بعد اس کے والدہ صاحبہ نے یہ کیا کہ اس احمدی کو اس کے خاوند کے گھر سے بلا لیا اور چند ہی روز کے بعد اس کے خاوند سے کہا کہ تو بھی اپنے ماں باپ سے علاحدہ ہو کر میرے ہاں چلا آ۔ وہ بیچارہ ان کے کہنے کے موجب اپنے ماں باپ سے جدا ہو کر ان کے مکان پر چلا آیا۔ کوئی ایک مہینہ تو دونوں کو رکھا، بعد ایک ماہ کے دونوں کو اپنے گھر سے نکال دیا۔ اب نہ وہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ آخر لاچار ہو کر دونوں میاں بیوی میرے مکان پر چلے آئے۔ میں نے خوف خدا کا کر کے دونوں کو رکھ لیا کہ یہ موجود ہیں۔
والدہ صاحبہ کی ناحق کی چغلی
بس احمدی کا میرے مکان پر آنا تھا کہ والدہ صاحبہ کی طرف سے ایک قیامت ٹوٹ پڑی اور میں ایسی خطا وار ٹھہری کہ دنیا میں میرے برابر کوئی گناه گار نہ ہوگا۔ کہاں تک خفگی کا حال بیان کروں کہ خط کتابت تک بھی بند کر دی۔ اس پر بھی میں نے کچھ خیال نہ کیا، بلکہ یہ سمجھی کہ یہ چند روز کی خفگی ہے جاتی رہے گی۔
رئیس حال کی نانی کا مجھ کو طلب کرنا اور والدہ صاحبہ کا برافروختہ ہونا
تھوڑے ہی دن کے بعد احمد النساء بیگم صاحبہ مرحومہ رئیس حال کی نانی نے مجھ کو طلب کیا اور والدہ صاحبہ کو بھی معلوم ہوا کہ وہ پاٹودی آئی ہے تو والدہ صاحبہ نے منتظم صاحب سے کہہ دیا کہ اس کو قلعے میں نہ آنے دو۔ جب میں اسٹیشن جاٹولی پر پہنچی تو منتظم صاحب نے مجھ کو حکمت عملی سے روکا۔ مگر میں سمجھ گئی کہ یہ اشاره والدہ صاحبہ کا ہے۔ مجھ کو اس وقت نہایت غصہ آیا۔ اگر میں چاہتی تو پاٹودی چلی جاتی، مجھ کو کون روک سکتا تھا، مگر میں پالکی گاڑی سے اتر پڑی اور یہ بھی چاہا کہ اسی وقت دہلی چلی جاؤں، مگر اس وقت کوئی گاڑی دہلی کی آتی جاتی نہ تھی۔ اسی وقت مرزا ایوب بیگ نے اسٹیشن ماسٹر سے ایک کمرہ کھلوا کر اس میں مجھے اتارا۔ مگر مجھ کو نہایت رنج تھا۔ جب پالکی گاڑی خالی پاٹودی پہنچی اور احمد النساء بیگم کو یہ معلوم ہوا کہ شہر بانو بیگم نہیں آئیں اور وہ اسٹیشن پر ہیں، تو خدا ان کی مغفرت کرے، وہ بذات خود اسٹیشن پر میرے لینے کو آئیں۔ ہر چند میں نے انکار کیا، پر انھوں نے نہ مانا اور بہ منت مجھ کو پاٹودی لے گئیں۔ غرض ایک دن اور دو شب میں پاٹودی میں رہی اور پھر دہلی کو چلی آئی۔
والدہ صاحبہ کا برافروختہ ہونا اور میرا وثیقہ بند کرانا
