اصل میں دادا فیض طلب خاں صاحب مرحوم قوم سے پٹھان اور یہ اور ان کے خاندان کے لوگ مشہور شیخان ہیں۔ مگر شیخان مشہور ہونے کی وجہ تسمیہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جب یہ پٹھان تھے تو شیخان کیوں مشہور ہوئے۔ ہر چند معتبر لوگوں سے بھی دریافت کیا اور تاریخ کی کتابوں میں بھی دیکھا مگر کہیں سے اس کی اصلیت نہ معلوم ہوئی۔ آخر اس وجہ سے کہ معلوم تھا کہ دادا فیض طلب خاں صاحب ایک صوفی کامل رکن الدین محمود نامی کی اولاد میں سے ہیں۔ پس تصوف کی کتابوں کی طرف رجوع کیا گیا۔ الحمد للہ کہ بہت تلاش کے بعد مطلب بخوبی بر آیا اور معلوم ہوا کہ ان کے بزرگوں کے شیخان مشہور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مورث اعلی رکن الدین محمود صوفی خواف کے رہنے والے جو نیشاپور کے قرب و جوار میں کوئی موضع تھا، حضرت مودود چشتی علیہ الرحمۃ کے خلفا میں سے تھے اور یہ اپنی بزرگی اور صاحب کشف و کرامت ہونے کی وجہ سے پہلے خواجہ شیخان کہلاتے تھے اور اس نظر سے حضرت مودود چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شفقت اور مہربانی کی رو سے ان کو شاه شیخان کا لقب مرحمت فرمایا۔ جیسا کہ کتاب “نفحات الانس” اور “سیر الاقطاب” میں مذکور ہے کہ رکن الدین محمود صوفی اس خطاب پر بہت ناز کرتے تھے۔ اس امر کی تصدیق کے لیے دونوں کتابوں کی عبارت لکھی جاتی ہے۔
عبارت نفحات الانس
“شاہ شیخان علیہ الرحمۃ کہ لقب و نام وے رکن الدین محمود است و چند وقت در چشت اقامت نمودہ۔ می گویند کہ در وقت اقامت ہرگز در چشت نقص طہارت نہ کردہ۔ چوں درخواستی کہ طہارت کند سواری شد ۔ و از چشت بیرون آمدی و دور افتی و طہارت ساختی و مراجعت نمودی۔ می گفتی کہ مزار چشت منزل مبارک و مقام متبرک است۔ روا نہ باشد کہ آن جا بے ادبی کنند و گویند کہ پیش تر وے را خواجہ شیخان می گفت۔ خواجہ مودود وے را شاہ لقب نہاد۔ و وے ہمیشہ بہ آن می نازیدی و مفاخرت می کردی۔ وفات خواجہ مودود سبع وعشرین وخمس ماۃ بوده است (٥٢٧ھ) وفات شاه سبع وتسعين وخمس ماۃ (٥٩٧ھ)۔” (صفحہ ۲۱۱)
دیگر عبارت سیر الاقطاب
“شاہ شیخان کہ اول او را خواجہ شیخان می گفت روزے از زبان مبارک حضرت خواجہ از روئے مہربانی شاہ شیخان برآمد۔ از آن باز بدین خطاب مشہور شد۔ و اندر اقران خود بدین اسم می نازید”۔ (صفحہ ۸۸)
غرض اس سے بخوبی ظاہر ہے کہ شیخ رکن الدین محمود اپنی بزرگی کے سبب شیخ اور خواجۂ شيخان اور شاہ شیخان کہلائے۔ ورنہ قوم سے پٹھان تھے۔ ان کی وفات ٥٩٩ھ میں ہوئی اور موضع چشت میں دفن کیے گئے۔ پھر ان کی اولاد میں جو لوگ ہوئے، وہ ان کے اس لقب کی وجہ سے شیخان کہلائے۔
ذکر شیخ لالہ حسن پیر ماٹھا کا
شیخ لالہ حسن مشہور پیر ماٹھا اور زندہ پیر تھے اور یہ شیخ رکن الدین محمود کے بارھویں پشت میں پوتے تھے۔ یہ نواح نیشاپور سے آن کر شیر شاہ بادشاہ کے عہد میں شہر سمانہ میں مقیم ہوئے، جو اب ریاست پٹیالہ سے متعلق ہے۔ اس وجہ سے کہ شیخ لالہ حسن بڑے عابد اور زاہد اور صاحب اسرار تھے، یہاں کے پٹھانوں نے ان کی بڑی تعظیم اور توقیر کی۔ اور صدہا پٹھان ان کا مرید ہو گیا۔ تھوڑے عرصے کے بعد شیخ لالہ حسن صاحب نے شہر سمانہ کے دو کوس کے فاصلے پر شمائل کی جانب ایک گاؤں ہے، جسے مراد پورہ کہتے ہیں، اس زمانے میں شہر سمانے اور مراد پورہ کے بیچ میں کوئی عمارت حائل نہ تھی۔ جب بڑینچ لوگ آئے تو داؤد خاں بڑینچ نے موضع بڑینچان اس کے اور شہر سمانے کے بیچ میں آباد کیا۔ اور مراد پورہ کے شمال میں خداد پورہ آباد ہوا۔ تو اب اس کی یہ صورت ہے کہ شہر سمانے کے شمال میں ایک میل کے فاصلے پر موضع بڑینچان ہے اور موضع بڑینچان کے شمائل میں کوئی پانسو قدم کے فاصلے پر مراد پورہ ہے اور مراد پورہ کے شمال میں خداد پورہ ہے۔ یعنی مراد پوره، خداد پورہ اور موضع پڑینچان کے درمیان واقع ہے۔ اسی گاؤں میں شیخ لالہ حسن یعنی پیر ماٹھا نے سکونت اختیار کی اور اپنی زندگی بھر وہیں مقیم رہے۔
شیخ لالہ حسن کی وفات کا ذکر
آخر کار اکبر بادشاہ کے عہد سلطنت ٩٧٣ھ میں انھوں نے وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آج تک ان کا مزار وہاں موجود ہے اور یہ پیر ماٹھا اور زندہ پیر کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے مزار پر صدہا گھڑا یعنی مٹکا نذر کے طور پر چڑھتا ہے۔ یہی سبب ہے جو ان کو اس نام سے منسوب کیا۔ یہ بڑے صاحب تصرف تھے۔ کہتے ہیں کہ آج تک ان کی اولاد میں یہ بات چلی آتی ہے کہ اگر کسی شخص کو باؤلا کتا کاٹے اور اس شخص کے منہ میں ان کی اولاد میں سے پانی کی کلی اپنے منہ میں بھر کر ڈالے تو تمام عمر اس کو ہڑک نہیں اٹھتے اور ان کا یہ تصرف ان کی اولاد میں تا قیامت رہے گا۔
ذکر شیخ مصطفے کا
شیخ لالہ حسن کی وفات کے بعد ان کے فرزند شیخ مصطفے ان کے جانشین ہوئے۔ یہ بھی بڑے صالح اور متقی اور صاحب علم تھے۔ انھوں نے بھی اپنی ساری عمر درس و تدریس و زہد و عبادت میں بسر کی اور جو ان کے خاندان کا طریقہ تھا یعنی پیری مریدی کا جاری رکھا اور ان سے بھی بڑا رشد مخلوق کو حاصل ہوا۔ تمام اطراف کے لوگ جوق جوق آن کر ان سے بیعت کرتے تھے اور ہدایت پاتے تھے۔ ان کی وفات ١٠٠٣ھ میں ہوئی اور اپنے باپ کے پہلو میں دفن کیے گئے۔ ان کے ایک بیٹا ثابت خاں تھا۔
ثابت خاں کی حقیقت
ثابت خاں کی طبیعت لڑکپن ہی سے سپہ گری کی طرف مائل تھی۔ پیری مریدی کا جو طریقہ ان کے آبا و اجداد سے چلا آتا تھا، ان کو اس کی طرف مطلق خیال نہ رکھتے تھے۔ جب ١٠٢٣ھ میں جہانگیر بادشاہ اور اس کے بیٹے شاہجہاں کا باہمی تنازع ہوا اور جہانگیر بادشاہ لاہور سے دہلی کی طرف روانہ ہوا تو اثناء راہ میں ثابت خاں قریب سو سوا سو سوار کی جمعیت سمیت بادشاہ کی فوج میں رسالداری کے عہدے پر مقرر ہو گئے۔ انھی دنوں میں بادشاہ نے عبد اللہ خاں کو دس ہزار سوار کے ساتھ شاہجہاں کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ ان میں ثابت خاں بھی تھے اور یہ بات مشہور ہے کہ عبد اللہ خاں دس ہزار سوار سمیت شاہجہاں سے جا ملا اور ثابت خاں اکثر معرکوں میں عبد اللہ خاں کے ساتھ رہے۔ جب شاہ جہاں بادشاہ ہوا اور قندھار پر فوج کشی کی تو گرشک کے مقام پر قزلباشوں سے بڑے بڑے میدان ہوئے۔ انھیں معرکوں میں سے ایک لڑائی میں ١٠٤٢ھ میں ثابت خاں گرشک کے مقام پر کام آئے۔
شیخ جمال اور اسحاق خاں کا حال
ثابت خاں کے دو بیٹے تھے۔ ایک شیخ جمال، دوسرے اسحق خاں۔ شیخ جمال صاحب مشائخ کبار میں سے ہوئے اور ان کا طریقہ اپنے آبا و اجداد کے موافق ہوا۔ ان سے خلق اللہ کو بہت فیض پہنچا اور یہ شیخ عبد الخالق لاہوری کے مرید تھے۔ ان کا طریقہ صابری چشتی تھا، مگر لا ولد تھے۔ ان کی وفات ١٠٨٨ھ میں ہوئی اور مراد پورہ ہی میں دفن ہوئے۔ اور اسحاق خاں کا حال صرف اتنا ہی معلوم ہے کہ ان کا ایک فرزند منصور خاں تھا۔