کہ لودھیانہ سے آدمی آیا اور اس نے آن کر میری والدہ کو پیام دیا کہ آپ کی سمدهن نور محل صاحبہ بہت بیمار ہیں۔ آپ کو مناسب ہے کہ ان کی بہو شہر بانو بیگم کو لودھیانہ بھیج دیں۔ بس یہ سنتے ہی میری روانگی کی صلاح ٹھہر گئی۔ ریل تو ان دنوں میں تھی نہیں، چالیس روپیہ کو شکرم کرایہ کر کے دوسرے روز ہی لودھیانہ کی طرف روانہ ہو گئی۔ مارا مار تیسرے روز لودھیانہ پہنچی۔ دیکھا تو حقیقت میں خوش دامن صاحبہ کا برا حال تھا۔ خیر جو کچھ بن پڑی، ان کی خدمت کی۔ دو تین مہینے ہی ان کو صحت ہوئی۔ مگر مجھ سے پھر وہی زکاوت، روکھا پن، ناک میں دم آ گیا۔ الٰہی کیا کروں۔ خاوند ہے تو اس کا عجب ڈھنگ ہے کہ کچھ پروا ہی نہیں۔ ساس ہے تو ان کا یہ رنگ ہے کہ گویا خون کی پیاسی ہیں۔
والدہ کا بیمار ہونا اور میرا طلب کرنا اور ساس کا نہ بھیجنا
میں اسی مصیبت میں مبتلا تھی کہ دہلی سے والدہ صاحبہ کا خط آیا۔ اس میں لکھا تھا کہ میں سخت بیمار ہوں، جلد آ جاؤ۔ کھانا وہاں کھاؤ تو پانی یہاں پیو۔ خط دیکھ کر جی بہت پریشان ہوا۔ پر سوچا کہ کیا کروں، کیوں کر جاؤں۔ یہ مجھے کب جانے دیں گی۔ آخر وہ خط میں انور محل صاحبہ کے پاس لے گئی۔ انھوں نے پڑھ کر سنا اور پھر لا کر میری ساس کو سنایا اور بہتیرا کچھ کہا سنا، ہر چند سمجھایا کہ “دیکھو بہو کو جانے دو۔ اس کی ماں بیمار ہیں۔ اس کا جانا ضرور ہے”۔ ادھر میری ددا اور استانی جی نے طرح طرح سے کہا مگر ان کے کان پر جوں بھی نہ چلی۔ خیال بھی نہ کیا۔ گویا سنا ہی نہیں۔ میرا رنج کے مارے یہ حال ہوا کہ سوکھ کر کانٹا ہو گئی۔ غیر لوگ دیکھ دیکھ کر ترس کھاتے اور کہتے کہ “ہے ہے کیسی ظلمن ساس ہے۔ ایسی غریب بہو اور اس پر یہ ظلم”۔ لیکن اس خدا کی بندی نے آنکھ اٹھا کر بھی تو نہیں دیکھا کہ اس پر کیا بنی ہے؟ نہیں معلوم میری طرف سے انھیں کیا بغض تھا کہ انھوں نے میرے سامنے کبھی اپنی چتون کا بل نہیں کھولا۔ میری شادی ہوئے پر وہ بارہ تیرہ برس زندہ رہیں۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے مجھ سے کبھی کشادہ پیشانی ہو کر بات نہیں کی۔ خیر اس عذاب میں چار مہینے اور گزرے۔
والدہ کا صحت پا کر لودھیانہ جانا اور مجھے ہمراہ لے کر دہلی آنا
جب والدہ صاحبہ کو صحت کلی حاصل ہوئی تو وہ خود لودھیانہ گئیں اور انھوں نے جا کر میری خوش دامن کی خوب خبر لی۔ اچھی طرح جھاڑا۔ اس پر بھی بڑی جنگ و جدال سے والدہ مجھے لے کر دہلی آئیں۔ یہاں آن کر میرے گلے کا گنڈا جو مولوی مخصوص اللہ صاحب کے ہاتھ کا تھا، وہ بڑھایا اور بڑی خوشی کے چند روز کے بعد عشرت محل، میری سوتیلی ساس، لودھیانہ سے بیمار ہو کر دہلی آئیں اور یہاں علاج معالجہ بہتیرا کیا، پر فائدہ نہ ہوا۔ دو مہینے کے بعد انھوں نے انتقال کیا۔ پھر تو سارا خاندان لودھیانہ سے دہلی آیا۔ میری خوش دامن صاحبہ بھی تشریف لائیں۔ کوئی دس بارہ روز رہ کر پھر لودھیانہ کی تیاری کی۔