والدہ صاحبہ کو جو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ اور بھی برافروختہ ہوئیں اور منتظم صاحب سے کہہ کر میرا زر وثیقہ رکوا دیا۔ میں نے منتظم صاحب کو خط لکھا۔ اس کا جواب منتظم صاحب نے نہ دیا۔ دوسرا خط لکھا، اس کا جواب بھی نہ دیا۔ جب لاچار ہوئی تو ٢٣ فروری ١٨٨٥ء کو مرزا ایوب بیگ کو زر وثیقہ کی رسیدات دے کر اور ایک خط منتظم صاحب کے نام لکھ کر پاٹودی کو روانہ کیا۔ مرزا جی ٹکٹ لے کر گاڑی میں سوار ہوئے کہ اتفاق سے منتظم صاحب بھی دہلی سے پاٹودی کو جاتے تھے۔ وہ بھی اسی گاڑی میں بیٹھے اور مرزا ایوب بیگ سے پوچھا کہ “آپ کہاں جاتے ہیں؟” مرزا جی نے جواب دیا کہ “آپ ہی کی خدمت میں زر وثیقہ وصول کرنے جاتا ہوں”۔ اس کے جواب میں منتظم صاحب نے یہ فرمایا کہ “آپ واپس چلے جائیں، آپ کو وثیقہ نہیں ملنے کا”۔ مرزا جی واپس چلے آئے۔ اب تو اور بھی ناچار ہوئی، کیونکہ صاف جواب ملا۔
صاحب بہادر کمشنر کو مراسلہ دینا اور زر وثیقہ وصول کرنا
تو تنگ ہو کر ٢٤ فروری ١٨٨٥ء کو ایک مراسلہ جناب مکناب صاحب کمشنر بہادر دہلی کی خدمت میں بسبیل ڈاک روانہ کیا۔ کیونکہ صاحب کمشنر بہادر ان دنوں میں دورے پر تھے۔ چنانچہ میرا مراسلہ بمقام جھجر پیش ہوا۔ چونکہ وہ حاکم نہایت رحم دل اور منصف مزاج تھے، فوراً منتظم کے نام حکم بھیجا کہ شہر بانو بیگم کا زر وثیقہ جلد بھیج دو۔ جب منتظم صاحب نے میرا وثیقہ بھیجا۔
والدہ صاحبہ کا لودھیانہ جا کر دہلی آنا اور ہمشیرہ زہرا بیگم کے ہاں اترنا
بس یہ امر تو والدہ صاحبہ کو اور بھی برا معلوم ہوا کہ منتظم صاحب کی شکایت میں نے صاحب کمشنر بہادر سے کی۔ اس پر تو ایسے غیظ و غضب میں آئیں کہ کچھ بیان ہی نہیں۔ لو صاحب سب سے بالا بالا لودھیانہ پہنچیں اور وہاں میرے دشمنوں سے کچھ مشورہ کر ماہ اپریل ١٨٨٥ء کو دہلی تشریف لائیں۔ میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں۔ ان دنوں میں میری ہمشیرہ زہرا بیگم محل سرائے میں فروکش تھیں، وہاں آن کر اتریں۔ میرے بھانجے سید افضل حسین نے مجھ سے آن کر کہا کہ “شب کو تو نانی نواب محل صاحبہ تشریف لائی ہیں اور خالہ زہرا بیگم صاحبہ کے ہاں اتری ہیں۔ آپ کو مناسب ہے کہ آپ بھی ضرور جائیں”۔ میں نے انکار کیا۔ اس پر مرزا ایوب بیگ نے بھی مجھ سے کہا کہ “آپ کو ضرور جانا چاہیے۔ کیونکہ آپ کی والدہ ہیں”۔ جب دو آدمیوں نے یہی صلاح دی تو میں ڈولی منگا، سوار ہو، محل سرائے میں جا اتری۔ مجھے نگوڑی کو کیا خبر کہ ان کے دل میں کیا کچھ بھرا ہوا ہے۔ میں نے جا کر سلام کیا۔ میرے سلام کا جواب نہ دیا، بلکہ میری طرف سے منہ پھیر لیا اور مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ کون بلا ہے۔ جب بوا، میں نے یہ حال دیکھا تو میں بھی چپ ہو کر بیٹھ گئی۔ تمام دن الٹ گیا مگر انھوں نے مجھ سے بات تک نہ کی۔ جب رات ہوئی تو میری بہن کی طرف مخاطب ہو کر والدہ صاحبہ نے کچھ ایسے کلمات کہے کہ مجھے بہت ناگوار گزرے اور تمام رات گویا میں انگاروں پر لوٹی۔
