آج پھر سونے کے لئے لیٹا تو اس کی آنکھوں کے سامنے رنگین پھول، رنگ برنگے کم یاب پرندے، بھانت بھانت کے جنگلی جانور، دیہاتی لمبی کچی سڑک کو گھیرتے سفید پھولوں کے پھندنے نکالتے سرکنڈوں کی اُفق تک جاتی قطاریں، دھریک، نیم، شیشم کے جھنڈ، بَڑ کے گھیر دار درخت اور پیپل کے کھڑکھڑاتے پتے گھوم گئے۔ یہ منظر اسے سونے سے پہلے نیم غنودگی ہی میں نظر آنا شروع ہو جاتے اور گہری نیند کے غاروں میں ساتھ بھٹکا تے، جانے کب اس سے بچھڑتے اور خواب ہی میں پھر آ ملتے۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھ کھل جاتی اور وہ رنگین اور کیف آور خواب کی مادی شکلیں تلاش کرنے نکل پڑتا۔
اچانک اس کی سوچ بھٹکی اور وہ رنگین سراپا اس کی بند آنکھوں کے سامنے لہرایا جو اِن سب مناظر کا ماخذ تھا۔
کیا ذہن ہو گا جو یہ انتخاب کرتا ہو گا؟ کس کے قلب پر یہ وارداتیں اترتی ہوں گی۔ کیسا حساس دماغ یہ داستانیں بنتا ہو گا۔ کیسی نگارشات ہوا کے دوش پر پارس بنی کس کس محبوب کی نظروں سے مس ہوتی سنہری روپہلی دھنک بنتی ہوں گی۔
کیا حس جمال ہو گی، کیا کسب کمال ہو گا؟
یہ سلسلہ کوئی چھ مہینے قبل شروع ہوا، جب ایک دن فرینڈز ریکویسٹ میں اسے ایک شکل نظر آئی اور ساتھ ہی ایک دلکش سا نام۔ شارقہ کمال۔
شارقہ نام اُسے یونیورسٹی ہی کے دنوں سے پسند تھا، جس کی کچھ وجوہات تھیں۔ نیم پوشیدہ، کالے سیاہ بالوں میں سے جھانکتے سفید گلابی چہرے کی چاند ٹکیا اور آگ لگاتا گہرا سرخ لباس۔ چُن چُن کے وہ ساری ترکیبیں جو کبھی اس نے چاہی تھیں کسی نے سمیٹ کر لا حاضر کیں۔ اس نے پیج کھولا تو بابا فرید کی شاعری کے سلیقے اور ذوق سے بنائے گئے نفیس کارڈ، میاں محمد کی آفاقی شاعری، غالب، فیض، فراز اور محسن نقوی کے علاوہ پروین شاکر، امرتا پریتم کی شاعری کے منتخب پارے اور کہیں کہیں انگریزی زبان کے چیدہ چنیدہ مفکرین کے اقوال کا تڑکا۔
اغلاط تھیں، لیکن ان کا تو فیس بک پہ رواج ہے اور کوئی خاص برا نہیں مناتا۔ اکثر نالائقی بھی ’ٹائپو‘ کے زمرے میں چھپ جاتی ہے۔ موسیقی کا انتخاب بھی ملا جلا تھا۔ تصوف، رومان، فلسفہ، ادب عالیہ، روایت، تہذیب و تمدن، رنگ و نور کا عجیب، دلچسپ، دل پذیر اور ہوش ربا مرقع تھا، جو دل کو کھینچ کھینچ لیتا۔
