وہ تین دیہات کے عین وسط میں زمانوں سے چھایا ایک انتہائی شاندار گھنا گھنیرا، چھتنار برگد تھا۔ اس کی موٹی، لمبی اور مضبوط شاخوں نے چاروں طرف ایسا دبیز، نرم اور خواب آور سایہ پھیلا دیا تھا کہ دن کو سورج کی قوی ترین کرن بھی اسے چیر کر زمین نہیں چھو پاتی تھی۔ مانو اُس کے نیچے دن بھی رات ہی تھا۔ چیلوں اور ابابیلوں کا پسندیدہ مسکن۔ کبھی کبھار اپنی لمبی گردن جھلاتے گدھ بھی آ نکلتے۔ ان کی بِیٹوں سے ماحول ہر وقت ہلکی گیلی بو میں بسا رہتا۔ بگولے تخلیق کرتی، جھلساتی گرم دوپہروں اور زرد چاندنی راتوں میں گِدھوں کی چیختی تیز آوازوں سے سناٹا گونج اٹھتا۔ چمگادڑیں چخ چخ کرتیں یا اُلو ہُوکتے۔ ہوائی جڑوں نے اسے جٹا دھاری یو گی سے مُشابہت دے رکھی تھی۔ اُس کے ارد گرد دور دور تک کوئی اور درخت نہیں تھا۔ یوں اس کی ویران تنہائی اُسے انتہائی پُر اسرارفسوں خیز اور وحشت انگیز بنائے ہوئے تھی۔ گاؤں کی کچی سڑک سے بہت دور ہونے کی وجہ سے شب کی تاریک سیاہی میں اس کی پُر اسراریت مزید خوف آگیں ہو جاتی۔
ہر کس و ناکس کو علم تھا کہ اس منفرد، مہیب نباتاتی شاہکار کے نیچے جنات بسیراکرتے ہیں، ان کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں اور عجیب الخلقت، غیر مرئی بھوت بچے نادیدہ مدرسے میں حصول علم میں مشغول رہتے ہیں۔ اس روایت پر یقین ہی کی وجہ سے شاملات دیہہ ہونے کے باوجود یونین کونسل کے کسی لالچی اہلکار نے کبھی جرأت نہیں کی کہ اسے کاٹ کر بیچ کھائے۔ جنات سے ٹکر کوئی احمق ہی لے سکتا تھا۔ لوگ دن کو عموماً اس سے کترا کر گزر جاتے اور رات کو تو اس سمت کوئی بہت فاصلے سے بھی گزرنے کی جرأت نہ کرتا۔ گویا اس شہنشاہ کی ایک اَن دیکھی بادشاہت تھی جو اس علاقے میں قائم تھی۔ یہ تصرف مستند اور متفقہ، قطعی اور غیر متنازعہ تھا۔
گاماں میراثن کا نام جس نے بھی غلام بی بی رکھا ہو گا اُس نے زیادہ غور و فکر نہیں کیا ہو گا۔ اُس کی ملاحت، گھڑی گھڑائی شکل، سیاہی مائل پتلے ہونٹ ترشی ہوئی سُتواں ناک اور شب دیجور کا جمالیاتی اسرارلئے بڑی بڑی شرارتی آنکھیں غلاموں کی سی نہیں تھیں۔ اس کی تیکھی سلونی ناک پرد مکتا چاندی کا کوکا کسی مہکتی سرمئی شام میں اظہار کے طالب اوّلین ستارے جیسا ہی تھا۔ جب وہ جوانی کی دہلیز پر پہنچی تو کَسی ہُوئی کمان نکلی۔ اُس کے جنگلی، بے پروا اور بے عیب جسم میں کوئی کمی نکالی نہیں جا سکتی تھی سوائے گہرے گندمی رنگ کے، جو خامی کی بجائے خوبی بن گیا تھا۔ اس کے ناگن جیسے بل کھاتے لمبے بال، بنا دیکھ ریکھ کبھی چوٹی میں گُندھے، کبھی کھُلے، جہاں جھولتے، نظر وہاں ٹکتی نہ تھی۔ وہ جاٹوں کے محلے سے گزرتی تو گھبرو خواہ مخواہ ڈھولے ماہیے اور ٹپے الاپنے لگتے۔ گاماں جتنی مقناطیسی تھی اتنی ہی طرار اور طرح دار بھی تھی۔ نہ تو کوئی اشارہ سمجھتی نہ منت ترلے کا اثر لیتی۔ اگر ذرا بھی نرمی دکھاتی تو جاٹوں کے سانڈ جیسے کڑیل جوان چھوکرے اُسے ڈکار گئے ہوتے۔ لیکن ہاں ایک مقام تھا جہاں وہ رہ جاتی تھی اور وہ تھا نمبر داروں کا اچھو۔
اچھو بھی تو اپنی مثال آپ تھا۔
پیراندتے نمبردار کی اکلوتی اولاد۔
