وہ مجھے سرحد تک جانے والی ٹرین کی منتظر ریلوے کے مخصوص بنچ پر بیٹھی ملی۔
بڑے اسٹیشن پر بہت رونق تھی۔ ہفتے میں دو بار سرحد تک، جانے والی گاڑی نے علی الصبح نکلنا تھا۔ برادر ملک کے ساتھ مسافروں کی آمد و رفت کا بس ایک ہی رستہ کھلا تھا اور یہ ریل گاڑی اُسی سرحدی مقام تک جاتی تھی۔ مجھے اپنی سرکاری حیثیت میں، خاص تزک و احتشام سے، اسی گاڑی پر بارڈر کے اسٹیشن تک جانا تھا۔ ملک بھر سے مسافر کل سے اسٹیشن پر اکٹھے ہو رہے تھے۔ گاڑی کیا تھی بس ایک پوری دنیا تھی جو سفر کو تیار تھی۔ سات سو کلومیٹر دُور واقع سرحد تک کوئی اچھی سڑک نہیں جاتی تھی اس لئے ریل گاڑی ہی محفوظ اور قدرے آرام دہ سواری تھی۔ ملک میں سختی کا دور آ چکا تھا لیکن پھر بھی غیر ملکی سیاح مشرقی سرحد سے داخل ہو کر اس جنوب مغربی سرحد کو عبور کرتے ہوئے پڑوسی ملک میں داخل ہوتے تھے۔ وہاں سے آگے وہ زیادہ آزاد ملکوں کی طرف نکل جاتے۔ مذہبی زائرین کا بھی یہ پسندیدہ راستہ تھا۔
بارڈر تک جانے والی ریل گاڑی پچیس چھبیس گھنٹے کے سفر کے بعد مسافروں کو ملک کی سرحد کے قریب صحرا میں استادہ آخری ریلوے اسٹیشن پر شام کے وقت اُتار دیتی۔ مسافر رات بارڈر پر بنے اسٹیشن کے مسافر خانوں، کچے پکے چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں، کچے احاطوں کی چھولداریوں میں گزارتے اور کسٹم امیگریشن وغیرہ کے کڑے نظام سے گزرتے اگلے دن سرحد عبور کر جاتے۔
سٹیشن پر مقامی اور غیرملکی سیاح ٹولیوں کی شکل میں ڈیرے جمائے بیٹھے تھے۔ اُن کا اِرادہ رات اسٹیشن پر بسر کر کے علی الصبح گاڑی سے نکلنے کا تھا۔ سفید فام نوجوانوں کے گروہ رُک سیک چڑھائے اسٹیشن کے ٹھیلوں سے مرچ مصالحہ والی سستی خوراک چکھتے پھر رہے تھے۔ چٹ پٹی دیسی چیزیں ان کی ناک کو لال کرتیں، ناک سے پانی نکالتیں لیکن وہ سوں سوں کرتے کھاتے جاتے۔
گوری لڑکیوں کی خوب تراشی ہوئی شکلیں اور سفیدی میں سے جھلکتی سرخی مائل رنگت والے رخسار ظاہر کرتے تھے کہ سگریٹ نوشی اور چرس تک نے اُن کی ابلتی جوانیوں کے صحت مند تازہ خون کو زیادہ تاریک نہیں کیا۔ بے ترتیب گھنی داڑھیوں اور کرخت چہروں والے آوارہ مقامی نوجوان حریص، نا آسودہ نظروں سے لباس سے بے پرواہ نوخیز گوری حسیناؤں کو بے باکی سے تاڑتے لیکن سیاح مرد و خواتین انہیں مکمل طور پر نظر انداز کرتے۔
وہ سانولی رنگت اور قدرے مرجھائی ہوئی شکل کی تھی۔ دھان پان۔ لگتا کم عمر ہے لیکن روندھی مسلی گئی ہے۔ جیسے وقت کے ظالم بھنورے نے نوخیز کلی کا رس پھول بننے سے قبل ہی چوس لیا ہو۔ وہ بنچ پر اکیلی بیٹھی تھی جبکہ قریب ہی میلی سی دری بچھائے پانچ چھ اُدھیڑ عمر اور درمیانی عمر کی عورتیں ڈیرہ جمائے بیٹھی تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اسی گروپ کا حصہ تھی۔ مجھے وہ سب سے الگ نظر آئی۔ میں نے حیلے بہانے دو تین بار اُس پر نظر ڈالی۔ مجھے لگا وہ ضرور کچھ دنوں تک مجھے یاد رہے گی۔
میں نے سٹیشن پر اپنا کام ختم کیا اور گھر کو روانہ ہوا۔ صبح جلدی نکلنا تھا اور کئی کام نپٹانے تھے۔
یہ ایک سرد ٹھٹھرتی صبح تھی اور سورج کو ابھی کچھ دیر بعد نکلنا تھا۔ میرے سٹیشن آنے تک زیادہ تر لوگ گاڑی میں اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔ میرے لئے گاڑی میں موجود بہترین درجہ کا ایک سونے کا کمرہ مخصوص تھا۔ گاڑی میں سوار ہونے سے قبل میں نے گاڑی کے ساتھ ساتھ چل کر پوری گاڑی کا معائنہ کیا۔ مرجھایا ہوا نوخیز خوابیدہ متجسس چہرہ ایک کھڑکی سے جھانک رہا تھا۔ میں نے بھرپور نظر ڈالی تو جوابی تاثر سے لگا وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہے۔
