دن بھی کسی چیل کے پر لگائے اُڑ گئے۔۔
امتحانات کا سلسلہ بھی جاری تھا،ہر امتحان سے پہلے وہ پانچ منٹ انسووں کی نظر کرتی تھی
اور اس وقت کو یاد کرتی جب خضر اسکے ساتھ ہوتا تھا تو یہ پانچ منٹ اسکے ساتھ ہی گزارتا تھا۔۔۔۔
لاکھ دعایئں اور پھر یہ کہ کر خدا حفظ کہ دینا کہ
"شکن چہرے پر نہ آنے دینا،کہی رک بھی جاو تو یہ یاد کرلینا کہ کوئی تمہاری خوشی کیلئے دعا کرتے نہیں تھکتا۔۔۔۔اور تم ہو کہ پریشانی دل سے لگائے بیٹھی ہو۔
پھر نظر اٹھا کر ٹیچر کو دیکھنا،گر وہ تمہیں دیکھ کر حیران ہو کہ تم نقل کے لیئے موقع ڈھونڈ رہی ہو تو اسے مسکرا کر کہنا
خضر نے مریم کو نقل کرنا نہی سکھایا۔۔۔۔یہ رکھیں اپنا پیپر، مریم تو چلی۔۔"
وہ یہ باتیں ہر پرچے سے پہلے یاد کرکے ہنستے ہنستے رو دیتی تو کبھی روتے روتے ہنس دیتی تھی۔۔۔
اور اگلے پورے گھنٹے وہ یہ سوچ کر پیپر دیا کرتی تھی جیسے جاکر خضر کو بتائے گی کہ
اٹک گئی تھی پھر ٹیچر کو دیکھا ، مسکرائی اور کہا نقل کرنا تو اسنے مجھے سکھایا ہی نہی۔۔۔۔۔اور آدھا بھرا اور آدھا کورا پیپر وہ ٹیچر کے حوالے کر آئی ہے۔۔۔
****** """""""" *****" """"""" *********
خضر کو گئے اب دو سال ہو چکے تھے،امتحانات بھی ختم ہو چکے تھے اور باقی کے مسائل بھی اللہ اللہ کر کے نمٹ چکے تھے۔۔۔
اب صرف ایک ہی مسیلہ درپیش تھا،وہ تھی مریم کی شادی۔۔
امی اس روز ہاتھ میں لفافہ لیئے مریم کے کمرے میں داخل ہویئں،اسے خالی دیواروں کو تکتے دیکھا تو وہی بیٹھ گیئں
"کب تک ان دیواروں میں عکس ڈھونڈو گی؟
یہ تو محض اینٹیں ہیں۔۔۔۔ان میں محبوب کبھی دکھا نہی کرتے،اور جو محبوب دیواروں میں نظر آیئں وہ محبوب نہی فقط پتھر ہوتے ہوا کرتے ہیں"
جواب نہ ملنے پر پھر کہا
"مجھے تو وعدے کا بھرم رکھنا ہے۔۔۔ورنہ دو ہاتھ لگا کر حساب برابر کر لیتی
اب بتاو مجھے کس بات کی منتظر ہو؟۔۔"
امی بات سن کر انکی طرف منہ موڑا اور فرمانے لگی
"انتظار میرا ہے ،بھلا اپکو کیوں بتاوں؟اور رہی بات دیوار کی تو امی، محبوب سامنے ہو تو کوئی سمت دکھایی نہی دیتی پر اگر وہ سامنے نہ ہو تو ہر طرف بس وہ ہی نظر آتا ہے
پھر وہ چاہے دیوار ہو یا آیئنے میں کھڑا اپنا عکس۔۔۔!
