چشمِ ساقی سے طلب کر کے گلابی ڈورے دل کے زخموں کو کہیں بیٹھ کر سی لیتا ہوں
ساغرِ مہ تو بڑی چیز ہے اِک نعمت ہے اَشک بھی آنکھ میں بھر آہیں تو پی لیتا ہوں
ذکر جب چِھٹر گیا اُن کی انگڑائی کا
میری نظر کو جنون کا پیام دِے ساقی میری حیات کو لافانی شام دے ساقی
یہ روز روز کا پینا مجھے پَسند نہیں کبھی نہ ہوش میں آوُں وہ جام دے ساقی
ذِکر جب چِھٹر گیا اُنکی اَنگڑائی کا شاخ سے پھول یوں ٹوٹ کر یوں گر پڑے
جیسے دلہن کوئی پیار کی گود میں زندگی کی مزے لوٹ کر گر پڑے
ہوتی نہیں وفا تو جفا ہی کیا کرو تم بھی تو کوئی رسمِ محبت اَدا کرو
ہم تم پہ مر مِٹے تو یہ کِس کا قصور ہے آہینہ لے کے ہاتھ میں خود فیصلہ کرو
اَب اُن پہ کوئی بات کا ہوتا نہیں اَثر مِنت کَرو سوال کرو اِلتجا کرو
شرمندہ ہوں کہ موت بھی آتی نہیں مُجھے تم میرے لیے اَب تو کوئی بَدُعا کرو
بیٹھو نہ محفلوں میں زمانہ خراب ہے دِیکھو ہماری بات کَبھی سُن لِیا کرو
شَاید کبھی تو دیکھے گا وہ تم کو جھانک کر اُس کی گلی میں روز تماشا کیا کرو
حُسن والوں کی گَلیوں سے میت میری رَکھ کے کاندھے پہ جِس دَم اُٹھائی گئی
کَنگیاں گسیوں میں پھنسی رہ گئی آہینے ہاتھ سے چُوٹ کر گِر پڑے
مُجھ کو دِیوانہ سمجھتے ہیں تیرے شہر کے لوگ مِیرے دَامن سے اُلجھتے ہیں تیرے شہر کے لوگ
اور کِیا دُوں میں تُجھے اَپنی وفاوں کا ثبوت اَب میرے حال پہ ہنستے ہیں تیرے شہر کے لوگ
میں گیا وقت ہوں وَاپِس نہیں آنا والا کیوں میرا رَستہ تَکتے ہیں تیرے شہر کے لوگ
دل کی باتوں کو لَب پہ نہیں لاتے لِیکن مُجھ پِہ آواز تو کستے ہیں تیرے شہر کے لوگ
مِیرے محبوب نے مُسکراتے ہوئے جب نِقاب اَپنے چہرے سے سِرکا دیا
چودھویں رات کا چاند شرما گیِا جِتنے تارے تھے سب ٹوٹ کر گِر پڑے
تو نے میخانہ نگاہوں میں چُھپا رَکھا ہے ہوش والوں کو بھی دِیوانہ بنا رکھا ہے
ناز کیسے نہ کروں بندہ نوازی پہ تیری مجھ ناچیز کو جَب اَپنا بنا رَکھا ہے
ہر قدم سَجدے پہ صَد شُوق کیا کرتے ہیں ہم نے کعبہ تیرے کوچے میں بنا رکھا ہے
اِے میرے پردہ نشین تیری توجہ کے نثار میں نے دنیا سے تیرا عشق چھپا رکھا ہے
جو بھی غم مِلتا ہے سینے سے لگا لیتا ہوں میں نے ہر درد کو تقدیر بِنا رَکھا ہے
بخش کر آپ نے اِحساس کی دُولت مُجھ کو یہ بھی کیا کم ہے اِنسان بنا رکھا ہے
کیا بتاوں کہ مایوُس آنسُو میرے کس طرح ٹوٹ کر زیبِ دامان ہوئے
نرم بِستر پہ جیسے کوئی گُلبدن اَپنے محبوب سے روٹ کر گر پڑئے
اپنے چہرے پہ زُلفیں بکھیرے ہوئے حالِ دِل وہ مُجھ سے پُوچھنے آئے تھے
کِتنے لوگوں کی نیت میں بال آ گے کِتنے جام ہاتھ سے چھوٹ کر گِر پڑئے