نقش گرو فسوں ساز و فسوں گو جاوید انور صاحب کے ہاں پُرکار و خیال آفریں حکایت اپنی تمام تر ہمہ گیری اور خوبی کے ساتھ طلائی کی صورت جلوہ گر ہو جاتی ہے۔ ان کے میں تجربہ، مشاہدہ اور تخیل بیک وقت پوری طرح کارفرما نظر آتے ہیں۔ جاوید انور صاحب کے ہاں دو خوبیاں دیگر خوبیوں سے ممتاز ہیں۔ اولاً موضوعاتی تنوع، ثانیاً حقیقی زندگی کا مشاہدہ، اِدراک اور پُر پیچ و پُر تاثیر اظہار۔ جب کبھی پنڈال ادب میں سکوتِ مرگ طاری ہونے لگتا ہے تو کسی ایک جانب سے غلغلہ بلند ہوتا ہے اور کوئی فن کار اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ آ موجود ہوتا ہے۔ جاوید انور متاثر کن خوبی کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور حیران کر گئے ہیں۔ ان کے ہاں کہانی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ پہلے وہ کہاں تھے اور کس گوشے میں خاموشی سے کوزہ گری میں مصروف تھے، وہی جانیں۔
گھنے برگد کے درخت کا حقیقی و علامتی اظہار ہو، بند مٹھی کے کھلنے کی طرح کھلتی کہانی ہو، دیہات و قصبات کی دھول اڑاتی گلیوں میں دوڑتی بھاگتی حکایت ہو یا شہر کے متوسط طبقے کی خواب گاہوں کی مسہریوں پر دیر تلک نیند کرتا فسانہ ہو، آخری جملے تک اپنا جوبن چھپاتی نارسائی کی کہانی ہو، اپنے آپ کو پیرِ دانا سمجھتا پیرِ فرتوت ہو یا جدید روایت کے مطابق مختصر مختصر دو مونہی قصے ہوں، تمام تر عجیب و رنگین مخلوقات اس سرسبز و شاداب گھنیرے جنگل میں بسرام کرتی ہیں۔
بہ قول کسے ’’الہامی زبان فقط آسمانی صحیفوں میں نہیں بلکہ درختوں، پھولوں، بادلوں اور ستاروں پر بھی نقش ہے ۔‘‘ مصنف کی قدرت کے عناصر سے محبت اسی حقیقت کی غماز ہے۔ اُن کے ہاں حیرت زندہ ہے اور وہ یہ حیرت اپنے افسانوں کے ذریعے قاری تک منتقل کر کے اُسے صرف لطف سے ہم کنار نہیں کرتے بلکہ فکر کا سامان بھی مہیا کرتے ہیں۔ اُن کے نسبتاً طویل افسانے، مختصر افسانوں سے بڑھ کر ہیں۔ گویا وہ اپنی خوبیِ بیاں کو فصاحت اور طوالت میں بہتر بروئے کار لاتے ہیں۔
اُن کے ہاں کئی جملے حوالہ جات (کوٹیشن) کی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں۔
’’وقت ایک بدمست لہریں مارتا دریا ہے۔ بے پروا اور منہ زور۔ دائیں بائیں کاندھے مارتا گزرتا ہی چلا جاتا ہے ۔‘‘
’’انسان کبھی ایذا جھیل کر مزہ لیتا ہے اور کبھی ایذا رسانی سے ۔‘‘
’’میں نے اطمینان سے منطقی سگریٹ سُلگا کر نفسیاتی کش لگایا اور علامتی دھواں تجریدی مرغولوں میں بدل دیا۔‘‘
ایسے بے شمار جملے کرسمس ٹری پر ٹنکے ہیں۔
زندگی کی بوالعجبیوں، انسانی فطرت کی نیرنگیوں، ماحول کے تنّوع اور فسوں گری کے عوامل پر گہری نظر رکھنے والے جاوید انور صاحب سے اُمید اور درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنی جولانیِ قلم کو قائم رکھیں۔
عرفان جاوید
۱۲ مارچ ۲۰۱۷ء