’’شاید کل شام اس کی نظر مجھ پر پڑی ہو۔‘‘
میں نے سوچا۔
میں اپنے ڈبے میں سوار ہو گیا۔ انجن نے پہلے ایک چھوٹی اور ساتھ ہی ایک لمبی وسل لگائی تو پلیٹ فارم پر بھاگ دوڑ مچ گئی۔ لوگ جو ہمیشہ کچھ نہ کچھ آخر وقت پر کرتے ہیں سوارہونے کو لپکے۔ گارڈ کی تیز سیٹی نے بار بار خبردار کیا اور بالآخر اس نے سبز جھنڈی زور زور سے ہلانی شروع کر دی۔ فائیر میں نے پیچھے دیکھتے ہوئے بازو لہرایا تو ڈرائیور نے کوئی ایک منٹ کے وقفے سے ایک اور وسل دے کر گاڑی آہستگی سے چلا دی۔
گاڑی جب اسٹیشن چھوڑتی ہے تو ایک اُداسی پیچھے پلیٹ فارم پر رینگتی اور خالی پٹری سے چمٹی رہ جاتی ہے۔ گاڑی خود بھی اداس ہوتی ہے لیکن بہت سی رونق اپنے اندر سمیٹ کر چلتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ رونق، ہماہمی اور شادمانی ہر ڈبے، سیٹوں کے ہر خانے اور سونے کے ہر کمرے میں محدود ہو جاتی ہے۔ اس ولولے جوش امید اور ہما ہمی میں کوئی نہ کوئی سیٹ کوئی برتھ بہت اُداس بھی ہوتی ہے۔
میں اپنے پر تعیش سونے کے کمرے میں جسے میرے ماتحت عملہ نے سامانِ سفر سے لبریز کر دیا تھا بالکل شاداں و فرحاں نہیں تھا۔
میں اس گھسٹتی گاڑی میں کسی نوخیز، سانولی سلونی نمکین لیکن قبل از وقت مرجھائی مسلی سواری کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میں نے تصور کیا کہ وہ کھڑکی سے لگی چھوٹی سی اِنفرادی سیٹ پر سمٹی سرد شیشے سے ناک لگائے متجسس اُداس نظروں سے شہر سے رینگ کر نکلتی مضافات سے گزرتی ریل گاڑی کی حرکت کی لا تعلق قیدی ہو گی۔
میری خیر و عافیت اور آرام و آسائش کئی ایک نے اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ ان کئی ایک میں وہ بھی ایک تھا جس کا کام لوگوں کو ناقص رزق فراہم کر کے رقم بٹورنا تھا۔
’’ٹک ٹک ٹک۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘
’’سر جی اندر آ جاؤں؟ میں غلام قادر ہوں۔‘‘
’’آ جاؤ۔ خیر تو ہے قادر؟ کدھر آ ٹپکے؟ ‘‘
’’سر ہمارا فرض ہے آپ کی خدمت کریں۔ خیال رکھیں۔ آپ کون سا روز سفر کرتے ہیں۔ سر چائے لاؤں؟ اپنی بھینس کے اصلی دودھ کی؟ اپنے لئے اور خاص مہمانوں کے لئے ساتھ رکھتا ہوں۔‘‘
’’پی لیں گے قادر۔ ابھی تو چلے ہیں۔‘‘
’’صبح صبح ہے صاحب جی۔ ناشتے میں دیر ہے۔ آپ تو بیڈ ٹی لیتے ہوں گے۔ آج ادھر تشریف لے آئے۔ اجازت دیں سر جی۔ اپنی بھینس کے دودھ کی چائے لاتا ہوں۔‘‘
اور وہ چلا بھی گیا اور چائے لے کر آ بھی گیا۔
چائے گلابی سی تھی اور اوپر بالائی کی ہلکی تہہ بندھی تھی۔ دیکھ کر ہی پینے کو جی چاہنے لگا۔
’’سر جی! اس گاڑی میں بڑی رونق ہوتی ہے۔ بھانت بھانت کی خلق خدا ہے۔ کسٹم والے ہیں۔ پولیس والے ہیں۔ ایف آئی اے والے ہیں۔ امیگریشن والے۔ لیویز والے ہیں۔ ریلوے والے تو ہیں ہی۔ اور سر جی ایجنسیوں والے ہیں۔‘‘
’’اچھا‘‘
’’سر یہ گورے نوجوانوں کے گروہ۔ افغانستان اور پاکستان چرس کے پیچھے بھاگے آتے ہیں۔ خالص اور سستی چرس۔ اِن کا بس چلے تو ادھر ہی پاؤں پسار کر پڑے رہیں۔‘‘
’’ہُوںں ں۔۔ ۔ اچھا!‘‘
’’سر جی یہ بڑی رنگ رنگیلی ٹرین ہے ۔‘‘
اب بولنے کی باری میری تھی۔
’’ارے یار قادر وہی سبز اور مٹیالے زرد رنگ کی ٹرین ہے۔ یہ کدھر سے رنگ رنگیلی ہے؟ ‘‘
لیکن وہ بھی غلام قادر تھا۔
’’سر جی تسی وی بھولے ای او‘‘
وہ اپنی پنجابی پر اتر آیا۔ پھر سنبھل کر بولا،
