"مریم ؟ آنکھیں کھولو۔۔۔۔کچھ کہو مجھ سے ،پچھلے وقتوں کے ایک دوست کی طرح۔۔"
عادل اسکے سرہانے اسکا ہاتھ پکڑے بیٹھا تھا
وہ سوجھی آنکھوں سے بےسدھ اسی حال میں پڑی تھی، عادل کی اواز سن کر آنکھیں کھولی۔۔۔آنسو ایک بار پھر صبر کا دامن چھوڑ چکے تھے
"مریم۔۔۔مجھے بتاو تو کچھ ؟ کیوں رو رہی ہو اس طرح ؟ میں سنوں گا تمہیں۔۔۔۔۔جانتا ہوں مینے بدسلوکی کی، تمہیں خود سے بدزن کیا
شائد پابندیوں کے بوجھ تلے تمہیں دبا دیا،مگر میں آج ہر بات کی معافی مانگتا ہوں
جو بات ہو بےدھڑک کہ دو۔۔۔۔۔۔تمہیں واسطہ اس سبب کا جو تمہیں رونے پر مجبور کر رہا ہے"
عادل کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا مگر اب یقینناً دیر ہو چکی تھی
مریم کو جس محبت کی ضرورت تھی وہ عادل اسے نہ دے سکا تھا اور یہی آج مریم کے اس حال کا سبب بنا،
انکا درد انکی آنکھوں سے جھلک رہا تھا۔۔۔لیکن اب وقت بہت طویل مسافت طے کئیے گزر چکا تھا !
"وہ اب نھی آئے گا کبھی۔۔۔۔"
مریم نیم بیہوشی میں بھی بس روتی جا رہی تھی اور یہی لفظ تھے اسکی زبان پر۔۔
"وہ کون تھا مریم؟ مجھے بتاو میں اسے لے کر آوں گا ،مگر خدارا رو مت"
عادل بھائی نے سب سن کر ایک لمحے گہری لمبی سانس لی اور کہا
"مریم اسکے بنا ادھوری ہے،وہ ایک روح ہے
اک احساس ایک امید۔۔۔۔شکل و صورت کی حدود سے میلوں دور کہیں
میرے وجود کا حصہ۔۔۔مجھے بکھرا ہوا پاکر سمیٹنے والا،میری ذات کی اندیکھی سی اک داستان
میری داستال، میری محبت، میری محبت کی داستان۔۔۔۔مجھے اسکے پاس لے جایئں عادل بھائی، مریم سے جو بےلوث محبت ہے اپکو اسکی قسم
مجھے معاف کردیں ،مجھسے گناہ ہوا۔۔۔گناہ محبت کا ،گناہ نامحرمی کا، گناہ عشق کا۔۔۔!
وہ نیم بےہوشی میں بھی اس طرح بات کر رہی تھی جیسے پورے حوش میں ہو
اسے کچھ نہ یاد تھا سوائے اسکے کہ خضر اب لوٹ کر نہیں آئے گا
عادل بھائہ کس دل سے اسکی یہ باتیں سن رہے تھے،یہ انہی کا ظرف تھا یا شائد اپنی غلطی کی تلافی وہ اسی طرح سے کر سکتے تھے
اور اب جب انہی کی محبت کی قسم مل گئی تھی تو باقی سب بیکار تھا
"عشق ہوتا نہیں ،اترتا ہے
غارِ دل پر کسی وحی کی طرح !"
وہ اسے اسکے گناہ کی معافی دیتے ہوئے باہر آگئے
"ممانی میں قسم کا بوجھ اٹھاتا آیا ہوں، خدا نے مجھے ازالے کا ایک موقع دیا ہے
مجھ سے سوال نہ کیجئے گا۔۔۔۔اسکا خیال رکھئے گا۔۔۔بےحد
کبھی میری ضرورت پڑے تو اسے کہئے گا اسکا ایک دوست ہمیشہ اسکی خدمت میں حاضر ہے۔۔۔مجھے امید ہے وہ جلد ہی پورے حوش میں اجائے گی"
عادل مڑ کر جانے لگا تو بچی ہوئی کچھ اہم باتیں یاد آیئں ،واپس پلٹا۔۔۔ اور کہنے لگا
"ارے ہاں ممانی ایک بات اور، ایک قسم میں اٹھا کر لایا ہوں۔۔۔۔ایک قسم میں اپکو دیتا ہوں،اسے جواب دینے کو ہرگز نہ کہیئے گا، مجھے خدشہ ہے اگر اب کے بستر پر گری تو اٹھ نہ سکے گی۔۔"
بات ختم کی اور قدموں کی رفتار تیز کردی، یقینناً اب پلٹ کر آنے والے قدم ایک سے نہیں رہیں گے
بابا اور مریم کا حال فلحال ایک سا معلوم ہوتا تھا، بس فرق اتنا تھا کہ مریم کمرے میں موجود بستر پر پڑی تھی اور بابا جانی باہر کمرے کی دیوار کے سہارے بےسدھ بیٹھے تھے
