آج پھر میں نے اسے ڈیبیٹ کا چیلنج دیا تو طرَح دے گئی۔
’’تم کبھی کسی ڈیبیٹ میں مجھ سے جیت نہ پاؤ گی‘‘ ۔
یونیورسٹی میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کی سرخ اینٹوں سے بنی سیڑھیوں پر بیٹھے میں نے اسے کہہ تو دیا، لیکن یقین مجھے بھی نہیں تھا کہ میں سچ بول رہا ہوں۔
یہ سیڑھیاں ہماری ہی نہیں سب ڈیپارٹمنٹ والوں کی پسندیدہ جگہ تھی۔ یہیں بیٹھ کر ہم اپنے سامنے سے گزر کر جاتے کیمیکل ٹیکنالوجی اور فارمیسی کے لڑکوں کو حسد اور رشک کے تیروں سے گھائل ہوتے دیکھتے۔
ان لڑکوں کو ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے سامنے سے گزر کر اپنے بے رنگ، مجرد ڈیپارٹمنٹس میں جانا پڑتا جہاں لڑکیوں کا مکمل فقدان نہیں تو سخت قحط ضرور تھا۔
ادھر ہمارے ہاں اللہ کا ایسا فضل کہ ہم میں سے ہر لڑکا اگر دو لڑکیوں کو لے کر سیڑھیوں پر بیٹھتا تو بھی کچھ بچ جاتیں۔ یہ الگ بات جو بہت سی ایسی تھیں کہ ادبیات کی طالبات ہونے کے باوجود مطلوب نہیں تھیں اور کچھ کو تو طلب ہی نہیں تھی۔
وہ عمر میں ہم میں سے اکثر سے بڑی تھی۔ اوپن میرٹ پر تو کبھی داخلہ ہی نہ لے پاتی۔ منافق یونین کے بل بوتے پر ’’سپیشلڈ بیٹنگ کوٹہ‘‘ سیٹ پر آئی تھی۔
کبھی اس کو کسی ڈیبیٹ میں حصہ لیتے سنا نہ دیکھا، بہر حال اس کے پاس سرٹیفکیٹ تو ہوں گے ہی۔ جبھی تو ہمارے الٹرا ماڈرن ڈیپارٹمنٹ کے نیکو کار گروپ سے متعلق چیئرمین اور دیگر معزز ممبران داخلہ کمیٹی نے اس پر اتنی نایاب سیٹ نچھاور کر دی تھی۔
دلیر اور منہ پھٹ بہت تھی اور خالص ’’شہری‘‘ ہونے کے باوجود وہ مجھ ’’پینڈُو‘‘ کے علاوہ کسی کی سنتی نہیں تھی۔
میری اور اس کی دوستی بھی پتہ نہیں کیسے شروع ہو گئی۔ کوئی ٹھیک سے یاد نہیں، لیکن کلاسز شروع ہونے کے دو مہینے کے اندر اندر، ہمارے سمیت، سب کو سمجھ آ چکی تھی کہ بس ہمارا ہی قارُورہ ملتا ہے۔ ہم دونوں کی حد تک ’’نو ویکنسی‘‘ کا بورڈ لگ چکا تھا۔
بڑے مزے کے دن تھے۔ کلاس روم، کامن روم، کینٹین، بزنس ایریا، کیفے ٹیریا، یونیورسٹی گراؤنڈز، لائبریری، ٹولنٹن مارکیٹ دِن کو اور نہر کنارا، کنارے سے بندھی نیلی روغن شدہ لمبوتری کشتیاں اور بوائیز اور گرلز ہاسٹلز کے بیچ کی خوشبودار پگڈنڈیاں شام کو۔
لڑکیوں کے دھو کر بالکونیوں میں سکھانے کے لئے لٹکائے کپڑوں میں بھی کئی مردانہ دل ٹنگے رہتے۔ تفریحی دورے اور گانوں کے کورس۔۔ ۔۔ ۔۔ کبھی الوداع نہ کہناااا۔۔ ۔
کیسے اڑا جا رہا تھا وقت۔
وقت تھا کہ گہرے نیلگوں آسماں کی وسعتوں میں بغیر پر ہلائے تیرتا پنچھی۔
سرور ہی سرور۔ مستی ہی مستی۔ قصے بھی مزے کے، جھگڑے بھی مزے کے اور صلح بھی مزے کی۔ یہاں تک کہ پڑھائی بھی مزے کی۔
ہر کوئی کھیلوں، پڑھائی، نیم پخت فلسفے، جعلی ذہانت، فرضی بہادری یہاں تک کہ رومانس میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا تھا۔