’’سر جی یہ جو کسٹم والے ہیں ہر ہفتے واپسی پر اسی ٹرین سے نوٹوں کے سوٹ کیس بھر کر لاتے ہیں۔ پھر شہر میں آ کر تقسیم کرتے ہیں۔‘‘
’’اچھا؟ ‘‘
مجھے دو نوجوان جونیئر کسٹم آفیسر یاد آ گئے جنہوں نے پچھلے ہفتے میرے ذریعے ریل کے فرسٹ کلاس سلیپر کا ٹکٹ خریدا تھا کیونکہ ان کے پاس ہوائی جہاز میں سفر کرنے کے لئے کافی پیسے نہیں تھے اور انہیں اپنے آبائی علاقے چھٹیاں گذارنے جانا تھا۔
میں نے غلام قادر سے ذکر کیا۔ وہ بلا توقف بولا
’’اوہ بھولے بادشاہو! وہ تو ابھی دو ماہ پہلے نوکری پر آئے ہیں۔ ان کی تو ابھی آنکھیں ہی نہیں کھلی ہیں۔‘‘
میں سوچ میں پڑ گیا۔
’’سر جی! اس گاڑی کے ذریعے رج کے سمگلنگ ہوتی ہے۔ سب مل کر مزے کرتے ہیں۔ سب کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔
سر جی آپ کیوں کچھ بھی نہیں کرتے؟ ‘‘
’’یار قادر میں نے تو یہ کام نہیں کرنا۔ ابھی تو یہی ارادہ ہے ۔‘‘
’’سر جی آپ جوان ہیں۔ کچھ کرنا ہے تو ابھی کریں۔ جو کھانا ہے کھا لیں جو پینا ہے پی لیں۔ جو دوسرے مزے کرنے ہیں کر لیں۔ یہی دن ہیں۔ جب آپ بوڑھے ہو جائیں گے تو پیسہ ہونے پر بھی کچھ کھا سکیں گے نہ 'ہنڈا' سکیں گے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے سر جی۔ وڈے افسروں کے دماغ تیز ہوتے ہیں۔ فوراً سمجھ جاتے ہیں۔‘‘
’’قادر ابھی تو میرا کوئی ذہن نہیں بنا۔ بہرحال تیرا شکریہ۔ تو نے تو میرا بھلا سوچا۔‘‘ میں مسکرایا
’’سر جی! اصلی رونق پر نظر پڑی آپ کی؟ اس گاڑی کی اصلی رونق؟ ‘‘
’’یہ گورے غلام قادر؟ ‘‘
’’اوہ نئیں بھولے بادشاہو۔ گورے تو اپنی مصیبتوں کے مارے پھرتے ہیں۔ خارش زدہ۔ اصلی مال سر جی۔ دیسی۔‘‘
’’کھل کے بولو غلام قادر۔‘‘
’’سر جی اس گاڑی کی اصلی رونق تو یہ سمگلنگ کرنے والی عورتیں ہیں۔ ویزہ لگوانے، سفر کرنے، ادھر جانے واپس آنے تک مزے ہی مزے۔ سب کے مزے ہیں سر جی۔‘‘
’’اچھا؟ ‘‘
’’جی سر جی۔ یہ اندرون ملک کے شہروں قصبوں سے نکلتی ہیں۔ گھر سے نکل کر دوسرے ملک میں داخل ہونے تک سب کی موجیں۔ دوسرے ملک میں بھی موجیں ہوتی ہوں گی۔ واپسی پر پھر اپنے ملک کی زمین پر پاؤں رکھنے سے اپنے گھر میں داخل ہونے تک موجیں ہی موجیں۔ اور سر جی کچھ کے تو گھروں میں بھی موجیں ہی موجیں۔‘‘
’’غلام قادر کیا داستان لے کر بیٹھ گیا ہے۔ ہمیں کیا بھائی۔ لوگوں کے کام جانیں اور وہ جانیں۔ ہمیں اپنا کام کرنا ہے اور ڈھنگ سے کرنا ہے ۔‘‘
اسے میری بات بالکل پسند نہ آئی۔
’’آپ تو بالکل بھولے بادشاہ ہو سر جی۔ پتہ نہیں کیسے اونچی گدی پر بیٹھ گئے ہو۔ بس ناک کی سیدھ میں دیکھتے ہو۔‘‘
’’غلام قادر میں ٹھیک ہوں بس۔ تو مجھے جو داستانیں سنا رہا ہے میرے لئے انوکھی ہیں۔‘‘
’’آپ اس لائن پر پہلی بار نکلے ہیں۔ اپنی آنکھوں سے سب دیکھیں گے تو یقین کریں گے۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو خوشی ہو گی۔‘‘
میں نے کوئی خدمت نہ بتائی اور وہ وقتی طور پر میری جان چھوڑ گیا۔
گاڑی کچھ فاصلے تک رینگنے کے بعد ہوشیار ہو کر تیز چلنے اور پھر دوڑنے لگی تھی۔ شہر اور مضافات گزرے تو ایک خشک پہاڑی کی اوٹ میں چھپا ایک قصباتی اسٹیشن برآمد ہوا۔
گاڑی ریلوے اسٹیشن کو زندگی بخشتی ہے۔ جب مسافروں سے، اور پھر ایسے رنگ رنگیلے مسافروں سے لدی پھندی گاڑی ہفتہ بھر کے انتظار کے بعد اسٹیشن پر آئے تو کیا صورت حال ہو گی۔ بہت کم لوگ سوار ہوئے یا اترے۔ عملہ کے دمکتے چہرے، دھلا دھلایا پلیٹ فارم اور اکلوتے سٹال پر بھاپ اڑاتی چائے کی کیتلی، جس سے گاڑی میں بھاگ بھاگ کر چائے سپلائی کی جا رہی تھی چیخ چیخ کر تقاضہ کر رہے تھے کہ اس وصال کی ساعت کو لمبا کھینچا جائے۔ اس لئے کہ پھر ہجر بہت طویل ہونا ہے۔