"مجھے چھوڑیں یہ بتایئں لفافے میں کسے قید کرلیا اپنے؟"
"محبوب ہی ہوگا ، ہر سمت وہی جو دکھائی دیتا ہے"امی نے چِڑ کے کہا،اور لفافہ اسکے بستر پر رکھ کر اٹھ کھڑی ہویئں
مریم جان گئی تھہ کہ انکا اشارہ کس طرف تھا۔۔۔وہ کمرے کے دروازے تک پہنچی تو یہ کہ کر روک لیا کہ
" جب محبوب ہی ہے تو مجھے کیا اعتراض؟وقتِ نکاح کی اطلاع دیکر ایک لال سا جوڑا بھی بنوا لایئں
کہ مریم بےتاب ہے محبوب سے ملنے کو۔۔"
بنا دیکھے ہی اپنی زندگی کا ایک بڑا فیصلہ سنا دیا تھا۔۔۔۔ساکن اور خاموش وجود لئے امی کمرے سے رخصت ہو گئیں
کہ کہیں اب کی بار ارادہ ہی نہ بدل دے،رضامندی دکھائی ہے تو پھر دیر نہ کیجئے۔۔۔
سید ہونے کا فائدہ سمجھ لیں یا نقصان کہہ لیں
کہ یہاں لڑکا لڑکی کا شادی سے پہلے ایک دوسرے کے سامنے آنا ،ملنا جلنا یا فون پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔
ایک بار نکاح سے انکاری کے بعد رشتے ملنا بھی قسمت کی بات ہوتی ہے۔۔ اور مریم کی قسمت تو خضر کے جانے کے بعد ہی کھلی تھی
لہذا کھلے ہوئے قسمت کے بکسے سے یہ لڑکا بھی نکل آیا تھا جس سے شادی کیلئے مریم تیار ہو گئی تھی
**** """"""" ******** """"""""" ********
ملاقاتیں دونوں طرف سے ہویئں مگر انکی طرف سے ملاقات کے وقت لڑکا گھر ہی رھا کرتا۔۔۔اور سید صاحب کی طرف سے ملاقات کے وقت مریم گھر پر رہا کرتی تھی
یوں دونوں خاندانوں کی مرضی سے رشتہ طے پایا،اس روز گھر آنے والے سسرالیوں نے اسکا بھی منہ میٹھا کرایا۔
جسکے منہ میں زبان تو تھی مگر لفظوں سے ایک دم خالی۔۔۔
انکے چلے جانے کے بعد مریم نے امی سے کہا
"تو بات آخر طے پائی؟چلیں اب اپنا بھی دل ہلکا کر لیں کہ آپکی محبت کے کانٹوں سے زخمی بیٹی کو بھی کوئی اپنے گھر لے جا رھا ہے"
"ویسے میں کیا کہتی ہوں۔۔۔۔۔مرنے والے کی آخری خواہش تو پوچھی جاتی ہے ،کیا اپ نہی پوچھیں گی؟"
" اول تو یہ کان کھول کر سن لو کہ بیٹی بوجھ نہئ ہوتی۔۔۔۔بوجھ صرف زمانے کی نظروں کا ہوتا ہے،جو چبھتی ہوئی یوں گزرتی ہیں جیسے بیٹی کا رزق انکے گھر سے ہی ہو کر نکلتا ہو،"
اور دوم یہ کہ ہم تمہیں زندہ ہونے کو رخصت کر رہے ہیں ،مرنے کو نہی
تو پھر تم یہ زندہ ہونے کی پہلی خواہش کرلو ،مرنے کی خواہش وقتِ نزاح پر سوچیں گے"
امی نے اسے سمجھاتے ہوئے اپنے ہی انداز میں کہا
"چلیں مان لیتے ہیں بیٹی بوجھ نہی ہوتی ۔۔۔مگر یہ جو دوسرا مصرا تھا اپکی بات کا اسکا جواب یہ ہے کہ ہر سانس لینے والا زندہ نہی ہوتا اور ہر دم توڑ جانے والا مردہ نہئ کہلاتا۔۔۔
میں سانس لیتی ہوں ،وہا بھی لیتی رہوں گی
یہاں بولتی ہوں ،وہاں بھی بولوں گی۔۔۔مگر زندگی؟ ہاہا !۔۔وہ تو کوئی اپنے ساتھ ہی لے گیا تھا
اففف۔۔۔آپ بھی نہ پتا نہی کن باتوں میں الجھا دیتی ہیں۔۔۔۔یہ سب چھوڑیں اور خواہش سنیں
نکاح کے دوسرے روز ہی رخصتی ہوگی،پرائی ہو جانے کے بعد اک روز بھی یہاں رہنا مجھے راس نہ آئے گا۔۔۔۔۔جانتی ہیں نا؟دیواروں میں محبوب والی کہانی؟"
مریم نے اپنی خواہش سامنے رکھی تو پہلے تو حیرت سے اسے تکنے لگیں پھر کہنے لکیں