شکیل اپنے معاشرتی رُتبہ کے طفیل سو میں سے شاید ایک آدھ فرینڈز ریکویسٹ ہی قبول کر کے اپنی فہرست میں شامل کرتا۔ اس کی فرینڈز لسٹ ہمیشہ پانچ ہزار دوستوں کی آخری حد کو پہنچ چکی ہوتی۔ اشد ضرورت کی صورت میں نظر ثانی کر کے، زیادہ تر صنف قوی کے نسبتاًکم پسندیدہ لوگوں کو فارغ کر کے ہی کوئی جگہ پیدا کی جاتی۔ یہ ریکویسٹ اسے ایسی بھائی کہ جو بھی پہلی آئی۔ ڈی نظر آئی اسے فارغ کر کے گنجائش پیدا کی اور بڑی سرعت کے ساتھ کلک سے ریکویسٹ کو فرینڈ میں ڈھالا، مبادا دوسری طرف ارادہ بدلنے سے ریکویسٹ غائب ہی نہ ہو جائے، اور پھر سلسلہ چل نکلا۔ تعارف ہوا۔ اشتیاق کا اظہار ہوا۔ دبی دبی الفت در آئی جو جھجھک جھجھک کر گاڑھی محبت میں ڈھلنے لگی۔ تصویریں، گانے اشعار اور ’سمائلیز‘ کے دورے زیادہ تر براہ راست سیدھے دلوں تک ابلاغ پاتے۔
فوک تو سیدھا روح کی گہرائیوں میں اتر جاتا۔ بولنے کی ضرورت شاذ ہی پیش آتی کہ جب روح لبیک کہتی ہے تو واسطے ثانوی حیثیت پاتے ہیں۔ گلابوں کے تحفے صبح، سورج کے متنوع استعارے دوپہر اور ڈھلتی شام کے سرمئی اِشارئیے شام ڈھلے رومان کو بلندیوں کی انتہائی سطح تک لے جاتے۔ اس کی نئی سیاہ آٹومیٹک کر ولا جب ڈیفنس کی وسیع اور ہموار سڑکوں پر تیرتی تو بھی وہ شارقہ کی بھیجی گئی فوک دھنوں میں غرق ہوتا، حتیٰ کہ دفتر میں بھی جب فرصت ملتی، تحفہ میں بھیجا گیا کوئی انمول بھولا بسرا گیت ہی اس کو تازہ دم کر کے نئی آسائنمنٹ کے لئے مستعد کرتا۔
شارقہ شاذ ہی لکھتی اور جو لکھتی وہ بھی شکستہ رومن اردو میں۔ پیغامات انتہائی کم آتے جاتے۔ زیادہ تر شاعری، مصوری اور موسیقی ہی ذریعہ اظہار ہوتے۔ شارقہ کا لکھا مختصر ہوتا اور بیچ میں ہجے غائب، لیکن مفہوم ادا ہو ہی جاتا۔
لاکھ کوشش کے باوجود نہ تو وہ ٹیلی فون پر بات کرنے پر آمادہ ہوتی نہ ملاقات پر۔ یہ رویہ جہاں شکیل کے لئے جھُنجھلاہٹ کا باعث بنتا وہیں تجسس اور رومانویت کو مہمیز کرتا۔
ایک دن بڑے اصرار پر شارقہ نے بتایا کہ اس کا فون، جس پر وہ محبت نامے ٹائپ کرنے کی کوشش کرتی ہے، ہجے مس کرتا ہے۔ اس کی سالگرہ قریب تھی۔ بڑا اچھا موقع تھا۔ شکیل، جس کے پاس پیسے کی کمی نہیں تھی اور جس کے دل و دماغ ہی نہیں روح پربھی شارقہ قابض تھی اسے کسی طور حیران اور خوش کر دینا چاہتا تھا۔ اس نے با توں باتوں میں شارقہ کے چھوٹے چچا زاد بھائی، جس سے وہ مانوس تھی اور اس کے بقول جو اُس کا ہمراز تھا، کا پتہ لیا، جو اسی شہر کے ایک پرائیویٹ ’’چھڑا ہاسٹل‘‘ کا تھا اور جدید ترین ماڈل کا آئی فون خرید کر کورئیر سے بھجوا دیا۔
ڈبل کور کے اندر خوشخط لکھا تھا،
’’شارقہ کے لئے۔ محبت سے، سترھویں سالگرہ مبارک‘‘ ۔
