منصور خاں کا حال یہ ہے کہ یہ بہادر شاہ بادشاہ کے عہد میں وزیر خاں چکلہ دار سرہند کے سرکار میں ملازم تھے۔ جب ١١٢٣ھ میں گرو بند نے سرہند پر یورش کی اور وزیر خاں چکلہ دار مارا گیا تو اسی ہنگامے میں منصور خاں کے بائیں ہاتھ میں تلوار کا ایک زخم لگا کہ اس سے ان کے ہاتھ کی تین انگلیاں اڑ گئی تھیں۔ اس سبب سے یہ ٹنڈے منصور خاں مشہور ہو گئے تھے اور تھے یہ بڑے چست و چالاک۔ ان کی بوٹی بوٹی میں شجاعت بھری ہوئی تھی۔ اس ٹنڈے پن میں بھی نچلے نہ بیٹھتے تھے۔ انھوں نے پیشہ قزاقی اختیار کر لیا تھا اور لوگوں کے دلوں میں ان کی ایسی دہشت بیٹھی تھی کہ جس گاؤں پر یہ چاہتے اکیلے حملہ کرتے تھے اور لوگ ان کی دہشت سے گاؤں چھوڑ کر بھاگ جاتے۔ آخر کار ١١٢٤ھ میں پیمانۂ عمر ان کا لبریز ہوا اور ایک فرزند دولت خاں چھوڑ گئے۔
دولت خاں کا حال
دولت خاں کا حال اتنا ہی دریافت ہوا ہے کہ یہ ایک سیدھے سادے پٹھان تھے۔ انھوں نے کسی سرکار میں ملازمت بھی نہیں کی۔ عمر بھر خانہ نشیں ہی رہے اور بطور زمینداروں کے اپنی گذر اوقات کرتے رہے۔ ایک فرزند ان کے بادل خاں تھے۔
ذکر بادل خاں کا
بادل خاں کی حقیقت یہ ہے کہ جب مصطفے خاں بڑینچ، محمد شاہ بادشاہ کے عہد میں تلاش روزگار کے واسطے پانچ چھے ہزار کی جمعیت کے ساتھ ولایت سے ہندوستان کو آتا تھا، جب یہ قریب شہر سمانے کے پہنچا تو سکھوں کا فرقہ اس کا سد راه ہوا۔ اس نے سخت جنگ کے بعد ان کو شکست دی اور شہر سمانے میں بود باش اختیار کی۔ یعنی موضع بڑینچان جو شہر سمانے اور مراد پورہ کے درمیان داؤد خاں بڑینچ نے آباد کیا تھا، وہاں اپنے قبائل چھوڑ کر ملازمت حاصل کرنے کے خیال میں منزل مقصود کی طرف روانہ ہوا۔ اس وقت بادل خاں بھی مصطفے خاں بڑینچ کے ہمراہ ہو لیے۔ یہ اپنی جمعیت سمیت جا کر نواب علی وردی خاں مہابت جنگ صوبہ بنگالہ کی سرکار میں ملازم ہو گیا۔ ایک عرصے کے بعد جب مہابت جنگ اور مصطفے خاں کی ناچاقی ہوئی تو مصطفے خاں ملازمت ترک کر کے مرشد آباد سے روانہ ہوا۔ راستے میں اس نے قلعہ مُنگیر کا محاصرہ کیا، ہر چند قلعہ دار منگیر بھی خوب لڑا پر آخرکار مارا گیا اور قلعہ منگیر اس نے فتح کر لیا۔ لیکن مصطفے خاں کا بھائی عبد الرسول خاں اور بادل خاں، یہ دونوں اس لڑائی میں کام آئے۔ بادل خاں کے ایک فرزند الف خاں تھے۔
الف خاں کی حقیقت
الف خاں کچھ عرصے تک تو نواب منصور علی خاں صوبہ اودھ کی سرکار میں ملازم رہے، پھر وہاں سے نوکری چھوڑ کر دہلی چلے آئے اور یہاں ایک عرصے تک قیام کیا۔ نواح دہلی میں مغل پورہ، جو ایک بستی ہے، اس میں مرزا فاضل بیگ ایک مغل رہتے تھے۔ ان کی بیٹی سے شادی کی۔ ان کی اس بی بی کے بطن سے میرے دادا فیض طلب خاں صاحب پیدا ہوئے۔ ان کی ایک بی بی وطن مالوفہ یعنی شہر سمانے میں بھی تھیں۔ ان کے بطن سے ایک بیٹا تھا، جس کا نام غلام رسول خاں تھا۔ کچھ مدت کے بعد ١٢٠٢ھ میں الف خاں صاحب نے سفر آخرت اختیار کیا اور دو فرزند انھوں نے چھوڑے۔ بڑے غلام رسول خاں اور چھوٹے فیض طلب خاں۔