گاڑی تو وقت کی پابند ہوتی ہے جو کتاب میں درج کر کے ڈرائیور، گارڈ اور اسٹیشن ماسٹر کو دے دیا جاتا ہے کہ ہجر و وصال کے لمحے شمار ہو جائیں۔
گاڑی اس اسٹیشن کو ویران کر کے نکلی تو خشک سوختہ پہاڑیوں کے نیچے دبی ایک سرنگ میں یوں جا گھسی جیسے سانپ بل میں گھسٹتا ہے۔ گاڑی میں تاریکی چھا گئی مگر چند ثانئے بعد گاڑی کی پیلی بتیاں ٹمٹما اُٹھیں۔ سرنگ کی دیوار گاڑی سے بہت دور نہیں تھی۔
’’س نے اپنے گہرے گندمی کمزور بازو کی کہنی کھڑکی سے اندر کر لی ہو گی اور بے وقت مرجھایا چہرہ بھی پیچھے ہٹا لیا ہو گا‘‘
پتہ نہیں کہاں سے خیال میرے دماغ میں گھس آیا۔
کوئی پندرہ بیس منٹ تک سرنگ میں گزار کر گاڑی برآمد ہوئی تو ایک وسیع و عریض، بے آب و گیاہ صحرا کی پیاسی لشکتی ریت تا حد نظر بچھی، صبح کے تازہ دم چونچال سورج کی تیز روشنی میں آنکھیں خیرہ کر رہی تھی۔
پھر گاڑی سینکڑوں میل اس صحرا کی وسعت میں درمیانہ مگر یکساں رفتار سے بھاگتی رہی۔ جب دوپہر ہو گئی تو دھوپ میں نہایا ایک قصبہ نمودار ہوا۔ جلد گاڑی اس صحرائی قصبہ کے ایک کھلے سے اسٹیشن پر جا ٹھہری۔
عجب سماں تھا۔ ریت بھرے صحرا میں درخت سبزے سے تقریباً محروم ایک بکھری بکھری سی آبادی اُبھر آئی تھی۔ ریلوے اسٹیشن بھی کھلی جگہ پر پھیلا پھیلا تھا اور بس دو تین پٹریوں پر مشتمل اسٹیشن یارڈ تھا۔ جس پٹری پر ہماری گاڑی ٹھہرائی گئی اس کے دائیں جانب ایک نیچا سا پلیٹ فارم تھا جس سے گاڑی پر سوار ہونے کے لئے ڈبے کے پائیدان استعمال کر کے چڑھنا پڑتا۔ بائیں جانب ریتلی اور پتھریلی خشک بنجر سی زمین تھی جس پر زیادہ تر سبز اور بھورے رنگ کے سنگ مرمر کے بڑے بڑے خام چٹانی ٹکڑے سینکڑوں کی تعداد میں ریت میں دھنسے پڑے تھے۔ اسٹیشن سے زاویہ بنا کر دور تک جاتی ایک پٹری پر ریلوے کے مٹیالے لال رنگ کے چھکڑے کھڑے تھے جن میں سے چند پر یہ مرمریں چٹانی ٹکڑے لادے جا چکے تھے۔ قریب ہی ایک قدیم طرز کی زنگ خوردہ تھکی ہوئی کرین کھڑی تھی جو اِن چٹانوں کو ریلوے چھکڑوں میں لادنے کے کام آتی تھی۔ ریلوے کے ذریعے یہی چٹانیں دور کسی بڑے شہر کے کارخانوں میں کاٹ پیٹ، پالش کر کے عالیشان گھروں کے خوبصورت فرش بنانے کے کام آنی تھیں۔ کئی ایک نے کسی حرماں نصیب کی قبر کے کتبے میں ڈھلنا تھا۔ گہری سبز چٹانوں سے برآمد پتھر سے جو مصنوعات تخلیق پاتیں، وہ بیش بہا سامانِ آرائش میں ڈھل کر بہت مہنگی فیشن ایبل ’گفٹ شاپس‘ میں اونچے بھاؤ بکنی تھیں۔
فی الحال یہ پتھر اپنے معدنی وطن سے جدا لیکن قربت ہی میں ریلوے کے بابوؤں کے رحم و کرم پر ریت میں نیم دفن اپنی سواریوں کے منتظر تھے۔ اُدھر بڑے تمدنی مراکز کے سنگین مذبح خانے ان خام بدنوں کی تکا بوٹی کی تیاری میں یوں لگے تھے جیسے عید قربان سے قبل قصائی خانے چھریاں بُگدے سان چڑھا کر قربانی کے جانوروں کے منتظر رہتے ہیں۔
اِک اور عجیب منظر تھا کہ ریل کی پٹری سے ذرا ہٹ کر ایک قطار میں مقامی لوگ طرح طرح کی چیزیں بیچنے کے لئے بیٹھے تھے۔ ان عارضی دکانوں میں جو زمین پر چادریں یا ٹاٹ وغیرہ بچھا کر بنائی گئی تھیں کھانے پینے کی چیزیں بشمول سبزی ترکاری اور زندہ سلامت خوش رنگ دیسی مرغیاں تک موجود تھیں۔
میں پلیٹ فارم پر اُتر کر گاڑی کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا مسافروں کی چہل پہل دیکھنے لگا۔
مجھے وہ پھر نظر آئی۔