امی انکے برابر میں یوں بیٹھی تھی جیسے انہیں علم ہو کہ سب کچھ بہتر ہونے والا ہے
بابا سے مخطب ہو کر بولی
"یہ غم آخر کیوں سید صاحب؟ بیٹی بس بےحوش ہے۔۔۔۔خداناخواستہ ابھی بھاگی نہیں ہے
چلیں اچھا ہوا مولوی کو نکاح ایک ہی کا پڑھانا پڑھے گا، آخر بیٹا بھی ہمارا اپنا ہے،پرائی اولاد ہوتی تو بات اور تھی"
شائد وہ بابا کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔۔
بھائی مسلسل مریم کے سرہانے بیٹھا تھا۔۔۔
خاموش اور سوالیہ چہرہ چیخ چیخ کر کہ رہا تھا
"مریم کس بوجھ تلے دبی ہو، آخر بتایا تو ہوتا۔
نکاح سے ڈر کر بھاگ رہی تھی تو کہ دیتی مجھسے۔۔۔تھکا ہارا جب بریانی لینے جا سکتا ہوں تو کیا مجھ سے یہ امید نہ رکھ سکتی تھی کہ تھکا ہارا سہی مگر امی بابا سے تمہارے لیئے لڑ سکوں گا۔۔۔۔؟"
حالانکہ دیکھنے والوں کے لئے حالت اتنی درد ناک نہ تھی کہ اتنی درد بھری باتیں ہوتی
پر جنکے اپنے اسپتال کی چار دیواری میں پڑے ہوں ،انکے لئے یہی کافی ہوتا ہے
اک رات وہیں اسپتال میں گزاری اور پھر مریم کو چھٹی دے دی گئی،وہ اب پہلے سے بہتر تھی
آنکھوں کی سوجن کم تھی مگر نیند کا عالم ویسا ہی تھاجیسے جنگ لڑ کر آنے کے بعد کوئی سکون سے تکیئے پر اپنا سر رکھتا ہو۔۔
جب آنکھ کھلتی تو یوں لگتا کسی دریا کا بند ہٹا دیا ہو،نہ کہ سکتی تھی کسی سے کہ کیا گزری ۔۔۔۔نہ چھپا سکتی تھی کہ ضبط اب اور باقی نہ تھا
حوش بحال ہوئے تو بابا جانی نے بھی دریافت کیا۔۔۔
"مانا کہ تم بیٹی کی ماں ہو مگر میں بھی کچھ حیثیت رکھتا ہوں، دن بھر ساتھ رہنے والی لڑکی یوں اچانک تو نہی گرتی۔۔۔عیبوں کی خبر تو رہتی ہی ہوگی
پھر کیا تم ذمےدار نہ تھی کہ مجھے بھی کچھ خبر دیتی؟"
بابا کی شکائت سنی تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر منہ انکی طرف کر کے کھڑی ہو گیئں
"سید صاحب ذرا ذہن پر بوجھ ڈالئے ،میں نے بارہا یہ لفظ نہ کہے؟ جناب عالی ذہن پر ذرا بوجھ ڈالئے؟"
"چلو مان لیا بیگم۔۔۔۔مگر اب بتاو بدھ بھی آدھا گزرنے کو ہے،بھلا نکاح کے لوازمات میں ایک سپوت کا کھانا رکھنا ہے یا دونوں سپوتوں کا"
بابا نے تصدیق کرنا چاہی
"دیکھیں جناب ! دونوں لاڈلوں کا کھانا رکھ کر اپنا ہی نقصان کریں گے۔۔آپکی بہن تو اب مہمانوں کی فہرست میں شامل ہو کر آیئں گی، اور آیئں گی بھی یا نہی ؟ ہمیں تو اس بات کا بھی یقین نہیں ہے۔۔۔لہذا بچت سکیم آزمانے میں ہی بھلائی ہے"
امی نے پھر بابا کو یقین دلایا کہ مریم کے نکاح کی بات اب بےتکی سی ہے
امی کی بات پوری ہوئی تو آواز دے کر بھائی کو بھی کمرے میں بلا لیا، بیٹھنے کو کہا اور پھر خاص مسئلے پر بات چیت دوبارہ شروع ہو گئی
"المیہ یہ ہے کہ لوگوں کہ منہ کو نئی باتیں مل گئی ہیں ، پرسوں نکاح کی تقریب میں بیٹی کو جب دلہن کے جوڑے میں نہ دیکھیں گے تو سو کی جگہ ہزار باتیں ہوں گی
مگر ہمیں ثابت قدم رہ کر انہئں نظرانداز کرنا ہے
کوئی پھر بھی اگر کان میں کہ دے یا کونے میں لے جاکر کھسر پھسر کرے تو کہ دینا کہ ذاتی معاملہ ہے ،ہم عوامی نہی بنانا چاہتے۔۔۔
