مولانا عرفیؔ نے ایک جگہ اپنی شعر گوئی کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا ہے۔
از برون لب نہ دانم چوں شود لیک آگہم
کز تہہ دل تا لبم افسانہ در خوں مے رود
بسکہ خون آلودہ خیزد دود از شمع دلم
در ہوائے محفلم پروانہ در خوں مے رود
یعنی جو حرف مطلب میرے دل کی عمیق گہرائیوں سے اٹھ کر لبوں سے باہر نکلتا ہے، میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے اثرو فعالیت کی کیفیت کیا ہوتی ہے، کیونکہ اس کا معیار سننے والوں کے دل و دماغ ہیں، وہی بتا سکتے ہیں کہ ان پر کیا گزری۔ البتہ یہ جانتا ہوں وہ حرف مطلب دل سے اٹھتا ہے تو لب تک آتے آتے خون میں لت پت آتا ہے۔ میرے دل کی شمع سے جو دھواں اٹھتا ہے سراسرخون آلودہ ہوتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ میری مجلس کی فضا میں پروانہ رقص کرتا ہوا آتا ہے تو خون میں تیرتا آتا ہے۔ (غالب کی شاعری از مولانا غلام رسول مہر، نقوش، غالب نمبر ص ۶۲)
جاوید انور نے احساس کے ’کونوں کھدروں‘ کو منور کرنے والی روشنی کا جو دیپ قرطاسِ خیال کے طاق پر فروزاں کیا ہے اس کے اثر و فعالیت کی کیفیت سے شاید وہ اتنا آگاہ نہ ہوں کیوں کہ اس کا معیار پڑھنے والوں کے دل و دماغ ہیں اور وہی بتا سکتے ہیں کہ ان پر کیا گذری ہے لیکن ان کے خامۂ خونچکاں کے دشت وحشت کا سفر کرنے والے ان چھوٹے موٹے ’سوکھے برگدوں‘ میں سے ایک میں بھی ہوں جس کے ذوق قرأت کی سوکھی ڈار شجرسایہ دار کے لمس سے کچھ ’ہریائی‘ ہے۔ میرے دل و دماغ کا معیار کیا ہے میں اس سے آگاہ نہیں ہوں البتہ یہ ضرور ہے کہ برگد کے کئی افسانوں نے ’ہُم ہُم‘ کی یہی کیفیت پیدا کی ہے۔ حروف اگر فسانہ گرکے لب اظہار تک آتے آتے خون میں لت پت آئے ہیں تو حرف شناس بھی خون آلودہ حرفوں کے حلقۂ تموجِ معانی میں لہولہان داخل ہوا ہے۔ برگد، آخری گجرا، بھٹی، دشت وحشت، شیر اور نارسائی اسی قبیل کے ہیں جہاں حروف سیاہ کی زیر آب لہریں آپ کو جکڑ لیتی ہیں اور اس وقت تک حلقہ دام خیال میں رکھتی ہیں جب تک کہ کوئی خارجی طاقت دل و دماغ کے ریشوں میں موجزن فکری شرائین کے فشار کو توڑ کر متنی و معنوی حصار کی کشش سے ہم کنار و بے کنار نہیں کر دیتی ہے۔ برگد کے نرم دبیزسائے میں دہشت کے نمرودی رقص، دشت وحشت میں ماہ وش کی سامری آنکھوں میں جہاں گزیدگی کے توحش، آخری گجرا میں غربت زدہ ’شہزادے‘ کی ماضی و حال کو لمحہ جاودانی میں تحلیل کرنے کی تلافی مافات، بھٹی میں جبر و استبداد کی آگ کے خوف و خدشات، شیر میں شیروں کی روباہی اور نارسائی میں روح وصل کے نارسا ہونے کی ازلی خلش کو داستان گو نے یوں ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے کہ انفرادی و اجتماعی دونوں طور پر ہم ہی کردار اور ہم ہی کہانی نظر آتے ہیں۔
