی آنکھوں کو زحمت دینی ہوگی"
امی نے مریم کو computer کی تاروں سے الجھتے دیکھا تو کہنے لگیں
"معاف کیجئے امی جان ، میں کچھ سمجھی نہیں "
"ہاں سمجھ کی تو تم کچی ہو ،چلو کوئی بات نہیں میں تمھارے لئے عملی مظاہرہ پیش کرتی ہوں"
امی یہ کہتے ہوئے پیچھے بستر پر بیٹھ گئیں اور اپنی نظریں اس ڈبے نما مشین کی جانب کر دیں
"اوہ تو یہ ہے اپکا منصوبہ ،معافی چاھتی ہوں میں اس کیلئے تیار نہیں تھی"
مریم نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کھا
"یہ چڑتا ہوا انداز مجھے بھاتا بہت ہے مریم!
ویسے بھی اس بات سے اگاہ کرتی چلوں کہ تمہیں نوازے ہوئے پنکھ کی اڑان دھیمی کرنے کا وقت آن چلا ہے "
امی نے ڈھکے چھپے لفظوں میں اس بے عقل لڑکی سے جو بات کہی تھی وہ سمجھی نہیں تھہی اور خاموشی سے اپنی کاروائی کرتی رہی
حال اب یہ تھا کہ امی کے سامنے بھی وہ ایف بی ایسے کھولے بیٹھی تھی جیسے اسکی کالج کی کوئی کتاب ھو
***** """"""" ******* """"""""""" *******