برگد پہ محو خواب ہیں سو رنگ کے طیور
جاوید انورسے بالمشافہ ملاقات نہیں ہے مگر پچھلے چند روز سے میں ان کے افسانوی کرداروں کی صحبت میں ہوں۔ اِس طرح میری ان سے بھی شناسائی ہونے لگی ہے۔ اِن کی کہانیوں سے متعارف ہوتے ہوئے، جاوید انور سے باقاعدہ ملاقات کا تجسس اور اشتیاق بڑھ گیا ہے۔ تخلیق سے خالق تک رسائی کا سبب میری حیرت ہے۔ جاوید صاحب کے بارے میں یہی علم ہوا ہے کہ اِن کی یہ کہانیاں پہلی بار شائع ہو رہی ہیں گویا وہ نئے لکھنے والے ہیں۔ میری حیرت یہی ہے کہ کیا کوئی نیا لکھنے والا، اِس قدر گہرا مشاہدہ، تجسّس اور برجستگی کا حامل ہو سکتا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ کہانی بھی ایک جوہری مادے کی طرح ہوتی ہے، بظاہر اَن دیکھا مگر انتہائی قوت آمیز۔ اِس کا معمولی لَمس بھی ذہن پر گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ کہانی لکھنے والے کے ذہن پر خیال کی صورت نازل ہوتی ہے، کبھی یہ خیال بالکل معدوم ہوتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی قطعی واضح اور نمایاں، بعض اوقات تو یہی خیال کئی دیگر واقعات و تصورات سے مَس ہو کر ’اَنہونے‘ موضوع کی صورت دمکنے لگتا ہے۔
بلاشبہ خیال عطا ہے۔ ہمارے اردگرد، معاشرہ کتنے ہی متنوع رنگوں میں دِکھائی دیتا ہے۔ آس پاس کے لوگ، ان کے روّیے، احساسات و جذبات، محبت، نفرت، تعصب، حسد بغض اور اخلاقی اوصاف سے مزین کردار ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ انہی میں سے بعض کردار’ان مٹ‘ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔
جاوید انورکو اللہ ربّ العزت نے وہ نظر عطا کی ہے جو گہرائی میں اُتر کر نتائج اخذ کرتی ہے۔ ان کا مشاہدہ گہرا اور دل شدتِ احساس سے معمور ہے۔ وہ معمولی سے واقعے کو بھی فن پارہ بنانے کے ہنر سے آشنا ہیں۔ تبھی تو یقین نہیں آتا کہ یہ کہانیاں کسی نئے لکھاری کی تخلیق کردہ ہیں۔ میرا ذاتی قیاس یہ ہے کہ وہ لکھنے میں نو آموزہر گز نہیں بلکہ اُن کی ’تخلیقات‘ تاخیر سے منظر عام پر آ رہی ہیں۔ ممکن ہے وہ مدت سے لکھ رہے ہوں مگر انہیں شائع کرانے کا خیال ہی نہ آیا ہو یا پھر روزمرّہ مصروفیات کے سبب ادھر توجہ ہی نہ دے سکے ہوں۔
جاوید انور کی کہانیاں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ان کی بنیادی محبت، زمین ہے۔ وہ زماں سے زیادہ زمین سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے ہاں انسانی زندگی کے چھوٹے بڑے ہنگامہ خیز واقعات، کہانی کا روپ دھار لیتے ہیں۔ اُن کی کہانیوں کے کرداروں میں ایک رنگارنگی اور بوقلمونی، ان کی کہانیوں کو قوس قزح بنائے ہوئے ہے۔
موضوعاتی اور اسلوبیاتی، دونوں سطحوں پر ان کے افسانوں میں وسعت اور کشادگی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اُن کا فن بظاہر معمولی دکھائی دینے والے واقعات کی گہرائی میں اتر کر، غیر معمولی پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے لیکن یہ غیر معمولی پہلو، بعید از قیاس ہرگز نہیں ہوتے۔ ان کے ہاں دیہی معاشرت کے وہ گہرے نقوش نمایاں نظر آتے ہیں جو ہماری تہذیبی و ثقافتی خلفشار کا نمونہ دکھائی دیتے ہیں۔ ’’برگد‘‘ کے تقریباً سبھیان کی فنی چابکدستی اور مہارت کا بہترین نمونہ ہیں۔ قاری کہانی کے ساتھ ساتھ اس کے کرداروں کی زبان اور جملوں سے بھی لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ’’برگد‘‘ کے ایک کردار ’گاماں میراثن‘ کا حلیہ ملاحظہ کیجئے :