مرزا ایوب بیگ کو اراده والدہ کا معلوم ہونا اور میرا گھر واپس آنا
جب صبح ہوئی تو مرزا ایوب بیگ کو معلوم ہوا کہ جس کام کے لیے والدہ صاحبہ تشریف لائیں تھیں، وہ نہ ہوا۔ اس وقت مرزا جی نے مجھے کہلا بھیجا کہ “اب آپ چلی آویں، جو کچھ ہونا تھا وہ ہو لیا”۔ سنتے ہی بوا میں اپنے گھر آئی۔ جب مجھ کو مفصل معلوم ہوا کہ والدہ صاحبہ تو میرے رزق کھونے کی فکر میں تشریف لائی تھیں مگر خدا نے ان کا چیتا نہ کیا۔ اس وقت تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی اور مجھ کو بڑا افسوس ہوا کہ ہے ہے جس ماں کی خاطر میں نے اپنا کھوجڑا کھو دیا، تمام زمانے کو دشمن بنایا، ہزارہا روپیہ کا نقصان کیا، وہ ماں میرے ساتھ یہ سلوک کرے۔ دنیا جائے حیف ہے۔ خیر صبر اور شکر کر کے چپ ہو رہی۔ مگر مجھے ایسا صدمہ ہوا کہ اس کے سبب بیمار پڑ گئی۔
مس تھورن صاحبہ کا تشریف لانا اور مس فلیٹچر صاحبہ سے ملاقات ہونا
مرزا ایوب بیگ نے مجھ سے کہا کہ ایک مس صاحبہ یہاں قریب رہتی ہیں اور وہ ڈاکٹری بھی کرتی ہیں، اگر آپ کہیں تو میں ان کو بلا لاؤں۔ میں نے کہا کہ بہتر ہے۔ دوسرے روز مرزا جی جا کر مس تھورن صاحبہ کو لے آئے۔ انھوں نے مجھے دیکھا، دوا دی۔ دوسرے روز مس صاحبہ پھر تشریف لائیں۔ مگر چونکہ مس صاحبہ بہت ہوشیار اور دانا آدمی ہیں انھوں نے میرے بشرے سے دریافت کر کر فرمایا کہ “بیگم! تم غم زدہ معلوم ہوتی ہو اور تنہا رہتی ہو۔ کچھ دل بہلانے کی تجویز کرو”۔ میں نے کہا کہ “مس صاحب میں کیا تجویز کروں”۔ اس پر مس صاحبہ نے کہا کہ ایک مس فلیٹچر صاحبہ نامی تھوڑا عرصہ ہوا کہ ولایت سے تشریف لائی ہیں اور بہت شریف اور خاندانی ہیں اور وہ بالکل اردو نہیں جانتیں۔ اگر تم کہو تو میں ان کو تمھارے پاس لاؤں۔ تم ان کو اردو بولنا سکھانا، وہ تمھیں کتابیں پڑھائیں گی۔ تمھاری دل لگی خوب ہو جائے گی”۔ میں نے کہا: “بہت اچھا”۔ چنانچہ دوسرے روز مس تھورن صاحبہ آپ کو لے کر میرے مکان پر آئیں۔ مجھے یاد ہے کہ ٢١ مئی ١٨٨٥ء تھی جو پہلے پہل میرے مکان پر آپ آئیں۔ اسی روز سے میں آپ کو اردو سکھانے لگی اور آپ نے مجھ کو اردو کی پہلی کتاب شروع کرائی۔ کوئی آٹھ مہینے گزرے ہوں گے کہ اس عرصے میں آپ سے میں چاروں کتابیں اردو کی پڑھ چکی تھی۔
میری طلب میں والدہ صاحبہ کا خط آنا اور میرا نہ جانا
