٢٤؍ جمادی الاول ١٢٦٩ھ کو صبح کی نماز کے بعد میرا نکاح ہوا، ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کا مہر بندھا۔ قاضی کو ڈھائی سو روپیہ نقد اور ایک دو شالہ نکاح خوانی کا دیا۔ دہلی کے شُہدوں کو سوا سو روپیہ اور ایک شال انعام ملا۔ باقی گھر کے مکینوں کو ہزاروں روپیہ تقسیم کیے۔ دوپہر تک رخصت کا سامان ہوا۔ میرے ابا جان نے قریب ساٹھ ستر ہزار روپیہ کے جہیز دیا تھا۔ کیا نہ تھا، سب ہی کچھ تھا۔ ڈیڑھ سو دیگ بہوڑے کے کھانے کے ساتھ کیے۔
رخصت ہونا برات کا
بوا! جس وقت میں رخصت ہوئی ہوں، محل میں ایسا کہرام تھا کہ روتے روتے لوگوں کی ہچکیاں بندھ بندھ جاتی تھیں اور خاص کر میری اماں کی بے قراری اور دادی اماں کی آہ و زاری سے تو کلیجے کے ٹکڑے اڑتے تھے۔ اور محل سے لے کر تمام قلعے میں ایسا سناٹا تھا، یہ معلوم ہوتا تھا کہ خدا نہ کرے دور پار سے شیطان کے کان ہہرے کوئی لوٹ کر لے گیا ہے۔ بس مجھے جا کر خیموں میں اتارا۔ شام کو چوتھی کی رسم ادا ہوئی۔
برات کا جھجر پہنچنا
دوسرے روز پچھلے پہر میں پاٹودی سے چل کر دس بجے دن کے جھجر کے قریب پہنچی۔ شہر سے ہم دو میل کے فاصلے پر تھے کہ ہزاروں آدمی تماشائی سڑک کے گرد جمع ہو گئے۔ نواب صاحب کی تمام فوج برات کی پیشوائی کو آئی ہوئی اور سڑک کے گرد جمع ہوئی کھڑی تھی۔ جب ہم اس انبوہ کے قریب پہنچے تو نواب صاحب بگھی سے اتر کر ہاتھی پر سوار ہوئے اور میری سکھ پال پر سے اشرفیاں نچھاور کرنی شروع کیں۔ قلعے کے دروازے تک اشرفیاں نچھاور کرتے چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ کئی سو اشرفیاں نواب صاحب نے اس روز میری سکھ پال پر سے نثار کیں۔ قلعے کے دروازے پر پہنچی تو پلٹنوں کے باجے بجنے لگے اور سلامی کی شلکیں دھائیں دھائیں چلنے لگیں۔ بیت:
بلند ہوتا تھا طنبور سے وہ جھرّاٹا
کرے ہے دیر تلک سن کے جس کو جی سن سن
کڑکتے تاشے تھے نقارے بجتے تھے دوں دوں
کڑکتی توپ سلامی کے وقت تھی دن دن
جب قلعے کے اندر پہنچی تو مبارک سلامت کی صدائیں ہر طرف سے آنے لگیں۔ غرض بڑی دھوم دھام اور تجمل سے مجھے محل میں جا کر اتارا۔ پھر وہاں جو کچھ ریت رسم ہوتی ہے، وہ ادا ہوئی۔ اور اس روز سے پانسو روپیہ ماہوار میر ے خرچ پاندان کے نام سے نواب صاحب نے مقرر کر دیے۔ دو روز وہاں رہی، پھر اپنے میکے چلی آئی۔ اس کے بعد چالوں کی رسم ہوئی۔ جب چاروں چالے ہو چکے تو اس کے بعد یہ دستور ٹھہرا کہ جب کبھی میں سسرال جاتی تو والدہ میرے ساتھ جاتیں۔ یہ بے تکلفی اس سبب سے تھی کہ نواب صاحب سے میرے ابا جان کا رشتہ پہلے سے بھی تھا اور آپس کا اتحاد بہت بڑھا ہوا تھا۔ بس میں دو تین روز رہتی پھر میکے چلی آتی۔ یہاں آتی تو اپنی ہم جولیوں سہیلیوں سے کھیلتی رہتی۔ دو تین گھنٹے استانی جی سے پڑھتی بھی تھی۔ جہاں سبق یاد ہوا جھٹ استانی جی کو سنا دیا اور چھٹی ملی۔ پھر کھیل شروع ہوا۔ کبھی کڑھائی چڑھتی ہے، کبھی کچھ اور ہنڈیا کلیا پکتی ہے۔ کبھی گڑیوں کے بیاہ کی دھوم ہے، کبھی چمنا چمنی کی چٹی میں ہمسائے کی لڑکیوں کا ہجوم ہے۔ غرض رات دن عیش میں گزرتا تھا۔ غم پاس نہ پھٹکتا تھا۔ بوا! ایک تو بچپن الیل عمر، دوسرے میں اپنی ماں کی اکلوتی، ماں باپ کی لاڈلی۔ تیسرے امیر کے گھر میں پیدا ہوئی۔ امیر ہی گھر بیاہی گئی۔ آٹھ برس کی عمر کھیل کود ہی میں بسر کی۔ پھر تو نہیں معلوم کس کم بخت کل جنی کا ٹوکا لگ گیا اور ایسی کسی چڑیل کی بد نظر اثر کر گئی کہ سارے عیش اور کھیل کود کی کسر نکل گئی۔ نواں برس کیا شروع ہوا کہ ایک آفت کا گولا ٹوٹ پڑا۔
حالات غدر ١٢٧٣ھ مطابق ١٨٥٧ء
مجھے خوب یاد ہے کہ رمضان کا مہینہ سولھواں روزہ تھا اور ١٢٧٣ھ مطابق ١٨٥٧ء تھی۔ خوب چلچلاتی گرمی پڑ رہی تھی۔ پیاس کی شدت لوں کی تیزی سے دگنی چوگنی ہوتی تھی۔ منہ پر ہوائیاں اڑی ہوئی، ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی۔ ایسی حالت میں خدا خدا کر کے شام ہوئی۔ روزہ کھول، شربت پیا، ذرا دم لیا۔ ناتوانی سے جان سنسنا گئی تھی۔ تکان کے مارے کچھ نیند سی آ رہی تھی۔ چاہا کہ دم کے دم ایک جھپکی لے لوں۔ آنکھیں آدھی کھلی آدھی بند تھیں۔ دیکھتی کیا ہوں، ابا جان کچھ اداس صورت بنائے گھر میں تشریف لائے مگر زبان سے کچھ نہیں فرماتے۔ میں جلدی سے تعظیم کے لیے کھڑی ہو گئی۔ بے وقت آنے کا سبب پوچھا۔ مجھ سے تو کچھ نہ فرمایا۔