جب ١٢١٨ھ اور ١٨٠٣ء میں سرکار انگریزی کی عمل داری دہلی میں ہو گئی تو نواب نجابت علی خاں نے جرنیل لارڈ لیک صاحب بہادر کی اطاعت قبول کر کے اپنی جاگیر سابقہ کی ایک سند حاصل کی۔ اس کے بعد جب ١٢١٩ھ مطابق ١٨٠٤ء میں انگریزی فوج جرنیل منسن صاحب بہادر کے ماتحت جسونت راؤ ہلکر کے دفعیے کے لیے روانہ ہوئی تو نواب نجابت علی خاں نے بھی پانسو سوار اپنے بہنوئی فیض طلب خاں صاحب کی سرداری میں جرنیل صاحب کے ساتھ کر دیے۔ اور سکندره کی گھاٹی کے مقام پر فوج ہلکر سے مقابلہ ہوا اور بڑے گھمسان کا رن پڑا۔ اس جنگ میں اگرچہ انگریزی فوج نے زک پائی اور ایک افسر بورکین صاحب مارا بھی گیا لیکن دادا فیض طلب خاں صاحب سے عجیب جواں مردی و ثابت قدمی و خیر خواہی ظاہر ہوئی۔ ان کا سارا بدن زخموں سے گل رنگ ہو گیا، بلکہ اسی حالت میں یہ فوج ہلکر میں پکڑے بھی گئے اور آخر کو محمد اعظم سردار ہلکر کی سفارش سے انھوں نے وہاں سے رہائی پائی۔ چنانچہ اسی کارگزاری و حسن خدمات کے صلے میں لارڈ لیک صاحب بہادر نے دادا فیض طلب خاں صاحب کو پاٹودی کا پرگنہ جاگیر کے طور پر عنایت فرمایا اور اس کی سند مرقومہ ٢٤ اکتوبر ١٨٠٤ء مطابق ١٩ رجب ١٢١٩ھ ان کو عطا ہوئی اور نواب نجابت علی خاں صاحب کو محالات جھجر و کانونڈ وغیرہ کی، جو لارڈ لیک صاحب بہادر نے دوسری سند ١٠ مارچ ١٨٠٦ء میں نسلاً بعد نسل مرحمت فرمائی۔ تاریخ جھجر والا لکھتا ہے کہ یہ فیض خاں صاحب کی جاں نثاری کا سبب تھا۔
فیض طلب خاں اور نجابت علی خاں کا اتفاق
نواب نجابت علی خاں صاحب مرحوم اور دادا فیض طلب خاں صاحب آپس کے حسن سلوک اور باہمی قرابت قریبہ و اتفاق ہونے کے سبب سے سرکار انگریزی سے عطیہ، ملک جداگانہ حاصل کرنے کے بعد بھی دونوں صاحب ایک ہی جگہ رہے اور اس نظر سے کہ نجابت علی خاں صاحب ایک سیدھے سادے سپاہی زادے تھے۔ انھیں ریاست کرنے کے کام میں زیادہ مداخلت نہ تھی۔ بس دونوں ریاستوں کا بندوبست و عزل و نصب فیض طلب خاں صاحب کے اختیار میں رہا۔
فیض طلب خاں صاحب کا دوسری شادی کرنا اور نواب محمد اکبر علی خاں صاحب کا پیدا ہونا
چند روز کے بعد ١٢٢٣ھ میں فیض طلب خاں صاحب کی زوجہ یعنی ہمشیرہ نواب نجابت علی خاں اس عالم فانی سے انتقال کر گئیں تو انھوں نے ١٢٢٤ھ میں الہ آباد کے ایک عالی خاندان سادات نیشاپوری میں حکیم میر عبد اللہ کی دختر یعنی لاڈو بیگم صاحبہ سے شادی کی۔ چنانچہ ان کے بطن سے ٢٥ شعبان ١٢٢٩ھ کو میرے ابا جان نواب محمد اکبر علی خاں صاحب پیدا ہوئے۔ سنا ہے کہ نواب فیض طلب خاں صاحب نے بڑی خوشی کی تھی اور ان کی چھٹی میں کئی لاکھ روپیہ صرف کیا تھا۔
نجابت علی خاں کا انتقال کرنا اور فیض طلب خاں کا علاحدہ ہونا
جب نجابت علی خاں صاحب نے ١٢٢٩ھ میں وفات پائی اور نواب فیض محمد خاں صاحب ریاست جھجر کے مسند نشیں ہوئے تو ان کے اور دادا فیض طلب خاں صاحب کے درمیان تنازع پیدا ہوا۔ اور آخر کار یہ ان سے آزردہ ہو کر اپنی ریاست گاہ یعنی پاٹودی چلے آئے اور پھر تادم زیست یہیں رہے۔
نواب فیض طلب خاں صاحب کے عادات اور وفات کا حال
نواب فیض طلب خاں صاحب فیاضی میں اسم با مسمی تھے۔ سخاوت، مروت، دوست پروری، نیک بختی، خوش اوقاتی کی صفتوں کے ساتھ موصوف تھے۔ ان کی سخاوت کا یہ حال سنا ہے کہ روزینہ معمولی خیرات کے علاوہ سو یا سوا سو روپیہ شب کو ہمیشہ ایک رومال میں باندھ کر اپنے پاس رکھ لیا کرتے اور علی الصباح محتاجوں کو تقسیم کرا دیتے تھے۔ اس کے سوا جاڑے کے موسم میں مسکینوں کو لحاف تقسیم کرتے تھے۔ اکثر غربیوں کی بن بیاہی بیٹیوں کی شادی کے سامان کے لیے روپیہ دیتے تھے۔ قدردان اور دوست پرور ایسے تھے کہ اپنے وفادار متعلقین کے ساتھ علاوہ تنخواہ ماہواری کے انعامات کا طریقہ بھی جاری رکھتے۔ خاص کر حکیم ثناء الله خاں مرحوم اور دریا خاں اور حکیم فتح اللہ خاں کرنیل شیخ منگلو جیسے عزت دار لوگوں کے ساتھ بڑی خاطر داری سے پیش آتے تھے اور ان سے ایسا برتاؤ برتتے تھے جیسا کوئی اپنے قرابتیوں کے ساتھ برتتا ہے۔ چنانچہ ان کی شادی غمی میں بذات خود جاتے تھے اور ہر ایک کے ساتھ ان کی حیثیت کے موافق وجہ نقد سے سلوک کرتے تھے۔ نیک بخت ایسے تھے کہ تمام عمر برے کام کے پاس نہیں پھٹکے۔ روزہ نماز کے ایسے پابند کہ کبھی قضا نہ کرتے۔ گورنمنٹ عالیہ سے عطیہ ملک حاصل کرنے کے بعد چھبیس برس ریاست کی۔ آخرکار بخار کے عارضے سے ١٢٤٥ھ میں عقبی کا سفر اختیار کیا اور روشن چراغ دہلی میں دفن ہوئے۔ جب دادا صاحب کا انتقال ہوا ہے تو اس وقت میرے ابا جان نواب محمد اکبر علی خاں صاحب مرحوم کی عمر پندرہ سولہ برس کی تھی جو مسند نشین ریاست ہوئے۔