چشم ساقی سے طلب کر کے گلابی ڈورے دِل کے زَخموں کو کہیں بیٹھ کے سِی لیتا ہوں
ساغرِ مہہ تو بڑی چیز ہے اِک نعمت ہے اَشک بھی آنکھ میں بھر آئیں تو پِی لیتا ہوں
ذِکر جَب چِھڑ گیا اُن کی اَنگڑائی کا
”کبھی دِیکھی ہے اَنگڑائی“
میری نظر کو جنون کا پیام دِے ساقی میری حیات کو لَافانی شام دِے ساقی
یہ رُوز رُوز کا پینا مُجھے پسند نہیں کبھی نہ ہوش میں آؤں وہ جام دے ساقی
ذِکر جَب چِھڑ گیا اُن کی اَنگڑائی کا
شاخِ گُل جھوم کے گلزار میں سیدھی جو ہوئی کِچ گیا آنکھ میں نَقشہ تیری اَنگڑائی کا
اِس وَاسطے دَاماں چاک کیا شاید یہ جنون کام آ جائے
دِیوانہ سمجھ کر ہی اُن کے ہونٹوں پہ میرا نام آ جائے
اِے کاش ہماری قسمت میں اِیسی بھی کوئی شام آ جائے
اِک چاند فلک پر نکلا ہو اِک چاند لبِ بام آ جائے
ذِکرجب چِھٹر گیا اُن کی اَنگڑائی کا شاخ سے پھول یوں ٹوٹ کر یوں گر پڑے
جیسے دلہن کوئی پیار کی گود میں زندگی کی مزے لوٹ کر گر پڑے
مِیرے محبوب نے مُسکراتے ہوئے جب نِقاب اَپنے چہرے سے سِرکا دیا
چودھویں رات کا چاند شرما گیِا جِتنے تارے تھے سب ٹوٹ کر گِر پڑے
کیا بتاوں کہ مایوُس آنسُو میرے کس طرح ٹوٹ کر زیبِ دامان ہوئے
نرم بِستر پہ جیسے کوئی گُلبدن اَپنے محبوب سے روٹ کر گر پڑئے
حُسن والوں کی گَلیوں سے میت میری رَکھ کے اندھے پہ جِس دَم اٹھائی گئی
کَنگیاں گسیوں میں پھنسی رہ گئی آہینے ہاتھ سے چوٹ کر گِر پڑے