"کوئی انسے بھی تو پوچھ لے جنکے ہاں تمہیں جانے کی اتنی جلدی ہے، کہیں یہ نہ ہو تم سامان اٹھائے چلتی بنو اور وہ دروازہ کھولنے سے پہلے پوچھیں کہ "کون ہے؟ "
لہذا انہیں بتانا پڑے گا کہ آنے والا کوئی اجنبی نہی تم ہی ہو۔۔۔اور رہی بات دیوار والے محبوب کی تو بیٹا رخصتی کے بعد واپس نہ آنا۔۔۔۔محبوب پھر دکھائی دے گیا تو مجھے وہم ہو رھا ہے کہیں تم نکاح سے بھی چھٹی نہ مانگ لو۔۔"
امی نے دوسرے خاندان سے اجازت لینے کا وقت مانگا اور اس کی خواہش کو لئے بابا جانی کے پاس آگیئں،
ساری گفتگو کا خلاصہ دیا اور ہونے والے سسرالیوں سے طلب کرنے کو کہا۔۔
قسمت کی دھانی جو ہو چکی تھی مریم
۔۔۔ لہذا وہاں سے جواب آیا کہ انہیں منظور ہے۔۔۔
نکاح کی تاریخ طے کرنے محظ تین افراد ہی آئے تھے،جن میں لڑکے کی ماں ،باپ اور دادی شامل تھیں
چھوٹا تو وہ لڑکا ہی ٹھہرا جسے آج نکاح کی تاریخ طے کرنے پر آنے کی اجازت تھی ۔۔۔۔۔۔مگر وہ آج بھی نہ آیا تھا۔۔
اللہ کے فضل سے کچھ بس دو ہفتوں کے فاصلے سے نکاح کا تنبو گاڑھ دیا گیا تھا۔۔۔۔اب بس انتظار ہی باقی تھا
****** "'""""""" ****"*""""**** """"""" *****
دل سنبھلا تو خدا کے سوا کوئی یاد نہ آیا، زبان سے ہاں تو کر دی تھی مگر دل تو وہیں کسی گلی کے نکڑ پر اٹکا ہوا تھا۔۔۔بستر کا کونا پکڑ کر وہ لیٹ گئی ،یہی سوچتی رہی کہ کیا میرا نصیب یہی تھا؟
بس اتنی ہی کہانی تھی میرے عشق کی؟
اتنی بےبس ہے یہ لڑکی؟ کہ سب کچھ حاصل کر لینے کے بعد بھی شائد دل کا خالی پن سہنا ہی اسکا مقدر تھا۔۔۔
سارے سوال خود سے کر لینے کے بعد آہ بھری اور کہنے لگی
"جو ہوا سو ہوا، اپنے بچوں کو عشق کی اجازت دوں گی۔۔۔۔۔۔پر پہلے ہی سمجھا دوں گی کہ عشق کا گمان بھی ہو تو کم از کم اسکے گھر والوں کا پتا ہی لے لینا،
اگر وہ نخرے دکھائے تو عشق کو گولی مار کر رستے سے ہی لوٹ آنا۔۔۔۔۔۔اور سمجھ جانا کہ ملنا نصیب میں نہی ہے۔۔!!"
پاس ہی رکھا ہوا ریڈیو آن کیا، زخمی دل کو مکیش کے سُر چاہیئے تھے۔۔۔یا شائد دل کے ارمان انسووں میں بہ گئے والی غزل۔۔
"محبت اب نہی ہوگی ،کچھ دن بعد میں ہوگی۔۔۔"
منیر نیازی صاحب کی یہ غزل کانوں میں پڑی تو اپنے حال پر رو پڑی،!!
کہ اتنے میں امی نے آواز دے کر بلا لیا، وہ یہی دو جملے گنگناتی ان کے پاس چلی آئی۔۔
"مریم ذرا یہاں آنا۔۔۔، جوڑا لال ہو یا لال سے کچھ کم بھی چلے گا؟"
جوڑوں کی اواز سنی تو بھاگی بھاگی گئی کہ لال کے سوا کچھ بھی نہ چلے گا۔۔۔۔
چلتا ہوا ریڈیو چھوڑ کر باہر نکلی تو جوڑوں کی لالی پر ہی اٹک کر رہ گئی۔۔۔
محبوب نہی ہوا تو کیا ہوا؟ شادی تو ایک ہی بار ہونی ہے نا۔۔
ابھی باتوں ہی میں مصروف تھی کہ امی نے شرارا اس پر ڈال دیا،کان میں دوسری اواز پڑی تو ہل کر رہ گئی
"۔۔۔۔ہونے کے ساتھ ساتھ آپ، ایک اچھے سُر کے مالک بھی ہیں،تو پھر پروگرام کا اختتام آج آپ ہی کیجئے ۔۔۔"
"ہاہا۔۔۔عشق زادہ ہوں ، اتنا تو میرا حق بنتا ہے۔۔۔۔ (کراچی کا موسم ہے بہت ہی اعلی ،بہت ہی رومینٹک۔۔۔۔ ڈونٹ مس اِٹ،
enjoy with your loved ones...