یکم فروری ١٨٨٦ء کو ایک خط والدہ صاحبہ کا معرفت منتظم صاحب بہ دست شیخ اکرام الدین نائب وکیل میرے پاس آیا۔ مضمون اس کا یہ تھا کہ “میں سخت بیمار ہوں اور زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔ خیر جو کچھ ہوا سو ہوا۔ اب تم بغور دیکھنے خط ہذا کے جلد یہاں آ جاؤ اور ایک روپیہ کے ولایتی انار لیتی آنا”۔ خط کو پڑھتے ہی میرا یہ حال ہوا کہ ایک شعلہ بدن میں سے اٹھا اور دماغ کے پار ہو گیا اور جو جو سلوک والدہ صاحبہ نے میرے ساتھ کیے تھے وہ سب ایک تصویر بن کر میرے رو برو آ گئے۔ بس جواب خط کا تو میں نے نہیں لکھا، مگر شیخ اکرام الدین سے زبانی کہہ دیا کہ “شیخ جی اب تو پانی سر سے بھی بلند ہو گیا، کیسا ملنا اور کیسا جانا۔ کہہ دینا کہ مجھ سے کسی امر کی توقع رکھنا فضول ہے”۔ یہ کہہ کر ان کو رخصت کیا اور آپ سے برابر سبق ہوتا رہا۔ آپ توجہ قلبی اور کوشش دل سے چاروں کتابیں اردو کی اور “تاریخ مختصر ہند” اور “حالات النساء”، “مرآۃ العروس” وغیرہ پڑھ چکیں۔ جب آپ کی آمد و رفت کو عرصہ ایک سال کا گذر گیا اور گذشتہ حالات کا جو جو کچھ تذکرہ آپ سے ہوا تو آپ مصر ہوئیں کہ اپنی سوانح عمری لکھ کر مجھے دو۔ سو آپ کی خاطر میں نے اپنی بیتی کہانی یعنی روز پیدائش سے آج تک جو کچھ گزرا تھا وہ لکھ کر آپ کو دیا۔ اب تو آپ نے مجھ عاجزہ کا قصہ سنا، سچ کہنا کہ مجھ جیسے بد نصیب دنیا میں دیکھے کیا، سنے بھی نہ ہوں گے۔ اب آپ خیال کریں کہ روز پیدائش سے لوگوں کو مجھ سے حسد شروع ہوا۔ غدر میں کیسی مصیبت اٹھائی، ساس کی کیسی کیسی سختیاں سہیں، سسرال والوں نے کیا کیا بدسلوکیاں کیں، خاوند نے یوں برباد کیا، اولاد سے یہ پھل ملا کہ ایک بھی زندہ نہ بچا۔ ایک ماں تھی، سو اس نے یہ کیا کہ خون کی پیاسی ہو گئی۔ اگر چھری کو پائیں تو مجھ کو نہ پائیں۔ سو بوا! میرے ساتھ تو کسی نے بھی بھلائی نہ کی۔
مرزا ایوب بیگ کا شکریہ اور بیتی کہانی کا خاتمہ
سوائے مرزا ایوب بیگ کے، انھوں نے البتہ میری ایسی رفاقت کی کہ اپنی قدامت کا حق ادا کر دیا۔ اگر یہ شخص میری رفاقت نہ کرتا تو آج کو مجھے بھیک بھی نہ ملتی۔ یہ اسی شخص کا حسن انتظام تھا کہ اس وقت میرے قرضے کا کہ جو چار ہزار روپیہ کا میرا خاوند چھوڑ کر مرا تھا بندوبست کیا۔ علاوہ اس کے، دشمنوں کی زد سے مجھ کو بچایا اور آج تک ساتھ آبرو کے اپنے گھر میں بیٹھی ہوں اور جو کارخانہ میرے خاوند کے وقت میں تھا، اس وقت تک بدستورِ سابق موجود ہے۔ اگر اس شخص کا شکریہ میرا ایک ایک رومٹا ادا کرے تو نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالی مرزا موصوف کو جزائے خیر عنایت کرے اور مجھ کو بھی اپنے سیدھے رستے پر قائم رکھے۔
اهدنا الصراط المستقیم۔ صراط الذين انعمت عليھم۔ غير المغضوب عليھم ولا الضالين۔ آمین آمین