ادھیڑ عمر خاتون اس کے ساتھ پھر رہی تھی اور وہ اسٹیشن ماسٹر کے کمرے سے ملحقہ برآمدہ سے باہر پختہ دکانوں کی طرف جا رہی تھیں۔ پشت سے اس کے لمبے بال اس کی چادر سے نکل کر کمر سے نیچے تک لٹک رہے تھے اور بالکل پتہ نہیں چلتا تھا کہ ان کی مالکن کا چہرہ قبل از وقت مرجھا چکا ہے۔
میرے ساتھ میرے ’’سرکاری مریدین‘‘ تھے سو میں مدبر ہی بنا رہا اور قلب و نظر کو زیادہ آوارگی کی اجازت نہ دی۔
گاڑی نے تو چلنا ہی ہوتا ہے چاہے اسٹیشن کتنا ہی دلنشیں اور پر رونق ہو۔
رکی رہے تو گاڑی کیا۔
آدھ گھنٹے سے کچھ زائد اس اسٹیشن پر رک کر گاڑی یہاں سے بھی چل پڑی۔ سپاٹ بے آب و گیاہ خشک چمکتے ریگزار میں اس اسٹیشن کے بعد کوئی قابل اعتنا اسٹیشن نہ آیا اور گاڑی دو چھوٹے چھوٹے بے رونق اسٹیشنوں کو بے رغبت بوسہ دے کر نکلتی چلی گئی۔
سورج دن بھر گاڑی کے آگے پیچھے پھرتا بالآخر ایک سمت ہو کر بیٹھ گیا اور صحرا بتدریج تاریکی میں ڈوب گیا۔
ایک پراسرار خاموش اندھیرا چاروں طرف محو خواب تھا اور تاروں بھرا آسمان گاڑی پر تنا ساتھ ساتھ بھاگا جاتا تھا۔
مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔
بیسیوں بار ایک نا وقت مرجھاتا گندمی تیکھا چہرہ میرے ذہن میں جھماکے سے دَر آتا اور پھر غائب ہو جاتا۔ کئی بار ایک مستور پشت سے ہو کر چادر سے نکل کر نیچے لٹکتے کالے بال میرے تصور میں آتے اور نکل جاتے۔
میں نے سفری بیگ سے ایک کتاب نکالی اور دھیمی پیلی روشنی میں پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔
اچانک میرے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ میں نے ناگواری سے اٹھ کر چٹخنی کھول کر دروازہ تھوڑا سا سرکا کر باہر جھانکا تو وہی تھا جس کی توقع ہو سکتی تھی۔
غلام قادر۔
’’سر جی نیند نہیں آ رہی نا؟ ‘‘
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
’’لتی گاڑی کا سحر ہوتا ہے سر جی۔ اکیلے جوان بندے کو چلتے ہوئے کمرے میں کیسے نیند آئے گی۔ سر جی چائے پئیں گے؟ ‘‘
’’پی لوں گا اگر آسانی سے مل جائے اس وقت۔‘‘
’’سر جی آپ بھی بہت سادہ ہیں۔ جو حکم کریں گے ملے گا۔ پر سر جی آپ تو بہت ہی سیدھے ہیں۔
وہ میرے ساتھ کھڑے انسپکٹر کو دیکھا تھا؟ وہ چاچا کبڑا؟ سر سمگلنگ کا کنگ کہتے ہیں اسے۔ درجنوں گینگ ہیں اس کے۔ چاچی کو ساتھ لے کر آتا ہے۔ شام سے پی رہا ہے دوسرے انسپکٹر کے ساتھ۔ وہ انسپکٹر نیا نیا آیا ہے لیکن سیکھا سکھایا۔ اس کی بھی چاچی ساتھ ہے ۔‘‘
’’یار غلام قادر یہ بیویوں کو ساتھ بٹھا کر شراب پیتے ہیں؟ کمال ہے؟۔‘‘
وہ قہقہہ لگا کر خوب ہنسا۔ پھر بولا
’’سر جی آپ تو زیادہ ہی سادہ ہیں۔ سر وہ خاص چاچیاں ہیں ان چاچوں کی۔ ہر بار نئی چاچیاں۔ بیویاں تو گھروں میں بیٹھی ہیں۔ دو دو کلو سونا پہن کر خوش خوش۔ چھوٹے بچوں کو پڑھا رہی ہیں جبکہ بڑے چرسیں پیتے باپوں کی حرام کی کمائی ٹھکانے لگاتے پھر رہے ہیں۔
لو جی سر جی میں آپ کی چائے کا بندوبست کروں۔‘‘
وہ چلا گیا تو میں کتاب بھول کر اس کی باتوں کے اڑن کھٹولے پر سوار کہیں کا کہیں نکل گیا۔
کوئی بیس منٹ بعد ہلکی دستک ہوئی۔ میں نے دروازے کی چٹخنی نہیں چڑھائی تھی۔
’’آ جاؤؤؤ!‘‘
میں نے لیٹے لیٹے آواز دی۔
لیکن مجھے فوراً اٹھ کر بیٹھنا پڑا۔ پلاسٹک کی ٹرے میں چائے کا تھرماس، کپ، مرغ کے گوشت کے تکے اور اُبلے ہوئے انڈے لے کر جو ہستی اندر داخل ہوئی وہ غلام قادر نہیں تھا۔ وہ پختہ عمر عورت کمرے میں داخل ہوئی جو اس کے ساتھ ساتھ پھرتی تھی جسے میں کئی بار یاد کر چکا تھا۔
’’نیند نہیں آ رہی صاحب جی!‘‘