میرا لودهیانہ جانا اور بال بچے کی امید کا ہونا
اور میرے لے جانے کے واسطے بھی والدہ صاحبہ سے کہا۔ انھوں نے بہت سی شرطیں کر کے مجھے ان کے ساتھ بھیج دیا۔ لودھیانہ جا کر مجھے بال بچے کی امید ہوئی۔ دو مہینے کے بعد یکایک والدہ صاحبہ بھی لودهیانہ آئیں۔ میں ان کے آنے سے بہت خوش ہوئی اور یہ سمجھی کہ شاید میرے پاس رہیں گی۔ تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوا کہ وہ تو اپنی تنخواہ بدستور سابق مقرر ہو جانے کے لیے درخواست کرنے لاہور جاتی ہیں۔ سن کر نہایت رنج ہوا۔ وہ دوسرے روز لاہور کی طرف روانہ ہو گئیں۔ کوئی دو تین مہینے گزرے ہوں گے۔
میرے شوہر اور ساس کے درمیان تکرار کا ہونا
کہ ایک دفعہ میرے شوہر اور ان کی والدہ کا آپس میں تکرار اور جھگڑا ہوا اور وہ لڑ بھڑ کر اپنے چچا محمد یعقوب علی خاں صاحب مرحوم کے ہاں چلے گئے اور وہیں رہنے سہنے لگے۔ میں اپنی ساس ہی کے پاس رہیں۔ مگر اب تو خوش دامن صاحبہ کا یہ حال ہوا کہ کمال ہی مہربانی سے پیش آنے لگیں اور طرح طرح کی خوشامد کرنے لگیں۔ چھوکریوں پر بھی تاکید ہوئی کہ دیکھو خبر دار کوئی ایسی بات نہ کرنا جو بہو کو ناگوار گزرے۔ ایسا نہ ہو یہ بھی خفا ہو کر اپنے خاوند کے پاس چلی جائے۔ بھلا میں اس کی بدولت اپنے بچے کو دیکھ تو لیتی ہوں۔ اگر بہو یہاں نہ ہوگی تو پھر وہ کاہے کو آوے گا۔ میں تو اس کی صورت کو بھی ترس جاؤں گی۔ سچ ہے دنیا ہے اور مطلب اپنا ہے۔ وہی میں تھی جسے زہر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اب وہی میں ہوں کہ میری دل جوئیاں اور چاپلوسیاں ہوتی ہیں۔ ادھر تو یہ کیفیت تھی، ادھر میرے شوہر نے ایک خط میری والدہ کو اس مضمون کا لکھا کہ میں اپنی والدہ سے ناراض ہو کر اپنے چچا محمد یعقوب علی خاں صاحب کے ہاں چلا آیا ہوں اور میری اہل خانہ اپنی خوش دامن ہی کے پاس ہیں۔ آپ اس خط کے مضمون کو معلوم کرتے ہی ادھر کو روانہ ہو جائیں اور یہاں آن کر ہمارا بندوبست کر جائیں۔ وہاں سے تو انھوں نے خط لکھ کر روانہ کیا اور یہاں سے میری ساس نے بھی اسی باب میں ایک خط لکھا۔ اس میں بھی یہی تحریر کیا تھا کہ تم جلدی یہاں آ جاؤ۔ غرض چوتھے روز والدہ صاحبہ لاہور سے لودھیانہ آ گئیں۔ اول تو میرے شوہر کو بہت سمجھایا کہ اپنی والدہ سے سلوک کر لو۔ جب انھوں نے نہ مانا تو مجھے بھی میرے شوہر کے پاس بھیج دیا۔
ساس سے علاحدہ ہونا اور شوہر کا صحبت بد میں مبتلا ہونا