’’یار میں کل اس کو الفلاح لے گیا سین کونری کی فلم دکھانے‘‘ ۔
’’پھر؟ ‘‘
’’پھر کیا۔ جب سب روشنیاں گل ہو گئیں تو میں نے آہستہ سے اس کے زانو پر ہاتھ رکھ دیا‘‘ ۔
’’اچھااا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پھر؟ ‘‘
’’پھر میں ہاتھ آہستہ آہستہ اوپر لے گیا‘‘ ۔
’’تو‘‘
’’اس نے نیم تاریکی میں میری طرف گول گول دیدے گھمائے، اس کے سفید دانت مجھے اندھیرے میں بھی مسکراتے نظر آئے اور وہ نرمی سے بولی،‘‘
’’بچے میں یہ حرکتیں بہت پہلے کر چکی ہوں‘‘ ۔
’’تو‘‘
’’تو کیا یار۔ باقی فلم سنجیدگی سے دیکھی اور اسے گھر چھوڑ کر ہاسٹل آ گیا ہوں۔ فلم کے پیسے بھی گئے اور ٹیکسی کے بھی۔
ہاف ٹائم کی چائے پیسٹریاں علیحدہ۔
بس ایسی ہی کہانیاں تھیں ہماری اور ایسے ہی تھے وہ قصے۔ کیا خوشبو دار دن تھے۔ ہم بالکل نہیں جانتے تھے کہ ایسے حسین دن کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ خواہ ہم کتنے بڑے بڑے پروفیسر، ادیب یا پھنے خان بیوروکریٹ ہی کیوں نہ بن جائیں۔
وقت تو گزرتا ہی ہے۔ وقت تو گزر ہی رہا تھا۔ اپنی روایتی تیزی کے ساتھ جو وہ اچھے دنوں کے ساتھ روا رکھتا ہے اور برے دنوں میں بھلا ڈالتا ہے۔ ہمارا وقت زیادہ ہی تیزی سے گزر رہا تھا۔ صبح کینٹین پر زمان سے آلو پراٹھے کا ناشتہ کرتے چائے سُڑک کر وہ مزہ آتا جو بعد میں سیون سٹار ہوٹلز کے پر تکلف نا شتوں میں بھی ناپید رہنا تھا۔ ہر چیز انمول تھی اور سب سے انمول تھے چڑھتی جوانیوں کے وہ آتش باز دن جو پھر لوٹ کر کبھی آنے والے نہیں تھے۔ جوان خون کی وہ حدتیں، جو بتدریج سرد ہونی تھیں اور رنگین خواب، جنہوں نے حقیقت میں ڈھل کر اپنے رنگ کھونے تھے۔
انہی ہواؤں میں اڑتے، ٹیبل ٹینس کھیل کر میں کونے میں لگے واش بیسن سے ہاتھ دھو رہا تھا کہ وہ پاس آ کھڑی ہوئی۔
’’تم نے شادی کب کرنی ہے عادل؟ ‘‘
’’کیوں بھئی؟ یہ کیا سوال ہوا؟ خیر تو ہے؟ ‘‘
’’اس میں چونکنے کی کیا بات ہے؟ کرنی نہیں ہے شادی تم نے کبھی؟ ‘‘
’’کرنی ہے بھئی کرنی ہے۔ کر لیں گے شادی بھی کبھی۔
ابھی تو بہت بہت کچھ کرنا ہے۔ پھر شادی بھی کرنی ہے۔ کرنی ہی ہے بالآخر‘‘ ۔
’’تقریباً کب کرنی ہے؟ ‘‘
’’یار کیا عجلت ہے نگہت! کر لوں گا آٹھ دس سال تک‘‘ ۔
’’آٹھ دس سال تک۔ اچھا۔۔ ۔ ٹھیک ہی ہے بھئی‘‘ ۔
میں اولڈ کیمپس سے نیو کیمپس جانے والی بس کے انتظار میں بنچ پر بیٹھا تھا کہ اسے ڈیپارٹمنٹ سے کیمپس کے بیرونی گیٹ کی طرف تیزی سے جاتے دیکھا۔ وہ اتنی منہمک تھی کہ دائیں بائیں کچھ دیکھ نہیں رہی تھی۔ بس سیدھی چلی جا رہی تھی لمبے لمبے غیر نسوانی قدم اٹھاتے ہوئے۔ باہر مال روڈ کے فٹ پاتھ کے ساتھ ایک سفید کار کھڑی تھی جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک مدبر سا ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا تھا۔ نگہت نے کار کی دوسری طرف کا دروازہ کھولا اور ساتھ کی اگلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ کار نے حرکت کی اور با وقار آہستگی سے فٹ پاتھ سے دور ہوتے ہوئے رواں دواں ٹریفک کا حصہ بن گئی۔