مجھے بھی نیند نہیں آتی‘‘
وہ مسکراتی ہوئی سامنے والی خالی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
یہ کمرہ چار لوگوں کے سونے کے لئے بنایا گیا تھا لیکن اس وقت مجھ اکیلے کے تصرف میں تھا۔
میں اپنی سیٹ پر سنبھل کر بیٹھ گیا۔ اس نے دو کپ چائے انڈیلی اور ایک کپ میری طرف بڑھایا۔
’’میں مکس چائے لائی ہوں۔ اصلی دودھ والی۔ ہلکی چینی ہے۔ مجھے شوگر ہے۔ صاحب لوگ تو ویسے بھی ہلکی چینی ہی پیتے ہیں۔ اگر اور چینی چاہئے تو ساتھ لائی ہوں۔‘‘
’’جی نہیں ٹھیک ہے‘‘
میں نے اپنے کپ پر نظریں مرکوز رکھیں۔
میرا عجب حال تھا۔ کانوں کی لویں سلگ رہی تھیں اور خون جیسے کن پٹیوں کو پھاڑ کر باہر نکلنے کو بے تاب تھا۔
’’صاحب آپ شہر میں اکیلے رہتے ہیں اتنے بڑے گھر میں؟
کل بڑی سڑک سے گزرے تو صادق نے آپ کا گھر دکھایا۔ دو بڑے بڑے گیٹ کھل رہے تھے بڑی سڑک پر۔ ایک آنے کا اور ایک جانے کا۔ صادق میرا میاں ہے۔ پہلے کسٹم میں سپاہی ہوتا تھا۔ نکال دیا انہوں نے۔ اب میرے ساتھ کھے کھاتا پھرتا ہے۔
ہم کل آ گئے تھے اور پھر رات اسٹیشن پر رہے۔ آپ کو دیکھا تھا وہاں۔ آپ صبح جو آئے تو بھی دیکھا آپ کو۔ راستے کے بڑے اسٹیشن پر بھی نظر آئے۔ آپ دیکھ رہے تھے ہماری طرف۔ صاحب ہم اچھے لگے آپ کو؟ ‘‘
میں ہکا بکا رہ گیا۔ اس عورت کی کتنی آنکھیں ہیں۔ کب اس نے مجھے اتنی غور سے دیکھا۔ کیسے میری ہر حرکت نوٹ کی۔
’’اس طرح کی عورتیں اتنی ہی ہوشیار ہوتی ہیں‘‘
میں نے خود کو سمجھایا۔
’’پہلے ہم کئی بار آپ کے بڑے صاحب کے سرونٹ کوارٹروں میں رات رہ لیتے تھے۔ پھر کسی نے شکایت لگا دی۔ صاحب نے شرفو کو بھی نکال دیا اور ہمارا ٹھکانہ بھی جاتا رہا۔ سو سجن اور سو دشمن۔‘‘
اس نے بڑی رغبت سے آوازیں نکال کر چائے سڑکنا اور تکے کھانا شروع کر دئیے۔ میں بھی چائے پینے لگا۔
وہ ایک تجربہ کار بھرپور عورت تھی۔ چالیس سے اوپر ہی ہو گی۔ شاید پینتالیس سے بھی اوپر ہی ہو۔
’’آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ ‘‘
مجھے اور کوئی بات نہ سوجھی تو یہی پوچھ لیا۔
’’لاہور سے۔ آپ کے شہر سے ۔‘‘
میں اور حیران ہوا۔
’’صاحب اس کام میں بڑی خواری ہے۔ گھر سے قدم نکالنے سے لے کر واپس گھر جانے تک جو ملے گا ہر ایک بس ایک ہی نظر سے دیکھے گا۔ ایک ہی تقاضہ کرے گا۔ ایک چھوڑے گا تو دوسرا پکڑ لے گا۔ آپ سیانے ہیں آپ کو تو سمجھ ہے نا۔ میں پرانی ہوں تو سب کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ آپ نے دیکھی تھی نا وہ بچی جو میرے ساتھ تھی۔ آپ کو اچھی لگ رہی تھی؟۔‘‘
میں تھرا کر رہ گیا۔ کیا چیز ہے یہ عورت۔
میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کہوں تو ذرا توقف کر کے خود ہی بولی،
’’ملنا ہے اس سے؟ آپ ہمارے بڑے صاحب ہیں۔ مجھے اچھے لگے ہیں۔ کروں اس سے بات؟ ‘‘
میں گھبرا گیا اور چائے میرے اوپر گرتے گرتے بچی۔
’’صاحب ہماری دوستی ہمارے شہر تک چلے گی۔ شہر داری میں سو بار منہ متھے لگیں گے۔ سو کام نکلیں گے۔ بڑی سہولت ہو گی۔ آپ مجھے کسی اچھے گھر کے لگتے ہیں۔ خاندانی لگتے ہیں۔ آپ کا ماتھا اور آنکھیں صاف بتا رہی ہیں۔ آپ کوئی شُہدے سفلے نہیں ہیں۔ رجے پجے ہیں۔‘‘
میں حیران و ششدر کہ یہ کیا چیز ہے۔ کہاں چڑھتی ہے اور کدھر جا اترتی ہے۔
’’نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘
میرے منہ سے بے تکا سا جملہ پھسل گیا۔ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہوں۔ ایسے ہی ہانکی،
’’کتنے لوگ ہیں آپ کے ساتھ؟ ‘‘