ہندوستانی فلم ساز سنجے لیلا بھنسالی نے ’دیوداس‘ کے تعلق سے ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا میں ہر شخص کے اندر ایک دیوداس بیٹھا ہوا ہے۔ جاوید انور کا افسانہ ’نارسائی‘ کچھ اور نہیں بلکہ ہم تمام لوگوں کے اندر موجود اداس و ملول دیوداس اور داسی کو خراج پیش کرنا اور تہہ خاک نفس کو محبت کی شرر خیز اذیت کی حرارت پہچانا ہے اور اس کے لئے انہوں نے جو تکنیک، پلاٹ اور زبان استعمال کی ہے وہ شعری موسیقیت، کیفیت اور انجذاب و تحلیل کی امکانی قوت سے لبریز ہے۔ اسکی قرأت نے غالبؔ کے ایک خط اور غزل کی یاد تازہ کروا دی ہے۔ غالبؔ نے ۱۸۵۲ میں یہ غزل ’سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں‘ منشی نبی بخش کو بھیجی اور خط میں لکھا ’بھائی! خدا کے واسطے اس غزل کی داد دینا، اگر ریختہ یہ ہے تو میرؔ و میرزاؔ کیا کہتے تھے اور وہ ریختہ تھا تو پھر یہ کیا ہے؟ ‘ غالبؔ کو اپنی اس غزل پر بہت ناز تھا اور در اصل یہ ایک قسم کا چیلنج بھی کہ اگر یہ غزل نہیں ہے تو پھر غزل کیا ہے۔ "نارسائی" کی قرأت ختم ہوتے ہی فوری طور پر غالب کا یہی خط ذہن میں گونج پڑا کہ اگر یہ افسانہ نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ یہ نظم نہیں، یہ نثر نہیں، یہ کیفیت کا وہ بادۂ ناب ہے جسے ’کچھ شعریت کی حد تک صوتی و لفظی آہنگ‘ کے کوزے میں کوزہ گر نے یوں پیش کر دیا ہے کہ اُسے دیکھنے والی ہر آنکھ سرِمژگاں وفات زدہ خوابوں کے پر افشاں قطرے محسوس کرتی ہے، انہیں قطروں میں حاصلی اور لا حاصلی کا جمال، جلال اور ملال زیست کرتی ہے اور جب وہی قطرے ٹپکتے، ڈھلتے اور لڑھکتے ہوئے لب و رخسار تک پہنچتے ہیں تو زندگی نئے عذاب، خواب اور ساخت کے ساتھ زیست کے بھنور میں واپس لا پٹختی ہے اور وہ کوزہ اچانک بیک وقت جام در دست اور جنازہ بردوش نظر آنے لگتا ہے۔ دل آزار، زیست بے زار، جہنم زار۔ یہاں کوزہ گری کمال کی اس سطح کو چھو لیتی ہے جہاں کوزہ گر اپنی صناعی پر خود فسوں زدہ ہوتا ہے، اور غالبؔ جیسے بے نیاز لوگ بھی کہہ بیٹھتے ہیں اگر یہ غزل نہیں ہے تو کیا ہے۔ سو یہ کوزہ گری، یہ شعریت، یہ فسوں اور آشفتہ بیانی ہی اصل وہ فسانہ ہے جو ’ما بعد جدید عہد‘ کا قاری پڑھنا اور جینا چاہتا ہے۔
’نارسائی‘ ابتدا سے انتہا تک سحرخیز، ملال انگیز، جمال آمیز ہے۔ یادوں کے محیطِ بے کراں میں کیفیت سے لبریز محاکات کی کشتیاں تیر رہی ہیں، دشت ملال ہے، تنہائی ہے، تیر نیم کش کی خلش ہے، ہر سو سراب ہے، تشنہ کاموں کو پانی نظر آ رہا ہے، سوختہ جانوں کو راکھ میں بجھی ہوئی چنگاری، لیکن سچ یہ ہے کہ کوئی سراب پانی نہیں، کوئی راکھ شرر نہیں، اصل کے زندان میں کوئی روزن نہیں، لا حاصلی کی کرچیاں ہیں، شجر افسوس کی ٹہنیاں ہیں اور ٹہنیاں بہت خاردار ہیں۔ ایک پر تمکنت خامشی ہے، ایک پر شکوہ زندگی تہہ خاک ہے اور صدیوں کا سفر طے کر کے اس کا معشوق اس سے ملنے آیا ہے۔ آپ تصور کیجئے کہ اس نے قبر کو دیکھا ہو گا، سلام کیا ہو گا اور اسے چھوا ہو گا اور جب چھوا ہو گا تو سلام کا جواب اپنے ریشوں اور خلیوں میں اترتا ہوا محسوس کیا ہو گا، اور یہ بھی سوچئے کہ اس نے جب سلام سنا ہو گا تواس کے دل پر کیا گذری ہو گی، جواب کیسے دیا ہو گا، مکالمے کی راہ کیسے ہموار ہوئی ہو گی۔ جب آپ تخلیق کار کی طرح دوران قرأت تخلیق کے عمل سے گزریں گے تو آپ کو محسوس ہو گا کہ افسانہ اندر ہے، افسانہ باہر ہے، افسانہ قبر میں ہے اور افسانہ ٹیکسی میں منتظر باجی میں ہے۔ ’نارسائی کا ایہ اقتباس ملاحظہ کریں ’’کوئی ذی روح نہیں تھا اس وسیع و عریض مقام وحشت پر، بس ہم دو تھے اور لامتناہی پھیلاؤ کا مظہر گہرا سکوت۔۔ ۔۔
۔۔ وہ دیکھو کون آیا ہے تمہیں لینے ۔۔ ۔ جھاڑ جھنکار ہٹاتے، بچتے بچاتے لمبی خود روگھاس کو روندتے وہ مجھ تک آ پہنچا۔۔ ۔
بابوجی! باجی کہہ رہی ہیں میں تھک گئی ہوں ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے۔ جہاز کا وقت نکلا جا رہا ہے۔ فاتحہ پڑھ لی ہے تو اب آ جائیں۔۔ ص ۶۴‘‘ ۔
اس ابتدا اور انتہا کے درمیان جو کچھ ہے وہ ہماری اور آپ کی ناگفتنی کی جاں سوز کیفیت ہے، ہماری اور آپ کی نارسائیوں کی اذیت ہے۔ تخلیق کار کے تخلیقی عمل میں قاری جب تک شریک نہیں ہو گا وہسے لذت کشید نہیں کر سکتا، افسانہ نگار نے ایک منظر کھینچ دیا ہے، ایک مکالمہ قائم کر دیا ہے، اس منظر کی گہرائی میں قدم بہ قدم اترنا قاری کا اپنا کام ہے جو جتنا اترسکے، جو جتنا اکسپلور کر سکے، قبر، اس میں دفن زندگی، دعا اور یادوں کے آباد خرابے کا سفر قاری کو بھی طے کرنا ہے، قاری کو سوچنا ہے کہ دعا کیا مانگی ہو گی۔ وہ آباد خرابہ کیسا رہا ہو گا جس کی یہ شہزادی کبھی مکین تھی اور پھر وہ دنیا کیسی رہی ہو گی جو سلام کا جواب دیتے وقت ایک لمحے کے لئے وجود میں آئی تھی۔ اب کس کی کتنی غلطی تھی یہ بھی آپ کو سوچنا ہے اور پھر یہ بھی سوچنا ہے کہ ’باجی تھک گئی ہیں ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے‘ ۔
جاوید انور کی نثر میں ایک الگ ہی ردھم، آہنگ اور لے ہے، کچھ ایسی مقناطیسی ردھم جو گاؤں اور شہر کی امتزاجی فضا میں جوان ہونے والی دھانی لڑکی کی شکر فشانی میں ہوتی ہے اور یہی ردھم ان کے تمام افسانوں میں موضوعاتی تنوع اور تقاضوں کے مطابق موجود ہے۔ نہ ایک خشت آگے اور نہ ہی ایک بالشت پیچھے۔ نثر میں شعریت، بیانیہ میں رمزیت، تخیل میں رفعت اور پیشکش میں تحیر و ندرت ان کے اندر ایک معیاری شعبدہ گر کی پوشیدگی کی اطلاع دیتی ہیں۔ کوئی بھی تخلیق مکمل نہیں ہوتی، وہ اپنے اندر ایک ایسا جوف رکھتی ہے جس میں ضعف، جھول اور سقم لاشعور کے راستے در آتا ہے اور چونکہ ناقد تخلیق کار کی طرح کسی ’لا شعور کے مرزغان و آتشدان میں قلم کی روشنائی کو آنچ نہیں دکھاتا ہے اس لئے وہ آسانی سے اس ضعف کو ڈھونڈ نکالتا ہے۔ جاوید انور کے میں بھی رطب ویابس اور حشو و زوائد موجود ہیں لیکن اس انگریزی مقولے کے مصداق Devil must be paid his due انہیں خوبصورت نثری سلاست کی کریڈٹ بہرصورت ملنی چاہئے کہ زمانۂ حال کے افسانہ نویسوں میں وہ نثری پختگی نظر نہیں آتی جو انہیں بڑے، معیاری یا نمائندہ افسانہ نگار بننے کی راہ پر گامزن کر سکے۔ جاوید انور نے اگر چہ حرفوں کی شکن کو دیر سے سنوارنا شروع کیا ہے لیکن کسی بھی زاویئے سے ایسا بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ ’برگد‘ ایک سال کی محنت شاقہ کا ثمر ہے۔ ان کے افسانوں کے مغتنمات میں نثری پختگی کے علاوہ جو وصف بہت نمایاں نظر آئے گی وہ ان کا منفرد مشاہداتی تعمق اور بات کہنے کا ڈھنگ ہے۔ ’لاخیرے شیروں‘ کی بے غیرتی پر مبنی افسانہ ’شیر‘ کا ایک اقتباس بطور حوالہ پیش ہے ’’اپنا باپ اس بوڑھے مردار بیل جیسا لگتاجس کی کھال اتار کرسیاہی مائل گلابی بدبو دار جسم جھگیوں سے پرے پھینک دیا گیا تھا۔۔ ۔۔ یک بارگی اسے ایسا لگا کہ مردار جسم اس کی ماں ہے جسے کتے اور مردار خور گدھ نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ جس کی ہڈیاں بھی بیچ کھائی جائیں گی۔ اسے شدت سے محسوس ہوا کہ اس کا باپ مردار کا وہ باقی ماندہ، غیر ہضم شدہ فضلہ ہے جو بستی کے بنجر کھیت میں پڑا رہ جاتا ہے اور اُبکائیاں لاتا ہے، تا آنکہ وہ مٹی میں مل کر ناپید ہو جائے۔ شیر ص ۶۵۔ ۶۶‘‘ ’سیاہی مائل گلابی بدبو دار جسم‘ توجہ کا حامل مشاہدہ نہیں ہے؟ یقیناً ہے۔ اسمیں مشاہدے کے علاوہ طنز کا نشتر بھی خوب ہے اور یہ خواتین کے ’فیمنزم‘ سے مرعوب و مستعارنہیں ہے بلکہ عورتوں کو امپاورڈ (خود مختار) کرنے اور کرانے کے لئے ان کے قلم کی طرف سے ادنیٰ کاوش و خراج ہے۔ اور جہاں تک بات کہنے کے ڈھنگ کا معاملہ ہے تو اس کی ایک مثال اوپر نارسائی میں پیش کر چکا ہوں کہ بات تین جملوں میں مکمل ہو جا رہی ہے لیکن پھر افسانہ ہے کیا؟ لفظوں کا فسوں، کلک کا جنوں، ابہام کی وحشت، متن کی چھت کہاں ہے؟ میں نے نئے آہنگ و فرہنگ پیش کرنے والی معاصرافسانہ نگار محترمہ فارحہ ارشد کے ایک خالصتاً پوسٹ ماڈرن ’ننگے ہاتھ‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا ’’کل کہانی یہی ہے کہ ایک لڑکی ہے جو تقدیسی مکدرات کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہے، وہ اپنے اس تعفن زدہ عائلی جبر سے آزاد ہونا چاہتی ہے اور آزاد ہو جاتی ہے۔ یہی بات اگر تین جملوں میں ادا کی جائے تو ’متن‘ ہے، تین سطروں میں بیان کی جائے تو ’کہانی‘ ہے اور تین ہزار الفاظ میں پیش کی جائے تو افسانہ ہے ۔۔ ۔ فسوں خیز، کیف آگیں، سحر انگیز۔‘‘ جاوید انور افسانوی فنی لوازمات کے ساتھ تین جملوں کو تین ہزار الفاظ میں تبدیل کرنے کے ہنر پر قدرت رکھتے ہیں۔ ایک اور مثال ’دشت وحشت‘ سے ملاحظہ کریں۔
’’میں اس گھسٹتی گاڑی میں کسی نوخیز، سانولی سلونی نمکین لیکن قبل از وقت مرجھائی مسلی سواری کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میں نے تصور کیا کہ وہ کھڑکی سے لگی چھوٹی سی انفرادی سیٹ پر سمٹی سرد شیشے سے ناک لگائے متجسس اداس نظروں سے شہر سے رینگ کر نکلتی مضافات سے گزرتی ریل گاڑی کی حرکت کی لاتعلق قیدی ہو گی۔۔ ۔۔ ۔
اس نے اپنے گہرے گندمی کمزور بازو کی کہنی کھڑکی سے اندر کر لی ہو گی اور بے وقت مرجھایا چہرہ بھی پیچھے ہٹا لیا ہو گا۔‘‘
ان محولہ بالا دو جملوں کے درمیان چار صفحات کا بعد ہے اور اس میں مصنف چھوٹی موٹی کئی اور کہانیاں بیان کر گئے ہیں جسے میٹافکشن کی شاندار مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ اوپر جن افسانوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان تمام افسانوں کے اندر فن کی لوازمات حسب تناسب و توازن موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ دیگر افسانوں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہو کر منصہ تسوید پر آئے ہیں اور ان میں بھی ’برگد‘ کو جاوید انور کا ’جف القلم‘ افسانہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ افسانہ اجتماعی کرافٹ پر ان کی مضبوط گرفت کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔ یہ کئی ناحیوں سے ایک مکمل اور بڑے کینوس کا افسانہ ہے جس میں زبان و بیان پر قدرت کے علاوہ، مشاہدات کی پہنائی اور میٹافکشن بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ برگد کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں ’’وقت کا دریا بہتا رہا، مدتیں گزر گئیں، بوڑھے آسیب زدہ برگد نے بھی کئی موسم دیکھے اور کئی سردوگرم جھیلے، اُلُّوؤں، چِیلوں، گِدھوں اور چمگادڑوں کی نئی نسلیں آباد ہوئیں۔ گاؤں میں کئی بار سن کے پیلے، السی کے نیلے اور سرسوں کے زرد پھول کھلے اور پھر سوکھ گئے‘‘ ۔