اب ہم علاحدہ مکان میں رہنے بسنے لگے۔ مگر قسمت کی خوبی دیکھیے کہ ادھر تو میاں جو آزاد ہو گئے تو بری صحبت میں جا کر بیٹھنے لگے اور روز بروز ان کی عادتیں بگڑنے لیں۔ ان کے ڈھنگ دیکھ دیکھ کر جلتی۔ ادھر والدہ صاحبہ کو جو دیکھتی ہوں تو وہ بھی کچھ بے رخ نظر آتی ہیں۔ نہ وہ اگلی سی محبت نہ وہ دل جوئی۔ چونکہ مجھے بھی والدہ صاحبہ کے ساتھ کمال درجے کا انس تھا، اس لیے میں نے کچھ زیادہ خیال نہ کیا۔ بلکہ یہ جانا کہ میرے شوہر نے میرے ساتھ جو بے اعتنائی شروع کی ہے تو شاید اس وجہ سے یہ دل برداشتہ ہیں۔ کوئی بیس روز میرے ہاں رہی ہوں گی، پھر وہ تو لاہور چلی گئیں۔ کوئی دو تین مہینے کے بعد میرے ہاں بال بچے پیدا ہونے کا وقت آیا۔
خوش دامن کا مجھے اپنے گھر لے جانا اور دختر اول کا میرے ہاں پیدا ہونا
تو میری ساس کو بھی خبر ہوئی۔ وہ جھٹ ڈولی منگا، میرے مکان پر آئیں اور بہت منت سماجت کر کے مجھے شوہر سمیت اپنے مکان پر لے گئیں۔ میں تو ان سے کچھ روٹھی ہی نہیں تھی، البتہ ان کے بیٹے ان سے خفا تھے۔ خیر وہاں جا کر اسی روز جمادی الاول کی پانچویں تاریخ ١٢٨١ھ کو میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی۔ اسی وقت والدہ کو تار دیا گیا۔ کیونکہ وہ لاہور میں تھیں۔ تیسرے روز وہ لاہور سے تشریف لائیں۔ ساتویں روز عقیقہ ہوا اور صدیقہ بیگم نام رکھا۔ چھٹی کی رسم بھی اچھی طرح ادا ہوئی۔ میری ساس کا تو اس روز یہ حال تھا کہ مارے خوشی کے زہرہ پھٹا جاتا تھا۔
والدہ کا چھٹی نہ دینا اور میرا رنجیدہ ہونا
مگر مجھ کو اس روز بڑا رنج تھا۔ اس لیے کہ میں اس گمان میں تھی کہ اماں جان ضرور چھٹی دیں گی کیونکہ دستور کی بات ہے۔ نواسا نواسی پیدا ہونے کے چھٹے روز ننھیال سے بھاری مصالحہ کے کرتے، ٹوپیاں، بھنسلی، کڑے، پنگوڑا، پلنگڑی، برتن، بچی کی نہالچی، پوتڑی، تمام کنبے کے جوڑے، کچھڑی، مسکینوں کے لیے نقد روپیہ یہ سب سامان کر کے لاہور سے لائی ہوں گی یا ہزار بارہ سو روپیہ نقد چھٹی کے نام سے دے دیں گی۔ پر انھوں نے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ دی۔ اگرچہ ان دنوں میں پانچ چھ ہزار کا اثاثہ ان کے پاس تھا اور کچھ تنگ دست نہ تھیں۔ اس کے علاوہ ان کے روز مرہ کا خرچ میرے وثیقے میں سے ہوتا تھا۔ کیونکہ جب تک وہ پاٹودی نہیں گئیں، میں اپنا زرِ وثیقہ ساٹھ روپے ماہوار برابر ان کو دیتی رہی۔ لیکن انھوں نے ایسے وقت میں اپنی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی اور سر سمدھانے کا کچھ خیال نہ کیا۔ پس مجھ کو ساس اور خاوند سے بڑی شرمندگی ہوئی۔ کیونکہ تمام عمر کا یہ طعنہ ان کا مجھ پر رہا۔ اس پر بھی میں نے والدہ صاحبہ سے کسی طرح کی شکایت نہیں کی، خاموش ہو رہی۔ کوئی پندرہ روز کے بعد وہ لاہور چلی گئیں۔ تھوڑے دنوں کے بعد میری خوش دامن صاحبہ بیمار پڑیں۔ کھانسی بخار شروع ہوا۔ طبیب نے مسہل دی، کچھ فائدہ نہ ہوا۔ روز بروز طبیعت بگڑتی ہی چلی گئی۔ عید کے چاند تو ان کا بہت ہی برا حال ہوا۔ میں نے گھبرا کر والدہ کو خط لکھا، وہ پانچویں روز لاہور سے لودهیانہ آئیں۔
