رمضان شریف کی ١٤ تاریخ تھی کہ میاں شکار کو گئے۔ اچھی طرح تندرست، دوسرے روز دن پندرہ کو نہائے۔ روزہ کھول رات کو برف کھائے۔ برف کا کھانا تھا کہ درد سر شروع ہوا۔ وہ درد کیا تھا کہ قضا کا پیغام تھا۔ شدت کا بخار چڑھا۔ بس دوسرے ہی روز سرسام ہو گیا۔ حکیم طبیب جمع ہوئے۔ سینکڑوں علاج کیے۔ تدبیروں پر تدبیریں پلٹیں، دواؤں پر دوائیں بدلیں، مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ جو جو دوا کی مرض کی بگڑتی ہی چلی گئی۔ ٢١ تاریخ رمضان کی تھی کہ میں بیوہ ہو گئی۔ میرا گھر برباد ہو گیا۔ میری خانما کی تباہی ہو گئی۔ میرے گھر کا مالک، میرے سر کا تاج، میرا افسر، میرا شوہر، اپنی بستی، اپنی نگری، کو چھوڑ کر یکایک دنیا سے کوچ کر گیا۔ ہائے ہائے وہ دن میرے واسطے قیامت کا دن تھا۔ وہ گھڑی میری زندگی کی تباہی کی گھڑی تھی۔ کیا کہوں کیا گزری۔ سارے صدموں کو بھول گئی۔ سب داغ ہرے ہو گئے۔ آنکھوں میں دنیا اندھیر تھی اور دل پر غم کا پہاڑ ٹوٹا ہوا تھا۔ دیوانہ وار ایک ایک منہ تکتی تھی اور جی میں کہتی تھی کہ الٰہی کیا تھا اور کیا ہو گیا۔ دو گھڑی کے بعد ایک آہ کا نعرہ دل سے اٹھا اور غش کھا کر زمین پر گری۔ کچھ دیر کے بعد ہوش آیا تو کہتی تھی کہ کیا کروں، کدھر نکل جاؤں۔ کس سے فریاد کروں۔ ہے ہے جوانی کی موت اور جوان بھی شیر کا شیر۔ جس کی چوبیس برس کی عمر۔ دنیا میں کیا رہا، کیا جیا اور کیا دیکھا۔ ایک تو یہ غم و الم تھا، دوسرے ناداری، تیسرے قرض خواہوں کا خوف، کیونکہ ان کے دم سے قرض خواہوں کو اطمینان کی صورت تھی۔ غرض میں عجب طرح کے جنجال میں تھی اور جان وبال میں تھی۔ ایسی ضرورت کا وقت اور گھر میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ حیران سرگردان۔ آخر میں نے مرزا ایوب کو بلا کر کہا کہ کچھ تدبیر کرو کہ میاں کا آخری سامان کیا جائے۔ جب مرزا جی کہیں سے سو روپیہ لائے تو ان کے تجہیز و تکفین میں اٹھائے۔ تیسرے روز پھول وغیرہ کیے۔ پھول ہو چکے تھے۔
قرض خواہوں کی چڑھائی اور سسرال والوں کی برائی
کہ قرض خواہوں نے آن کر ہجوم کیا، آخر نالشیں کر دیں۔ گھر کی یہ صورت ہوئی کہ جس گھر میں ایک سو ساٹھ روپیہ کی آمدنی تھی اس میں ساٹھ روپیہ میرے زر وثیقہ کے رہ گئے۔ کیونکہ ان کے سو روپیہ تو ضبط ہو گئے۔ اب کیا کروں۔ چار ہزار روپیہ کا میاں قرضہ چھوڑ گئے۔ مال و اسباب جو تھا وہ پہلے ہی سب خاک میں ملا چکے تھے۔ علاوہ اس کے دسویں بیسویں چالیسویں کا خرچ۔ یہ نہ ہو تو تمام خاندان میں ناک کٹے، کالا منہ ہو۔ آگے امیر کا بیٹا، گو گھر میں خاک نہ ہو۔ نام تو بڑا تھا۔ ادھر امیر محل صاحبہ، جو میری سوتیلی ساس تھیں، انھوں نے ساٹھ روپے کی ضمانت میاں کی دی تھی۔ اس کا تقاضا شروع کیا۔ ہر چند میں نے منت کی اور ہاتھ تک جوڑے کہ میرے اوپر یہ وقت پڑا ہے۔ خدا کے لیے تھوڑے دن خاموش ہو جاؤ مگر وہ سنتی تھیں بھلا.... وہ تو میری ساس کی سوکن تھیں۔ سو سومون کی ایک سوم، ہزار کنٹگوں کی ایک کنٹگ۔ جو جھوٹے ہاتھ سے کبھی کتے کو بھی نہ مارے، بھلا وہ میری منت سماجت کو کب خاطر میں لاتی تھیں۔ آخر کو انھوں نے بھی نالش کر دی۔