’’ہم پانچ ہیں۔ ایک تو دیکھی تھی نا میری عمر کی۔ چٹی سی۔ جس نے سفید کٹاؤں والی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ بالکل شریف ہے۔ میں نے سب کو بتا دیا ہے۔ کسی نے اس کو انگلی بھی لگائی تو میں طوفان کھڑا کر دوں گی۔ وہ میرے وعدے اور بھروسے پر آئی ہے۔ میں نے کہہ دیا تھا کہ جیسی گھر سے نکلو گی ویسی واپس آؤ گی۔‘‘
’’صاحب جی کوئی خدمت بولیں۔ لڑکیوں کو چھوڑیں۔ لڑکیوں کو کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ عورت عورت ہوتی ہے۔ میری بات کا اعتبار کریں۔‘‘
’’صادق بھی آپ لوگوں کے ساتھ آیا ہے؟ ‘‘
مجھے پھر اور کوئی بات نہ سوجھی۔
’’نئیں صاحب جی۔ پیچھے رہ مر گیا ہے۔ پنشن کا کوئی چکر تھا۔ کھسماںنوں کھائے۔ مجھے تو پنشن کا ایک روپیہ نہیں دیتا۔ پہلی کو دیتا ہو تو پتہ نہیں۔ اس میں سے دو لڑکے ہیں صادق کے۔ جوان۔ انہوں نے دو تین بار اس کو مارا بھی ہے لیکن یہ کتے کی دم ہے۔ نہ نشہ چھوڑتا ہے اور نہ جوا۔ اور جو عورت لڑکی میرے ساتھ آئے سب سے پہلے اس پر اپنا حق سمجھتا ہے۔ مجھے اس کا کیا فائدہ ہے۔ الٹی مصیبت ہے۔ مجھے شوگر ہو گئی ہے۔ ٹانگیں سو جاتی ہیں۔ بلڈ پریشر کبھی اوپر چلا جاتا ہے کبھی نیچے۔ میں اکیلی جان۔ نہ بال نہ بچہ۔ مجھے تو یہ بلا بن کے چمٹا ہوا ہے۔ مجھ سے بھی پیسے کھینچ کر پہلے گھر دے آتا ہے۔ پہلی پہلی ہی رہتی ہے صاحب جی۔ وہ اس کے لڑکوں کی ماں ہے۔ چاہے وہ لڑکے اس کو مار کُٹ کے نکال ہی دیں، پھر مُڑ مُڑ کے ان کے پیچھے جاتا ہے۔ چول بندہ ہے صاحب جی۔ مجھے تو بس بارڈر پر آتے جاتے مل گیا تھا۔ بس جان کو چمٹ گیا روگ بن کے۔ میرا خیال تھا مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔ فٹے منہ میرا بھی۔ بس کھے کھاہدی ہے صاحب جی۔‘‘
چائے ختم ہوئے مدت ہو چکی تھی۔ اب مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ کہانی کس طرف لگے گی۔ گاڑی ایک ہی رفتار سے کھٹا کھٹ چلتی جا رہی تھی۔ کھڑکی سے باہر آسماں بھی نیند کے خمار میں لگ رہا تھا اور ستارے گاڑی کے ساتھ بھاگتے بھاگتے تھک چکے تھے۔
دن نکلا اور گاڑی سارا دن بھی اسی رفتار سے بھاگتی رہی۔ راستے میں تین چار اسٹیشن آئے جہاں صرف چند ریلوے ملازم اور لیویز کے سپاہی اترے اور چند سوار ہوئے۔
شاید ان کی ڈیوٹی اب بدلی تھی۔
صحرا ہی صحرا اور بیچ میں یکساں رفتار سے چلتی گاڑی۔ ہر سُو پھیلا بے آب و گیاہ دشتِ وحشت۔
سارا دن گزرا اور شام کے قریب آخری اسٹیشن آ گیا۔ سرحدی اسٹیشن۔
چھوٹا سا اسٹیشن تھا۔ بس ایک چھوٹا سا کمرہ اسٹیشن کے عملہ کا، ایک سٹور، لیمپ روم اور چھوٹا سا برآمدہ۔ پلیٹ فارم بھی بس اسٹیشن کی سمت اینٹوں کا زمین ہی کی سطح پر بنایا فرش تھا جسے ریلوے والے "گراؤنڈ لیول" پلیٹ فارم کہتے ہیں۔ دوسری طرف بس ریت ہی تھی۔ پٹری بھی بجری کی بجائے ریت پر بچھی تھی۔ چاروں طرف ریت ہی ریت۔
گاڑی رکی تو لوگ اپنا سامان نیچے اتارنے اور پھینکنے لگے۔ بدقت گاڑی سے نکلے کہ تقریباً چالیس گھنٹے کے سفر نے ان کے انجر پنجر ڈھیلے کر دئیے تھے۔ ٹویوٹا سوزوکی اور نسان چھکڑے بہت بڑی تعداد میں ریت کے سمندر پر لنگر انداز تھے جن پر تھکے ہارے مسافر اور ان کا سامان لادا جانے لگا۔ جب کوئی چھکڑا بھر جاتا تو بڑی تیزی سے ریت کے میدان میں جنوب کے سمت بھاگنا شروع کر دیتا جدھر کوئی ڈیڑھ دو کلو میٹر دور چند عمارات کے ہیولے نظر آ رہے تھے۔
کچھ سرکاری محکموں کے لوگوں کو لینے کے لئے سرکاری گاڑیاں آئی ہوئی تھیں اور کچھ پسندیدہ لوگوں کے استقبال کے لئے سرکاری لوگ آئے ہوئے تھے۔