خوش رہنا ہے اور کھانا بھی پیٹ بھر کہ کھانا ہے۔۔۔۔۔باقی کے انتظامات اور احکامات اب آپکے حوالے۔۔۔"
امی نے دونوں کو پرسوں کیلئے تیار کیا اور meeting اختتام پذیر ہوئی
******* """"""""" ****** """""""" ******
دیکھتے ہی دیکھتے منصوبے کے مطابق تقریب بھی مکمل ہو گئی، پھپھو کا بلاوا تو تھا مگر جس بےدلی اور اُکھڑے پن سے وہ شامل ہوئی تھیں ،امی کو صاف دکھائی دیا تھا
عادل بھائی بھی شاملِ حال رہے۔۔۔کوئی پوچھتا تو کہ دیتے کہ میرا دل کسی محبوبہ کے جال میں پھنس گیا۔۔۔۔
اور یہی بات جب امی اور بابا سے دریافت ہوتی تو کہ دیتے کہ یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے،عوامی نہ بنایئں
اور یوں عادل کی بےلوث محبت کا بھی امتحان طے پایا اور عزتوں کی مٹی ہوئی لکیر بھی مسمار ہونے سے بچا لی
تقریب کے بعد جب انکھوں کی سوجن پوری طرح سے ختم ہوئی تو امی کو بلا کر کہنے لگی
"ذرا بیٹھ جایئں ،سر کو تکیہ سخت لگتا ہے۔۔۔۔گود شائد نرم لگے"
وہ اس حسرت سے ماں کی گود کی طالب تھی جیسے چور چوری کے بعد معافی کا طلبگار ہو۔۔۔
امی سرہانے بیٹھیں تو جھٹ سے گود میں لیٹ گئی۔۔۔۔۔پھر جو دریا بہایا تو روکے بنا ہی سو گئی، اسکی چیختی ہوئی اواز ، امی سے لڑتی ہوئی، طنزو طانے۔۔۔۔۔ہنسی مذاق سب کھو گئے
نہ کوئی لفظ باقی تھا نہ کوئی شکوہ۔۔
بس آنسو ہی تھے جو بن بولے دل کا حال سناتے رہتے۔۔۔
****** """"""" ***"*** """"""""" ******
طبیعت سنبھل چکی تو ہفتہ بیت گیا تھا۔۔۔
اس ایک چھوٹے سے فسادی موبائل کو اٹھایا تو لکھی ہوئی تمام پرانی باتیں پڑھنے لگی
جو دریا اب تھمنے کو تھا ایک بار پھر سے بہ نکلا۔۔۔۔
باتوں ہی باتوں میں ایک بات ایسی نکلی جسے پڑھ کر آنسو فوراً پونچھ دیئے
"جو مجھ سے سیکھا ،اسے سکھاتی رہنا
رونے والا کمزور ہوتا ہے،
پر جو رو دے،اس سے طاقتور کوئی نہیں
ہنسنے والا مضباط ہوتا ہے۔۔۔
پر جو مسکراتا ہو اس سے مضبوط تر کوئی نہی
سیکھنے والا باشعور ہوتا ہے،
پر جو سکھاتا ہو اس سے عقل مند کوئی نہی
محبت پا لینا کامیابی ہے،
پر جو محبت کو اسی کی خاطر چھوڑ جائے
اس سے بڑا کامیاب اور کوئی نہیں۔۔
خضر کی یہ بات جو پچھلے وقتوں میں کسی موضوع پر کہی گئی تھی۔۔۔
آج پڑھی تو اسے جینے کا مقصد مل گیا
بھائی آیا تو آج کافی رعب سے کہنے لگا
"ہاتھ کیوں نہی اٹھاتیں؟ اسکی غلطیوں پر؟ سر گود میں رکھ کر سلانے والی مایئں ہی ہوتی ہیں انہیں بڑھاوا دینے والی"
امی سے بات کرتے ہوئے چہرے ہر ایک دو شکن بھی تھیں۔۔۔
امی پہلے تو ذرا مسکرائی پھر کہنے لگیں
"ہاتھ اٹھتا تو ہے مگر گال تک پہنچتے پہنچتے یوں لرز جاتا ہے گویا قیامت کا سماں ہو،
جوان بیٹی ہے نا۔۔تھوڑی کمسن ہوتی تو یوں لرزاں طاری نہ ہوتا"
سر سے سرکتا ہوا دوپٹا پھر اوڑھا اور کہا
"پر اب کے میں نے ٹھانی ہے۔۔۔ذرا زبان چلائے تو لرزتا ہوا ہاتھ ہی سہی مگر اٹھا دوں گی،کہیں پھر سے دیر نہ کردوں"
امی کی بات سن کر بھائی کے چہرے پر جو ایک دو شکن تھیں وہ بھی رفوچکر ہو گئی تھیں
مڑ کر جاتے ہوئے اواز لگاتی لگیں
"سُکڑتی ہوئی جلد بھی جگہ پر آگئی نہ؟۔۔۔دیکھا؟ یہی تو اپنے خون کی طاقت ہوتی ہے۔۔"