اگلے دن پوچھنے پر نگہت نے بتایا کہ انکل لینے آئے تھے۔
ہم ملتے تو رہے لیکن باہمی گرم جوشی کچھ کم ہو گئی۔
پھر ایک دن پتہ چلا کہ نگہت دو ہفتے کی چھٹی پر چلی گئی ہے کیونکہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔ مجھے ایک جھٹکا لگا۔ یوں لگا کہ میں دلائل دیے بغیر ہی ڈیبیٹ ہار گیا ہوں۔
دو ہفتے بعد وہ واپس ڈیپارٹمنٹ آئی تو ہم دونوں جھینپ رہے تھے۔ پھر ایک دن اس نے ہم ہوسٹل والے چھ دوستوں کو اپنے گھر لنچ پر بلایا۔ کلاسز کے بعد ہم یونیورسٹی بس سے وحدت کالونی کے اڈّے تک اور وہاں سے پیدل، اُس کے گھر کے دیئے گئے پتے کے مطابق، اس کے گھر پُہنچ گئے۔ بالائی اوسط طبقہ کا اچھا صاف ستھرا گھر تھا۔ وہ خود دروازے پر ہمیں لینے آئی۔ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے کارنس پر رکھی سنہرے فریم میں سجی بڑی سی تصویر پر نظر پڑی۔ نگہت دلہن کے لباس میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی جبکہ ساتھ ڈارک بلو سوٹ اور میرون ٹائی میں، اپنی کنپٹیوں پر نمایاں سفید بالوں کے پر وقار نکھار کے ساتھ، دلہا کے روپ میں ’’انکل‘‘ کھڑے تھے۔
میں اپنی حیرت ضبط کر گیا۔
اس کے گھر کے پکے کھانوں کی سادہ دعوت ہم ہوسٹل میں رہنے والوں کے لئے بڑی پر تعیش تھی۔
یہ دعوت تقریباً ہمارے یونیورسٹی سیشن کے اختتام کا اعلان ہی تھا۔ آخری دنوں میں ہماری چند ملاقاتیں ہوئیں مگر ہم دونوں لئے دئے رہے۔ پھر سیشن ختم ہو گیا۔ الوداعی تقریب ہوئی اور ہم سب بکھر گئے، دور دور نکل گئے۔ کچھ آبائی علاقوں کو لوٹ گئے، کچھ ملازمتوں کے پیچھے۔
بہت وقت گزر گیا۔ دو صدیوں جیسی دو دہائیاں گزریں۔ ہمارا رابطہ بالکل ٹوٹ چکا تھا۔ پرسوں اچانک زندگی نے پھر ہمیں ایک دوسرے کے سامنے لا پٹخا۔ الحمرا میں لمبا سیشن ختم ہوا تو ہم دونوں اکٹھے باہر نکلے۔ وہ اپنی گاڑی کو پارکنگ لاٹ ہی میں چھوڑ کر یوں میرے ساتھ چلتی ہوئی کار میں آ بیٹھی جیسے ہم ابھی کلاس روم سے نکلے ہیں۔ مجھے لگا کہ اصل، طویل اور پر جوش، ڈیبیٹ، اب شروع ہونے جا رہی ہے جس میں دونوں طرف سے زور دار، وزنی اور معقول دلائل کے طویل سیشن چلیں گے۔
اب کے ہم دونوں میں سے کسی کا ہارنے کا ارادہ نہیں تھا کیونکہ ہم دونوں بڑے سیانے اور تجربہ کار ہو چکے تھے۔
گاڑی مال روڈ پر ڈال کر میں نے بیک ویو مرر کو ٹیڑھا کر کے اپنا چہرہ دیکھا تو کن پٹی کے سفید بال بڑے دیدہ زیب اور پر وقار لگے۔
٭٭٭