والدہ صاحبہ کی بے اعتنائی
اب ایک سہارا مجھے اپنی ماں کا تھا۔ میں یہ جانتی تھی کہ ان کا اکیلا دم ہے، پچاس روپیہ ماہوار کی آمدنی۔ ایک دم کا خرچ ہے۔ یقین ہے کہ سنتے ہی وہ میرے پاس آویں گی اور میرے رنج و راحت کی شریک ہو کر میری مدد کریں گے اور مجھے لے کر بیٹھیں گی۔ میں ان کی تشریف آوری کی منتظر تھی کہ یکایک ایک خط ان کا ایسے مضمون کا آیا جیسے کوئی رشتہ دار یا قرابتی تعزیت کا لکھتا ہے۔ خط سنتے ہی میں تو سُن ہو گئی اور دل میں کہتی تھی کہ اے ہے، ایسی ماں، جس کی خدمت گزاری میں کوئی دقیقہ میں نے باقی نہیں رکھا۔ بوا! چھے برس تک والدہ صاحبہ کی پنشن ریاست سے بند رہی اور وہ اپنے مقدمات دہلی اور لاہور لڑاتی پھریں۔ جب تک یہ پاٹودی نہیں گئیں، برابر ساٹھ روپے ماہوار، جو میری پنشن کا تھا، انھیں دیتی رہی اور طرح طرح سے خبر لیتی رہی۔ ساس سے انھی کی بدولت بگاڑی۔ خاوند انھی کے سبب ناراض رہا۔ مگر میں نے کسی کی ناراضی کا کچھ خیال نہ کیا اور برابر ان کی خدمت کرتی رہی۔ اس کے عوض والدہ صاحبہ نے یہ کیا کہ ایسے نازک وقت میں مجھ سے بے مروتی اختیار کی اور بیگانہ وار ہو گئیں۔ سچ ہے دنیا ہے اور مطلب اپنا ہے۔ بیت:
کیا امتحان میں نے اکثر سرور
ضرورت کی کچھ دوستی ہے ضرور
افسوس دنیا کا لہو سفید ہو گیا۔ اولاد کی محبت بھی نگوڑی جاتی رہی۔ چار غیروں کی طرح اگر پرسے کو بھی آ جائیں تو خاندان میں میری بات تو رہ جاتی، سو یہ بھی نہ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنی غرض کا ملنا تھا۔ بیت:
دوست احباب جو ہیں دنیا میں
جس کو دیکھا سو اپنے مطلب کا
میکے والوں کی یہ صورت ہوئی کہ کسی نے ایسے وقت میں اتنا بھی نہ پوچھا کہ تیرے منہ میں کَے دانت ہیں۔ سسرال والے خود خرابی کے درپے ہو گئے۔ قرض خواہوں نے نالشیں کر ہی رکھی تھیں۔ بھلا میں عورت، پرده نشین اور ایک بچہ اور وہ بھی تین مہینے کی جان۔ حواس باختہ، عقل حیران۔ آگے عالم تنہائی، نہ پاس ماں نہ باپ نہ بھائی۔ عجب بے کسی کا وقت تھا۔ در و دیوار بھی دشمن نظر آتے تھے۔ اس بدحواسی کی حالت میں کچھ بن نہ آیا۔
مرزا ایوب بیگ کو بلانا اور اپنی بے کسی کا اظہار کرنا
ایک دن مرزا ایوب بیگ کو بلوایا اور بہ منت ان سے کہا کہ “سنو مرزا جی! یہ وقت میرے اوپر نہایت بے کسی کا ہے اور وقت نکل جاتا ہے، بات رہ جاتی ہے۔ اور تم ملازم قدیم ہو۔ اب سوائے خدا کے کوئی نظر نہیں آتا اور مجھ کو تمھارے اوپر نہایت بھروسا ہے۔ اس وقت پہلو تہی نہ کرنا کہ میں تنہا ہوں اور قرض خواہوں کا بلوا ہے۔ یگانے بیگانے ہو کر مدعی بن گئے۔ میرا مونس اور مددگار کوئی نہیں رہا۔ میری حالت اس وقت ڈوبتے ہوئے کی ہے، جو ایک تنکے کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ تم میں اگر کچھ قدامت کی رفاقت اور ہمت ہے تو کچھ مدد کرو”۔ یہ کہہ کر میں رونے لگی۔
مرزا ایوب بیگ کا رفاقت کرنا اور پنشن کا مقرر کرانا