مذکورہ پارٹی کا بھی بڑے رچاؤ سے استقبال ہوا اور دو بڑی سی طاقت ور گاڑیاں ان کا سامان اور انہیں اپنے پیٹ میں اتار کر ریت کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئیں۔ دشت وحشت منتظر تھا۔
مجھے کئی بڑے سرکاری محکموں کی طرف سے رات کے کھانے کی دعوت ملی۔
اصرار پر میں نے ایک مؤثر محکمہ کے افسر کی دعوت قبول کر لی۔
ایک بڑی اور طاقت ور گاڑی کہ صحرا کی ریت میں جس کے چوڑے ٹائروں کو جکڑنے کی جرأت نہیں تھی رات کو مجھے لینے آ گئی۔
پختہ دیواروں سے گھرے وسیع احاطے کے اندر بھاری قیمتی گاڑیوں کی کافی بڑی تعداد نیم تاریکی میں خاموش کھڑی تھی۔ عمارت کے شاندار ہال میں داخل ہوئے تو اِک خیرہ کن جشن کا منظر طلوع ہوا۔
فرش پر دبیز قیمتی قالین اور ان کے اوپر نفیس پتلے گدے بچھا کر فرشی نشستوں کا شاہانہ اہتمام تھا۔ ہفت رنگ نرم و گداز ریشمی گاؤ تکیے لگے تھے۔ ماکولات سے لبالب بھری روپہلی کشتیاں سجی تھیں۔ خوبصورت کٹ گلاس کے جام خوش رنگ مشروب سے لبالب بھرے لہرائے، چھلکائے اور ٹکرائے جا رہے تھے۔ صحن میں کوئلوں پر بھونے جا رہے کبابوں اور دہکتے الاؤ پر بن رہی سجی کی اشتہا انگیز خوشبو روزن و دریچہ و در کی ہر درز سے ہال میں گھسی آتی تھی۔ دور پر دور چل رہے تھے۔ خم پہ خم لنڈھائے جا رہے تھے۔
موسیقی، پینے کی ہر نوع کی مشروبات، کھانے کے رنگا رنگ پکوان اور صنف نازک کے مخمور لہراتے قہقہوں نے راجہ اندر کے دربار کا سماں باندھ رکھا تھا۔ رنگ و نور، مستی و بد مستی۔ قہقہے اور چہچہے سبھی اس طوفان بد تمیزی کا حصہ تھے۔
پھر میں نے دیکھا کہ جو شوگر کی مریضہ تھی اس کے ساتھ، بر سر عام، ایک سفید ریش امیگریشن انسپکٹر لیٹا تھا، جس نے اپنے دونوں پاؤں کے بیچ اس کا ایک شوگر زدہ پاؤں جکڑا ہوا تھا۔ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی سفید داڑھی سے مزین صحت مند گال اس کے شوگر والے پیلاہٹ ملے گہرے گندمی گال کے ساتھ رگڑ رہا تھا۔
اور پھر مجھے وہ بھی نظر آ گئی۔
وہ کہ جسے دو دن سے کئی بار دیکھا تھا۔ جو جانے کیوں یاد رہ جاتی تھی اور یاد آتی تھی۔
چہار سو برپا جشن سے علیحدہ آخری قالین کے ایک کونے میں سہمی سہمی سی پریشان بیٹھی تھی۔ گھٹنوں پہ سر رکھے۔
یہ حیران کن بات تھی کہ وہ کسی شغل کا حصہ نہیں بن رہی تھی۔ پتہ نہیں کیسے اس محفل سے علیحدگی کا اہتمام کئے بیٹھی تھی۔ کس معذوری، کس علت کے بہانے وقتی اجتناب کی اجازت لے کر ایک کنارے ہو سکی تھی۔
میری اور اس کی نظریں چار ہوئیں تو ایک شناسائی کی رمق اس کے چہرے پر لہرا گئی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور جانے کس تعلق سے میرے پاس چلی آئی۔
میں نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
وہ ایک جھجھک کے ساتھ میرے پاس بیٹھ گئی۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔ پھر وہ منمنائی،
’’صاحب! پلیز انہیں سمجھائیں۔ میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔‘‘
مجھے اس کی بات پر فوری یقین آ گیا۔
جیسے کہ میں اسے بہت مدت سے جانتا تھا۔
جیسے وہ جھوٹ کہہ ہی نہیں سکتی اور جیسے کہ اس کا مجھ پر حق تھا۔
میرے سامنے بس ایک ہی رستہ کھلا تھا۔
اب مجھے کچھ نہ کچھ بند و بست بہر صورت کرنا تھا۔
پھر میں نے ان سے بات کی جو مجھے بہت مختلف سمجھتے تھے۔
اُن سے اپنا حصہ مانگا۔
وہ حیران ہوئے اور بخوشی راضی ہو گئے۔
سو میں نے اُسے ساتھ لیا اور باہمی رضا مندی سے بسہولت سرحد پار کروا دی۔
٭٭٭