اور باہر کے کور پر تھا، ’’پرائیویٹ۔ صرف مس شارقہ ہی کھولیں‘‘ ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کھچی والا کے چک بیالیس کے کچے ٹوبے میں پانی سڑ بس رہا تھا۔ گہری سبز کائی نے اک تہہ جما کر پورے ٹوبے کا رنگ سبز کیا ہوا تھا، ماسوائے ان جگہوں کے جہاں بھینسیں بیٹھی جگالی کر کے جھاگ بنا رہی تھیں۔ ششماہی نہر بندی کی وجہ سے چالیس دن سے پانی نہیں آیا تھا۔ جانوروں اور پیاسی ریت کے پی جانے سے باقی ماندہ پانی بس ٹوبے کے نصف تک ہی رہ گیا تھا۔ پانی کے سکڑنے سے اُس کی سطح پر تیرتی کائی اکٹھی ہو کر بڑی دبیز اور گہری سبز ہو گئی تھی۔ ہلکے سبز پتوں سے لدے شیشم کے اُونچے درخت ٹوبے کے اندر کی طرف جھکے جیسے پانی میں جھانک رہے تھے۔ گرے ہوئے پتوں اور کائی نے ریاست بہاولپور کی بھون دینے والی گرم دھوپ کی آگ سے کڑھ کے جیسے بچے کھچے پانی کو سبز رنگ کا بدبو دار گاڑھا جوشاندہ بنا دیا تھا۔ کالی اور بھوری بھینسیں جھکے ہوئے شیشم کے چھدرے سائے کے آسرے پر اس گرم جھلستی دوپہر میں سبز گاڑھے گرم پانی میں ابل رہی تھیں۔ تھوڑے فاصلے پر سرخ اینٹوں سے بنا ایک دوسرا ٹوبہ تھا جہاں سے چک بیالیس کے جٹ، آرائیں اور باقی برادریوں کے لوگ ریت ملا پانی لے جا کر، ابال کر، پھٹکری ڈال کر مٹی کے گھڑوں اور صراحیوں میں بھر کر ٹھنڈا کر کے پیتے تھے، معدودے چند آسودہ حال گھروں کے جہاں ریفریجریٹر آ چکے تھے۔ جانوروں والے ٹوبے میں ستر دین دیندار کا خارش زدہ بیمار بھورا کتا پرسوں ڈوب کر مر گیا تھا، جس کی لاش نکال کر قریبی کھیت کی مینڈھ کی اوٹ میں کپاس کے کٹے ہوئے سوکھے پودوں کے ڈھیر کے پاس پھینک دی گئی تھی۔ اس کی سڑتی لاش کی تیز بو ٹوبے تک آ رہی تھی۔ اچانک چند بھینسیں ہانپتے ہوئے، زور لگا کر، گرم پانی سے باہر نکلیں اور قریبی کھیت میں لوسن کے نرم سبز پتوں اور نیلے پھولوں کی اشتہا انگیز خوشبو کے پیچھے بھاگ پڑیں۔ جھکے ہوئے شیشم کے بڑے درخت کے دو ٹہنوں کے بیچ ایک کالا بھجنگ نوجوان مردانہ جسم، جس کے پسینے سے گیلے اور میل میں بسے غلیظ گرمی دانے کچھ دور سے دیکھنے ہی سے بد بو اور کراہت پیدا کر رہے تھے، صرف جانگیہ پہنے، ٹنگا تھا۔ ایک بالکل اسی ہیئت اور حلیے کا شاہکار کھجور کے خشک پتوں سے بنی چٹائی پر ایک دوسرے درخت کے نیچے الٹا لیٹ کر ٹانگیں آسمان کی طرف اٹھائے، ایک تال کے ساتھ مسلسل ہلا کر اپنے کولہوں تک لا کر پھر واپس لے جا رہا تھا۔
بھینسوں کو کھیتوں کی طرف دوڑ لگاتے دیکھ کر شیشم سوار بھوت نے اپنے زیریں ہمزاد کو ایک کریہہ آواز میں للکارا،
’’او سلامتے!
ذرا بھینسوں کو موڑا لگانا۔
میں آئی فون والے بابو کو ’’کٹ پیسٹ‘‘ کر لُوں‘‘ ۔
٭٭٭