مرزا جی نے آب دیدہ ہو کر جواب دیا کہ “بیگم قسم ہے خدا کی، جب تک دم میں دم ہے، آپ کی رفاقت سے کبھی منہ نہ موڑوں گا۔ آپ خاطر جمع سے اپنے گھر میں بیٹھیں اور کچھ فکر نہ کریں۔ خدا مددگار ہے”۔ لو بوا! میں تو اس روز سے اپنے گھر میں آرام سے بیٹھی اللہ اللہ کرتی رہی اور مرزا جی نے کمر ہمت کی باندھ، اول تو میری اور میرے فرزند احمد علی خاں کی پنشن ہو جانے کے لیے درخواست کی تجویز کی۔ ہر چند سب یہ کہتے تھے کہ نواب عبد الرحمن خاں صاحب کی اولاد کی دوسری پشت میں پنشن نہیں ہوگی۔ مرزا جی دوسرے ہی دن صبح ہی انا کو میرے بچے احمد علی خاں سمیت ڈولی میں بٹھا، درخواست لکھ، صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی کوٹھی پر پہنچے اور پنشن کی درخواست دی۔ بچے کو صاحب بہادر کی گود میں ڈال دیا۔ چونکہ صاحب بہادر نہایت رحم دل اور انصاف پسند حاکم تھے، اسی وقت پچاس روپے ماہوار کی رپورٹ پنشن کی اس مضمون سے کر دی کہ تیس روپے بچے کے اور بیس روپے بیوہ کے مقرر ہوں اور اگر لڑکا فوت ہو جائے تو تیس روپے بیوہ کو ملیں۔ یہاں کانوں کان بھی کسی کو خبر نہیں۔ جب مرزا جی اس کام سے فارغ ہوئے تو اب قرضے کا انتظام کیا۔ کسی کی قسط کی اور کسی سے وعدہ کیا اور امیر محل سے تو ایک سال تک خوب ہی تکا فضیحتی رہی، بعد ایک سال کے پنشن کی منظوری بھی آ گئی۔ جب تو دشمن اور بھی جلے اور ہمیشہ اپنے جلے پھپھولے پھوڑتے رہے۔ پھر اتفاق ایسا ہوا کہ میں بیمار ہو گئی۔ میں نے والدہ صاحبہ کو اطلاع دی۔
والدہ کے ہم راہ دہلی جانا اور احمد علی خاں کا ختنہ اور نکاح کرنا
بارے کچھ مہربان تھیں، میرے پاس آ گئیں۔ کوئی آٹھ روز لودھیانہ رہ کر پھر مجھ کو ہم راہ لیے دہلی چلی آئیں۔ یہاں علاج وغیرہ کیا۔ مجھ کو صحت ہوئی۔ انھی دنوں میں میری ایک نند نور جہاں بیگم دہلی میں رہتی تھیں، ان کی دختر سے میرے فرزند احمد علی خاں کی نسبت ہو گئی۔ دوسرے ہی مہینے احمد علی خاں کا ختنہ کیا اور آخر ماه مئی ١٨٧٧ء کو نکاح بھی کر دیا۔ اس کی شادی میں جو کچھ بن سکی، دھوم دھام کی اور دل غم زدہ کو زبردستی خوشی میں لگانا چاہا۔ کیونکہ جانا کہ اب بچے کے سوا مجھے اور کس کی تقریب کرنی ہے۔ مگر والدہ صاحبہ نے اپنی عادت کے موافق اس تقریب میں بھی مجھے خوش نہ ہونے دیا اور طرح طرح سے ناک میں دم کیا۔ آخر ماہ جون کو زچ ہو کر لودھیانہ چلی گئی۔
میرا بیمار ہونا اور والدہ صاحبہ کا لودھیانہ جا کر مجھے دہلی لانا
کوئی چھے مہینے گزرے تھے کہ ماہ دسمبر ١٨٧٧ء کو میں عارضۂ فالج میں مبتلا ہوئی۔ میں نے والدہ صاحبہ کو لکھا۔ سنتے ہی وہ میرے پاس لودھیانہ پہنچیں۔ دیکھا تو میرا برا حال تھا۔ بارہ روز سے میرا دانہ پانی بند تھا۔ اسی وقت درخواست رخصت کی لکھوا کر جناب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر لودهیانہ کی خدمت میں گزرانی۔ دشمنوں نے وہاں بھی چین نہ لینے دیا۔ صاحب بہادر سے کہہ دیا یہ بیمار نہیں ہے، اس کو رخصت نہ ملے۔ صاحب بہادر نے درخواست پر حکم لکھا کہ ڈاکٹر صاحب ملاحظہ فرما کر ہمیں لکھیں تو ہم رخصت دیں۔ دوسرے روز ڈاکٹر صاحب کو بلا کر نبض دکھائی، احوال کہا۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے ضعف اور ناتوانی کو ملاحظہ فرمایا تو واقعی سخت علیل پایا۔