خوش دامن صاحبہ کا انتقال کرنا
جب ان کی حالت بہت ردی ہوئی تو دمِ واپسیں سے دو گھنٹے پہلے میری ساس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور سامنے بٹھا کر مجھ سے کہا کہ میں نے تیرے ساتھ بہت سختیاں کی ہیں۔ اب للہ میرا قصور معاف کر دے۔ یہ کہہ کر لگیں ہاتھ جوڑنے اور منت کرنے۔ اس وقت تو میرا بھی دل بھر آیا اور آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ کیونکہ مجھے خدا کا خوف آ گیا۔ اس وقت میں نے ان سے کہا کہ حضرت میں نے معاف کیا۔ ١٣ شوال ١٢٨١ھ تھی کہ شب کو اس جہاں سے انھوں نے رحلت کی۔
اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ وہ بہت اچھی آدمی تھیں اور جو کچھ سختیاں انھوں نے میرے ساتھ کیں، یہ میری قسمت کی خوبی تھی۔ بیت:
برا ہے یا بھلا ہے جو ہے دنیا میں غنیمت ہے
کہ پیدا ہائے پھر انسان مر کر ہو نہیں سکتا
اب تقدیر کی اور خوبی سنو کہ جب میری ساس کا انتقال ہوا تو انور محل صاحبہ یعنی میری سوتیلی ساس نے صندوقوں اور کوٹھریوں کی کنجیاں میرے خاوند کے حوالے کر دیں۔
خاوند کی آوارگی اور مال کا لٹانا
اب میاں کا حال سنو کہ وہ صحبت بد میں مبتلا ہو کر عجیب ہواؤں میں بھرے ہوئے تو تھے ہی، ماں کی مال و متاع پر جو دست رس ہوا تو پھر کیا ٹھکانہ تھا۔ گھر میں آتے ہیں تو چتون بی بدلی ہوئی ہے۔ تیور ہی کچھ اور ہیں۔ یہ کوٹھری کھولی، جو جی چاہا، نکال لے گئے۔ نہ کسی سے صلاح نہ مشورہ۔ نہ پوچھنا نہ گچھنا۔ چار پانچ مکینوں، گھر کے نمک حرام چیلوں اور باہر کے بد معاشوں نے ایک سنگت بنا ان کو ورغلا لیا اور خوشامد کی باتیں بنا کر دمبازیوں پر چڑھا لیا۔ اب یہ صورت ہو گئی کہ آج پانسو روپیہ کی مرغی خرید لی اور کل دو سو روپیہ کا تیتر لے لیا۔ اسی طرح مرغ بازی اور تیتر بازی کے نقشے جم گئے اور لگی دولت اڑنے۔ گویا مال مفت دل بے رحم تھا۔ روپیہ زیور کنکر پتھر کر دیا۔ تیس بتیس ہزار روپیہ کا تو زیور میری ہی ذات کا تھا اور چالیس پچاس ہزار روپیہ کا اثاثہ اپنی ذات کا میری ساس چھوڑ کر مری تھیں۔ قریب اسی نوے ہزار روپیہ کے سب زیور سامان وغیرہ ہوگا۔ وہ یوں خاک میں ملنے لگا۔ بہتیرا خود سمجھایا، اوروں سے کہلوایا، مگر وہ کب سنتے تھے۔ آخر سب نے مل کر صلاح ٹھہرائی کہ نرمی سے کام نہیں چلتا، اب زبردستی ان سے یہ مال و اسباب اپنے حق میں لینا چاہیے۔ جب یہ صلاح ٹھہر گئی۔