وہ بڑ
کب کا صحرا کے سینے میں گُم ہو چکا ہے
مگر آج میں جانتا ہوں؍وہ میری ہی تصویر تھا؍میرا اوتار تھا؍میرا چہرہ تھا وہ
میں نے خود اُس کو بھیجا تھا؍اپنی طرف
اُسے خود بُلایا تھا اپنی طرف!
اور پھر۔۔۔ یوں ہُوا؍مَیں نے اِک بار پھر؍بَڑ کا بہروپ بدلا
خود اپنے ہی اندر سے باہر نکل کر؍وہاں، جس جگہ اب سے پہلے؍خُنک ریت کا ایک صحرا بچھا تھا
مَیں پتوں کا اِک تاج؍سر پر سجائے؍کھڑا ہو گیا
پھر مَیں
اپنے ہی چھتنار کی ٹھنڈی چھاؤں میں؍اپنی ہی ریشِ مبارک کے سائے میں
دھرتی کی مسند پہ؍تشریف فرما ہُوا؍
آلتی پالتی مار کر؍ایسے بیٹھا کہ جیسے ازل سے؍یہی میرا مسکن تھا
آنکھوں کو میچے؍مَیں اپنے ہی محور پہ؍گردش سی کرنے لگا
اپنے ’’ ہونے ‘‘ کے ٹوٹے ہوئے آئینے میں
خُود اپنے ہی منظر کو؍تکنے لگا!
(ڈاکٹروزیرآغا کی طویل نظم’’آدھی صدی کے بعد ‘‘سے اقتباس)