اب اگر یہ مشاہدہ منشی پریم چند اور احمد ندیم قاسمی کی یاد نہیں دلا رہا ہے تو پھر کیا ہے؟ اس کی اصل روح انتشار کی مرکزیت میں پنہاں ہے۔ ہر کردار اپنے آپ میں ایک افسانہ ہے اور پھر سارے کردار اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھتے ہوئے آخر میں ایک بڑے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔کی زبان، ڈکشن، جگہ بہ جگہ مقامی بولیوں اور محاوروں سے مزین جملے اجتماعی طور پر کھردرا پن کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔۔ ۔۔ غیر مسطح، ناہموار، اوبڑ کھابڑ مگر لہر دار اور بل کھاتی ہوئی، روانی اور بہاؤ کو روکتی ہوئی جو کہ ایک حسن بھی ہے اور ایک قبح بھی۔ اس ضمن میں آپ اسد محمد خان کی کہانیوں کو ملاحظہ کر سکتے ہیں جہاں roughness حسن بیان میں مخصوص اضافہ کر رہا ہے، وہ اپنے میں ان رفلڈ (Un-ruffled) جیسے کئی نامانوس الفاظ استعمال کرتے ہیں اور کوئی گراں بھی نہیں گذرتا، بیانیہ میں ایک وقتی رخنہ پڑتا ہے، قاری حیرت سے رکتا ہے، سوچتا ہے اور پھر مزید ارتکاز کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ ’برگد‘ میں بھی یہ ڈکشن ان لوگوں کو لئے ایک حسن ہے جو بیانیہ کی روایتی ساخت سے کچھ ہٹ کر زبان و بیان میں قدیم و جدید کا امتزاج چاہتے ہیں۔ سلمان رشدی نے ایک بار اپنی Chutnified English کے بارے میں کہا تھا کہ جن کو سمجھ میں نہیں آتی ہم ان کو سمجھانے نہیں جائیں گے، فرانسیسی اپنے غیر مروجہ الفاظ یا عام مقامی تعبیرات کو سمجھانے نہیں آتے اس لئے آپ کو بھی اگر ہماری مقامی تعبیرات کو سمجھنا ہے تو ہماری زبان سیکھیں۔ لہٰذا ’برگد‘ اپنی بُنت اور بیانیہ میں ہرچند کہ کچھ بوجھل ہے لیکن تہہ دار، قابل قرأت، سماع اور تحیر خیز ہے۔ برگد کی تفہیم آسان ہے لیکن اس کے گرد معنوی تعیین کا حصار قائم کرنا نہ صرف یہ کہ کچھ مشکل ہے بلکہ اس کی امکانی وسعت کو محدود کرنا ہے ۔میں برگد دو علامتی مفاہیم ادا کر رہا ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ ثمر دار ہے اور دوسرا یہ کہ ثمر دار نہیں ہے اور یہی تضاد و مغائرت برگد کو اس کے روایتی افہام و استعارے سے اوپر لے کر جاتی ہے اور یہ یکا معراج بھی ہے۔ کسی میں مثبت و منفی دو متوازی مفہوم پیدا کرنا آسان کام نہیں اور یہ کام مصنف نے برگد میں بہت آسانی سے کر دکھایا ہے۔
جیسا کہ اوپر میں لکھ چکا ہوں کہ جاوید انور کا قلمی سفر کوئی ایک ڈیڑھ سال پرانا ہے اور اس قلیل مدت میں موضوعات میں ندرت اور تنوع کو برقرار رکھتے ہوئے چودہ افسانوں اور تیرہ افسانچوں پر مبنی کتاب لانا کوئی آسان کام نہیں۔ بلاشبہ یہ کاوش زبردست تخلیقی وفور اور ارتکاز کا تقاضا کرتی ہے اور انہوں نے قارئین کو مایوس بھی نہیں کیا ہے لیکن ایک چیز کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہوئی ہے اور وہ ہے مزاحمتی رنگ کا فقدان۔ اس ’برگدی‘ قوسِ قزح میں اگر کوئی ایک رنگ مفقود ہے تو وہ مزاحمت کا رنگ ہے۔ شورش و اختلال سے پر معاشرے میں مزاحمتی رنگ کا نہ ہونا حیرت انگیز ہے خاص طور سے اس صورت میں کہ افسانہ نگار ایک سینئر بیوروکریٹ بھی ہیں اور اقتدار کے گلیاروں میں غربت و طاقت اور طبقاتی کشمکش کے جتنے رنگ انہوں نے دیکھے ہوں گے وہ صرف وہی جانتے ہوں گے۔ ’بھٹی‘ اس ضمن میں ایک عمدہ افسانہ ضرور ہے لیکن اس میں بھی مزاحمت کی اس آنچ کی کمی ہے جوکو ترفع عطا کرنے کے لئے لازمی ہے۔ یہ افسانہ طاقت و جبر کی ساخت پر مبنی ہے اور اس انسانی المیے کی رزمیہ داستان ہے جو ابتدائے آفرینش سے مقتدر اور غیر مقتدر کے درمیان کشاکش سے جاری ہے۔ مصنف نے ’بھٹی‘ میں موج کے دھارے کو یوں بل دیا ہے کہ زیر آب طغیانی نے مد و جزر کی صورت سب کچھ اتھل پتھل کر کے رکھ دیا ہے۔ سب کچھ اپنی جگہ پر ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے پرسکون سمندر کے مانند، بظاہر کوئی طغیانی نہیں ہے پھر اچانک ایک قتل ہوتا ہے اور زندگی کی بھٹی ہمیشہ کے لئے بجھ جاتی ہے۔ گاؤں کی دیہی پرسکون فضا میں پاور اسٹرکچر کو منعکس کرتا قدرے بہتر افسانہ ہے مگر جزئیات بالتفصیل اور جگہ جگہ غیر ضروری منظر نگاری نے اس کے حسن کو ماند کر دیا ہے۔ متن عمیق مشاہدے اور قلم پر افسانہ نگار کی گرفت کی غمازی ضرور کرتا ہے لیکن کرداروں کی کوئی خارجی و باطنی کشمکش نہیں، سماجی جدلیات کی کوئی کشاکش نہیں۔ رواں دواں، اکہرا، سپاٹ، مسطح اور ہموار۔۔ تہہ داری نہیں۔۔ افسانہ ’لہر دار‘ نہیں بن سکا اور نہ ہی فسوں خیز۔ جو چیز آخر میں یاد رہ جاتی ہے وہ سلامت کا قتل ہے اور یہ power tussle یا اسٹرگل کا اظہاریہ نہیں کیوں کہ قتل اس لڑکی کی وجہ سے ہوتا ہے جو گلی کے پار دور سرخ اینٹوں سے بنے مکان میں رہتی تھی اور لڑکی کی وجہ سے ہونے والا قتل پاور اسٹرگل کو ظاہر نہیں کر رہا ہے کیونکہ لڑکا اور اس کے والدین پسماندہ لوگ ہیں اور حصول طاقت و دولت کی خواہش کا کبھی کوئی اظہار نہیں ہوا ہے۔ متن ملاحظہ کریں ’’گرمیوں کی سہہ پر محمد علی گھڑے بھرنے کے بعد ہمیشہ تھوڑا سا پانی گھڑونچی کے نیچے اور اردگرد کی سلگتی زمین پر، جان بوجھ کر چھڑکتا، جس سے نمی کو ترسے کچے صحن سے مٹی کی مسحور کن خوشبو خارج ہو جاتی۔۔ ۔۔ محمد علی اور چھیداں کا آگ پانی کا یہ کھیل گاؤں کی رہتل میں یوں رچ بس گیا تھا کہ اس کے بغیر گاؤں کا تصور محال تھا۔ گویا آگ پانی کا یہ کھیل گاؤں کی زندگی کی علامت تھا۔‘‘ ص ۴۷‘‘ ۔ محمد علی سوکھی ماٹی کو زندہ کرنے والا کردار ہے اور اپنی چھوٹی سی کٹیا میں بہت مطمئن ہے لہٰذا سلامت کے قتل کو محبت کا مکافات کہہ سکتے ہیں سو یہاں بھی پاور اسٹرکچر یا پاور اسٹرگل ایک فیکٹر کے طور پر ابھر کر نہیں آ رہا ہے۔ غربت زدہ زندگی کو ختم کرنا چوہدریوں کے لئے کوئی مشکل فعل نہیں کیونکہ وہ ایسا کرتے آئے ہیں اور بات اگر چوہدری کی غیرت پر آ جائے تو پھر کسی کمی یا بہشتی کا زندہ رہنا نا ممکنات میں سے ہے۔ سلامت کا قتل اس بات پر نہیں ہوتا کہ اس کی سائیکل نئی ہے بلکہ اس بات پر ہوتا ہے کہ ’’سرخ اینٹوں سے بنے ڈیزائن والے چھدرے پردے کے پیچھے کوئی ہیولیٰ تیزی سے غائب ہو جاتا ہے‘‘ اب یہ گھر کس کا ہے؟ چوہدری کا نہیں ہے؟ وہ لڑکی چوہدری کی بیٹی نہیں ہے؟ ٹریکٹر اور ٹرالی چوہدری کی ہے جس پر لاش لائی گئی ہے اس لئے متن ہمیں چوہدری کی غیرت نفس کی طرف لے جاتا ہے اور غیرت نفس کی بنیاد پر قتل ایک عام بات ہے۔ یہاں جبر جبر نظر نہیں آ رہا ہے بلکہ یہ ایک فیشن ہے، ہاں اگر اس کا قتل چھوٹے موٹے کسانوں کے بیٹوں نے حسد اور نفرت میں کیا ہوتا توافسانہ اپنے کینوس میں مزید وسیع ہو جاتا کہ چوہدریوں کے اندر چوہدری پیدا ہو چکے ہیں یعنی کہ فورس ودھن فورس (Force within force) طاقت کے اندر طاقت کا اظہاریہ۔ یہ کی مجموعی ادبی فضا ہے جو متن کے روزن سے چھن چھن کر نمودار ہو رہی ہے۔ مذکورہ بالا اعتراضات و اشکالات کے باوجود (جو کہ غلط بھی ہو سکتے ہیں)افسانہ اچھا ہے۔ گاؤں کے خاموش اور پر سکون تالاب میں اچانک کوئی پتھر پھینک دے تو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ جاوید انور صاحب اس نکتے کو بیان کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور یہی کل افسانہ ہے ۔۔ ۔۔ ۔ پر سکون تالاب میں ایک پتھر سے پیدا ہونے والا ’’مد و جزر‘‘ ۔
جاوید انور نے افسانوں کے علاوہ ۱۳ علامتی اور نیم علامتی افسانچے بھی لکھے ہیں جن میں گنجینہ معنی کا طلسم بھی موجود ہے اور ابہام کا حسن بھی۔ دلھن، روئے سخن، آخری بار، راجہ اور راطوطا صاحب یوں تو کہنے کو افسانچے ہیں لیکن معنوی حجم کے اعتبار سے مکمل کا لطف دیتے ہیں۔ کہانی کے پیرہن کے دھاگوں کو ادھیڑ کرکی زنجیر بننے کی قدرت تامہ انہیں ’یار جلا ہوں‘ کی فہرست میں داخل کر سکتی ہے۔ مجموعی طور سے جاوید انور افسانوی دنیا میں ایک بہترین اضافہ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اگر حرفوں کے شکن کو سنوارنے کا سلسلہ مزاولت کے ساتھ جاری رہا تو اب کچھ وہ بھی پڑھنے کو ملیں گے جنہیں ہم روایتوں سے تحیر کن انحراف کے طور پر تعبیر کرتے ہیں۔ میں غالبؔ کے ایک قصیدے کے ان اشعار کے ساتھ اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا
فکر میری گہر اندوز اشارات کثیر
کلک میری رقم آموز عبارات قلیل
میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدق توضیح
میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل
(غالب)
محمد ہاشم خان (ممبئی)