خدا حافظ۔۔۔")
آواز جانی پہچانی تھی۔۔۔۔سن کر الٹے پاوں بھاگنا چاہا،مگر جو بھاری شرارہ اس پر ڈالا ہوا تھا اسکے باعث ہل بھی نہ سکی۔۔۔
جان چھڑا کر بھاگی تو پروگرام ختم ہو چکا تھا اور اب فقط ایک ہی گانا چلتا سنائے دے رہا تھا۔۔۔۔
(ہاں اسکی آواز بھی جانی پہچانی تھی۔۔۔دل کے تاروں میں جنبش ہوئی تو چاہا کہ پتا کرلے کہیں خضر ہی تو نہیں تھا ؟مگر پھر یہ سوچ کر چپ رہی کہ اب کی بار نکاح سے انکار کیا تو امی گھر سے ہی بےدخل کر دیں گی۔۔۔)
دل پر پہاڑ جتنا پتھر رکھا اور اپنی محبت کی قربانی دیتے ہوئے ایک بار پھر نکاح کا جوڑا پسند کرنے چلی گئی۔۔
"امی جس بیچارے کی قسمت پھوٹنے والی ہے،اسکی اپنی تو کوئی فرمائش نہیں نہ؟"
وہ رنگ پسند کرتے ہوئے بولی۔۔
" نجانے کیسے سادہ سے لوگ ہیں کسی بات سے کوئی مطلب ہی نہی انکا۔۔۔۔جو لڑکی چاہے وہی انکی پسند ہوگی
ہاں بس ایک گزارش تھی انکی ،کہ نکاح کی تقریب سادگی سے ہو!!
اور تمہاری اطلاع کیلئے عرض ہے پھوٹی قسمت والے کا نام شیخ حباش بتایا جاتا ہے۔
اسے یوں نہ مخاطب کرو کہیں دل پہ لے گیا تو انکار ہی نہ کردے"
امی نے کہا
"اوہ، اچھا۔۔۔
لیکن یہ کیسا نام ہوا؟حباش۔۔۔
لگتا ہے کسی جنگل کا شہری ہو۔۔! وہ کہتے ہیں نا ٹارزن۔۔"
وہ اسکے بعد اسکا مذاق ہی اڑاتی رہی۔۔۔۔
کچھ دیر بعد امی نے پوچھا
"جو لفافہ تمہیں دیا تھا اس پر بھی تو لکھا تھا نہ اسکا نام اور باقی کا اتا پتا بھی۔۔۔،
لگتا ہے اب تک انجان تھیں تم اسکے نام سے؟"
" ہاں انجان ہی اچھی تھی،اب تو نام سن کر مجھے جنگل کا منظر نظر آرہا ہے۔۔"
شائد اسے ابھی بھی کوئی دلچسپی نہی تھی کہ اپنے ہونے والے جیون ساتھی کہ بارے میں کھ جانتی یا ایک بار دیکھ ہی لیتی اسے۔۔
نکاح کا وقت قریب تھا، رات ہوئی تو اللہ کہ حضور بیٹھ گئی۔۔
وہ آخری بار آج دعاوں میں خضر کا ساتھ۔۔ ورنہ آج کے بعد کبھی نہ اسے یاد آنے کی دعایئں لئے سجدے میں بیٹھی رہی۔۔
" دیکھا اللہ جی ! آپ کی محبت میں اپنی محبت قربان کر رہی ہوں میں۔۔۔
اپ سے دعاہئں تو بہت تڑپ کر کی تھیں ،مگر مجھے یقین ہے کہ اگر پوری نہ ہو سکیں تو بھی بھلائی میری ہی تھی
مجھے قبول ہے اپکا ہر فیصلہ، میں آپکی رضا میں راضی ہوں
آپ بھی مجھ سے راضی ہو جاییں۔۔۔"
"آسان تو نہی ہے مگر اسکے باوجود میں یہ وعدہ کرتی ہوں کہ محرم کے سوا کسی کو سوچنے کا حق بھی مجھ کو نہیں۔۔،تو آج کی رات کے بعد اسکی سوچ بھی مجھ پر حرام ہے۔۔۔
مجھے حوصلہ دینا،کہ اسکے بغیر زندگی کا ہر قدم یوں گزاروں جیسے وہ کبھی میری زندگی میں تھا ہی نہیں
اور آخر میں شکر ادا کرنا بھی بنتا ہے کہ اس ریڈیو کی وجہ سے مجھے اسکی آواز بھی سنادی آپنے۔۔۔۔اتنا ہی کافی ہے میرے خدا !!
میرے سکونِ دل کیلئے یہی کافی ہے۔۔"
وہ اس رات کے ہر سیکنڈ میں روئی کہ اسکے بعد سے انسووں کی قلت ہو جائے گی
اسکی یاد میں اتنا تڑپی کہ اسکے بعد کوئی تڑپ باقی نہ رہے،۔۔۔۔کہ اگلی صبح سے اسکا نصیب کوئی اور ہے۔۔۔