ڈاکٹر صاحب کا سرٹیفکیٹ دینا، میرا دہلی آنا
اسی وقت ڈاکٹر صاحب نے سرٹیفکیٹ لکھ کر عنایت فرمایا۔ جس کا مضمون یہ ہے: “سرٹیفکیٹ دیا گیا شہر بانو بیگم زوجۂ نور علی خاں کہ نہایت تنگ حال میں ہے اور بہت کم زور ہے۔ غالباً اس کے بحال ہونے کی کوئی امید نہیں اور دہلی کی آب و ہوا کے واسطے مقوی سفارش کی گئی۔ چونکہ صرف یہی وسیلہ اس کے فائدے کا معلوم ہوتا ہے”۔
لودھیانہ۔ آرزو صاحب بہادر، سول سرجن مورخہ ٤ جنوری ١٨٧٨ء
دوسرے روز یکشنبہ تھا اور ڈپٹی کمشنر بہادر دورے پر تشریف لے گئے تھے۔ اتفاق سے مولا بخش، بھتیجا دادی زینت محل صاحبہ مرحومہ کا لودھیانہ آیا ہوا تھا۔ دو شنبہ کو مولا بخش کو مع سرٹیفکیٹ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی خدمت میں روانہ کیا اور سبب مولا بخش کے ہاتھ بھیجنے کا یہ تھا کہ مرزا ایوب بیگ ان دنوں ایک کاغذ کی نقل لینے کے لیے رہتک گئے ہوئے تھے اور صاحب کا ڈیرہ لودھیانہ سے کوئی آٹھ میل کے فاصلے پر تھا۔ مولا بخش نے جا کر سرٹیفکیٹ صاحب کے روبرو پیش کیا۔ سرٹیفکیٹ کے دیکھتے ہی صاحب نے حکم دیا کہ مریضہ کو اسی وقت دہلی لے جاؤ۔ مولا بخش شام کے قریب لودھیانہ آئے۔ میں اسی شب کو سواری ریل میں بیٹھ کر دہلی آ گئی۔ دشمنوں کو خبر بھی نہ ہوئی۔ دہلی آ کر علاج معالجہ شروع کیا۔
دہلی رہنے کا مشورہ اور درخواست کا نا منظور ہونا
لیکن اب سب کی صلاح یہ ٹھہری کہ لودهیانہ کی آب و ہوا موافق نہیں، دوسرے جتنے لوگ ہیں سارے دشمن ہیں اور دشمنوں میں رہنا اچھا نہیں۔ چنانچہ والدہ صاحبہ اور دادی زینت محل صاحبہ مرحومہ، کہ میری ددیا ساس تھیں، اللہ ان کو جنت نصیب کرے، ان سب کا مشورہ ہو کر تین درخواستیں ایک میرے نام سے، دوسری والدہ صاحبہ کی طرف سے، تیسری دادی زینت محل صاحبہ کی جانب سے جناب صاحب کمشنر بہادر دہلی کی معرفت لودھیانہ بھیجی گئیں۔ اور اللہ تعالی مغفرت کرے، نواب محمد مختار حسین خاں رئیس پاٹودی بھی اس زمانے میں زندہ تھا، اس نے بھی وعدہ کیا تھا کہ “پھوپھی صاحبہ! آپ کی پنشن کی تبدیلی میں کرا دوں گا”۔ خیر وہ درخواستیں جب لودھیانہ پہنچیں تو دشمنوں کو بھی خبر لگ گئی۔ آخر جناب بھائی صاحب محمد خادم علی خاں صاحب نے جا کر میری چغلی کھائی اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر سے کہا کہ “اگر آپ اس کی تبدیلی کریں گے تو لودھیانہ میں کوئی نہیں رہے گا۔ آپ تبدیلی نہ کریں”۔ خدا کی شان، جس روز میرے پاس تبدیلی کی نامنظوری کا حکم آیا ہے، اسی روز نواب محمد مختار حسین خاں کا انتقال ہوا تھا۔ کمال ہی رنج تھا۔ خیر اب یہ تماشا ہوا کہ جب تبدیلی کی نامنظوری ہوئی تو جو لوگ اس معاملے میں شریک ہوئے تھے وہ سب آپ آپ کو ہو گئے۔ وہ کہنے لگے کہ اب جستجو کرنی بے فائدہ ہے، تبدیلی نہیں ہو گی۔ اس وقت میں بھی بہت مایوس ہوئی اور مجھ کو نہایت رنج ہوا تو مرزا ایوب بیگ نے مجھ سے کہا کہ آپ بیمار آدمی ہیں، ہرگز فکر نہ کریں اور رنجیده نہ ہوں۔ تبدیلی آپ کی ضرور ہوگی۔ آپ خاطر جمع رکھیں۔