غلام رسول خاں اور ان کی اولاد کا حال
غلام رسول خاں اور ان کی اولاد کا حال یہ ہے کہ ان کا بیٹا عبد الرسول خاں اور ان کا بیٹا محمد ابراہیم علی خاں۔ محمد ابراہیم علی خاں کو رئیس جھجر نے عبد الصمد خاں، فوج ریاست کے جرنیل سمیت سواروں کی ایک جمعیت کے ساتھ ١٨٥٧ء میں بادشاہ کی مدد کے لیے دہلی بھیجا تھا۔ اسی جرم میں محمد ابراہیم علی خاں کو انھیں دنوں میں مقام جھجر پھانسی دی گئی۔ ان کے چار بیٹے ہیں: محمد اشرف خاں، محمد اسماعیل خاں، محمد خاں، عبد الستار خاں۔ ان کو سرکار انگریزی کی طرف سے وظیفے کے طور پر کچھ ملتا ہے۔ محمد اشرف خاں کے ایک بیٹا عشرت علی خاں ہے۔ محمد اسماعیل خاں کے دو فرزند ہیں: احمد علی خاں اور ولایت علی خاں۔ محمد خاں کے ایک بیٹا معین الدین خاں ہے۔ عبد الستار خاں کے کچھ اولاد نہیں ہے۔
اب کچھ حال ریاست پاٹودی کا لکھا جاتا ہے
پاٹودی ایک قصبہ دہلی سے چوبیس کوس اور گوڑ گاؤں سے بارہ کوس کے فاصلے پر جنوب کی طرف واقع ہے اور اوسط درجے کے رئیس بااختیار کی ریاست گاہ ہے۔ یہ رئیس سرکار انگریزی کے سایہ عاطفت میں سرداری کرتا ہے اور اس کی ریاست کمشنری دہلی سے متعلق ہے اور جناب صاحب کمشنر بہادر قسمت دہلی اس کے نگراں ہیں۔ اس وقت اس ریاست کا رئیس اپنی نوعمری کے سبب بے اختیار ہے اور لاہور چیف کالج میں تعلیم پاتا ہے۔ ریاست کے اہتمام پر ایک منتظم سرکار انگریزی کی طرف سے مقرر ہے۔ یہاں کے اول رئیس جو خاندان شیخان میں سے ہوئے، وہ نواب فیض طلب خاں صاحب مرحوم رئیس حال کے مورث اعلی تھے۔
فیض طلب خاں اور نجابت علی خاں کا حال
کہتے ہیں کہ نواب فیض طلب خاں صاحب بڑے شجاع اور قوی ہیکل اور شکیل جوان تھے۔ ان کی شادی نواب نجابت علی خاں رئیس اول جھجر کی بہن سے ہوئی تھی اور فیض طلب خاں ہمیشہ نواب نجابت علی خاں ہی کے ساتھ رہے۔ نجابت علی خاں ابتدا میں شاہ عالم بادشاہ کے حضور میں ایک جاگیردار تھے۔ جب مادھو راؤ سندھیا کا تسلط دہلی پر ہوا تو اس نے بھی ان کی قدر اور منزلت بحال رکھی اور انھوں نے بھی اس کی اطاعت اور خیر خواہی کا بخوبی حق ادا کیا۔ جب ملک جے پور میں راجہ دہراج پرتاب سنگھ کچھوا پر مادھو راؤ سندھیا نے چڑھائی کی اور قصبہ لال سوت اور خوشحال گڑھ پر لڑائی ہوئی تو نجابت علی خاں کے ہم راہیوں نے بھی میدان جنگ میں نہایت درجے کی داد شجاعت دی۔ چنانچہ غازی خاں، نجابت علی خاں کا چچا اس معرکے میں مارا گیا اور دادا فیض طلب خاں صاحب سے بھی اس جنگ میں بڑے بڑے کار نمایاں ہوئے۔ اس کارگزاری اور خیر خواہی کے صلے میں مادھو جی سندھیا نے نجابت علی خاں کو بادشاہ کے حضور سے “اسد الدولہ، ممتاز الملک، نواب نجابت علی خان بہادر ہزبر جنگ” کا خطاب دلوایا۔