’’گاماں میراثن کا نام جس نے بھی غلام بی بی رکھا ہو گا اس نے زیادہ غور و فکر نہیں کیا ہو گا۔ اس کی ملاحت، گھڑی گھڑائی شکل، سیاہی مائل پتلے ہونٹ، تُرشی ہوئی سُتواں ناک اور شبِ دیجور کا جمالیاتی اسرار لیے بڑی بڑی شرارتی آنکھیں غلاموں کی سی نہیں تھیں۔ اس کی تیکھی سلونی ناک پر دمکتا چاندی کا کوکا کسی مہکتی سُرمئی شام میں اظہار کے طالب اوّلین ستارے جیسا ہی تھا۔ وہ جب جوانی کی دہلیز پر پہنچی تو کسَی ہوئی کمان نکلی۔‘‘
آگے چل کر وہ لکھتے ہیں:
’’جب بھی وہ اٹھکیلیاں کرتی، آدھی چلتی آدھی اڑتی، رنگیلی بڑی بیٹھک کے سامنے سے گزرتی تو جان بوجھ کر چوری سے اُدھر دیکھتی۔ اچھو سے ٹاکرا ہوتا تو انجانی خوشیاں برقی رو بن کر اس کے جُثے میں کوند جاتیں۔ اس کا رُواں رُواں بج اُٹھتا اور وہ خود کو لال سائیں کے اکتارے کی کسی ہوئی تار محسوس کرتی جو انگلی کے ایک اِشارے کی منتظر کہ مَس ہو اور سُر بکھیرنے لگے ۔‘‘
عزیز قارئین! آپ جاوید انور کی یہ کہانیاں پڑھ کر دیکھیں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ اِن کہانیوں کے مختلف کرداروں کے نین نقش، ایک خاص اسلوب میں دل پر نقش ہونے لگتے ہیں۔ ان کے ہاں احساس کی دھیمی آنچ میں پکی ہوئی، سلاست و سادگی سے مرقّع کہانیاں ماحول اور کردار کی مطابقت میں رچی بسی نظر آتی ہیں۔
’’یہ کوئی بڑی ملاقات نہیں تھی کوئی خاص تعارف نہیں تھا لیکن جانے کیوں فرخ کو ایسا لگا کہ جب اس کی سیاہ کرولا ٹاور سے نکل کر دائیں مڑی تو اس کے جسم اور روح کا کوئی حصہ بائیں مڑ گیا۔‘‘
بعض کہانیوں میں پنجاب کے دیہی ماحول کی جھلکیاں بھی متاثر کرتی ہیں۔
’’وہ چاچے کی بیلوں کو مارنے والی چھڑی کی ہر ضرب پر پنجابی میں دُہائی دے رہی تھی
’’وے اوتریا نکھتریا! کھسماںنوں کھانیاں میرے تے ظلم نہ کر، مینوں نہ مار۔ اے تیری وی جمی ہوئی اے‘‘ ۔ (غرض)
’’چھیداں کی بھٹی کی رونق گاؤں کی مٹیاروں اور چھوٹے بچوں کے لیے شام کے معمولات میں اہم حیثیت رکھتی تھی۔ مکی، چنے، گندم، جَو، چاول، مسور غرضیکہ جو بھی غلہ لایا جاتا، چھیداں کی بھٹی کو قبول ہوتا۔ کڑاہی کی گرم ریت میں بھن کر جو سوندھی خوشبو پھیلتی تو گاؤں کا ایک چوتھائی مشرقی حصہ مہک جاتا‘‘ ۔ (بھٹی)
میں جان بوجھ کر کہانیوں کے مرکزی خیال کی بجائے ان کے منظر نامے کے مختصر اقتباس پیش کر رہا ہوں تاکہ قاری خود کہانی تک پہنچ کر حظ اُٹھا سکے۔
جاوید انور کے منظر نامے، کرداروں کی زبان اور اسلوب قاری کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے اور وہ دیر تک مصنف کے مشاہدے اور گہری نظر پر حیران رہ جاتا ہے۔ ان کی ایک کہانی ڈیبیٹ کا ایک جملہ ملاحظہ ہو:
’’لڑکیوں کے دھو کر، بالکونیوں میں سکھانے کے لیے لٹکائے کپڑوں میں کئی مردانہ دل ٹنگے رہتے۔ تفریحی دورے اور گانوں کے کورس کبھی الوداع نہ کہنا۔‘‘
آپ نے جاوید انور کو شاید زیادہ ادبی رسائل و جرائد میں نہ پڑھا ہو مگر ان کے شعری مجموعے کے بعد ان کی کہانیوں کا یہ پہلا مجموعہ ’’برگد‘‘ قارئین کی توجہ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو گا۔
آئیے اور برگد کے نیچے بکھری کہانیوں میں کھو جائیے بقول بیدل حیدری:
؎ برگد پہ محو خواب ہیں سو رنگ کے طیور
آہستہ بول پنکھ نہ لگ جائیں رات کو
ڈاکٹر اختر شمارؔ
۳مارچ ۲۰۱۷