چھ فٹ سے نکلتا قد، چوڑی چھاتی، بھاری کالی سیاہ مونچھوں کے اوپر پتلی ناک اور سفیدی گھلا گلابی رنگ۔
دور نزدیک کے ہر گاؤں کے میلے کی کبڈی میں اچھو اچھو ہوتی۔
’’نی گاماں! اچھو فیر جِت گیا ای کل کوڈی نویں پنڈ دے میلے والی‘‘
گاماں کی سہیلیاں مزے لیتیں۔
’’تو میں کیا کروں؟
گاؤں کی شان بنی ہے تو میں بھی خوش ہوں اور گاؤں بھی خوش۔ مجھے کونسا اس نے اپنی سردائی میں سے آدھا گلاس دے دینا ہے۔
اور شامت آئے گی اَبّے کی۔ اور رگڑے گا بادام تے خشخاش۔ چہار مغز تے گوند کتیرا۔ نکی لاچی پا کے ۔۔ ۔ ہور کرے گا مالشاں۔‘‘
جب بھی وہ اٹھکیلیاں کرتی، آدھی چلتی آدھی اڑتی رنگیلی بڑی بیٹھک کے سامنے سے گزرتی تو جان بوجھ کر چوری سے اُدھر دیکھتی۔ اچھو سے ٹاکرا ہوتا تو انجانی خوشیاں برقی رو بن کر اُس کے جثے میں کوند جاتیں۔ اُس کا رُوّاں رُوّاں بج اُٹھتا اور وہ خود کو لال سائیں کے اک تارے کی کَسی ہوئی تار محسوس کرتی جو انگلی کے ایک اشارے کی منتظر کہ مس ہو اور سُر بکھیرنے لگے۔ اور اچھو بھی تھا تاروں میں چاند۔ نجیب الطرفین۔ سونا اگلتے مربعوں کا اکلوتا وارث، بانکا سجیلا، پنڈ کی شان، مردوں کا مان تو گوریوں کا گوپی۔ اپنی اس حیثیت کا پورا پورا ادراک رکھنے والا۔ گاماں کی مقناطیسی سوئی اس کے قُرب سے تھرتھراتی اور اسی کی اَور جا رکتی۔ کچھ تو تھا کہ اچھو کا سارا بانکپن گاماں کے آبنوسی، تراشیدہ بدن کی قربت سے سلگنے لگتا۔ اسے اپنی برنائی کی بے کراں طاقت سمٹ کر قلب میں مجتمع محسوس ہوتی جو گاماں کے شرر بار حسن میں تحلیل ہونے کے لئے تیار رہتی۔
’’تجھے کیا نکالنا ہے مجھ سے اچھو جی! میں ڈومنی، تُو نمبر دار کا پتر نمبر دار۔ اُچے شملے۔ کیا کمی ہے تیرے پاس کسی بھی چیز کی؟ لڑکیاں ایک جھلک دیکھنے کو سو سو بہانے کرتی ہیں۔ نہ اپنا پینڈا کھوٹا کر نہ مجھے امتحان میں ڈال۔ شاواشے۔ اپنی اپنی قسمت اپنا اپنا نصیب۔
پھُپھی آئی تھی نویں پنڈوں اسلم کے لئے رشتہ مانگنے۔ اَبّے نے نہ ہاں کی نہ ناں۔ تانگہ منگوایا، نیا سوٹ دیا اور تانگے میں بٹھا لاری اڈے چھوڑ آیا۔ میری طرف واپس آیا تو آنکھیں گیلی تھیں اُس کی۔ نہ روٹی کھائی نہ حویلی گیا۔ وڈّے نمبر دار نے شوکے کو بھیج کر بلایا تو نہ کر دی۔ بولا تاپ چڑھا ہوا ہے۔ صحن کے کونے میں ننگی چارپائی پر دیوار کی طرف منہ کئے پڑا رہا- میں کپڑے دھوتی رہی، اپنے منہ دھیان۔ کبھی کبھی چوری چوری پیچھے سے دیکھتی تو لگتا اُس کی پشت بھی رو رہی ہے۔ پر اچھو تیری سوہنی جوانی کی قسم، کبھی اِک لفظ نہیں بولا اَبّے سے کہ مجھے کیا چاہئے۔ اَبّے کی آگ تیرے میرے دیکھنے کہنے سے بہت گہری لگی ہے۔ کبھی کبھی مجھے پورا یقین ہو جاتا ہے کہ اَبا اللہ کا بندہ ہے۔ اُس کے آگے اندر بھی باہر ہے۔ اچھو! تجھے میری مجبوری کی قسم بچ جا۔ نہ تین جانیں مار۔ میرے اَبّے پہ ترس کھا۔ بھلے بندے، یہ ہزاروں بار کی دوہرائی بالی جٹی کے تھیٹر کی کہانی نہ دوہرا۔ نہ دوہرا۔‘‘
وقت بھی ایک بدمست لہریں مارتا دریا ہے۔ بے پروا اور منہ زور۔ دائیں بائیں کاندھے مارتا گُزرتا ہی چلا جاتا ہے۔ سو یہ ہوا۔
گاماں کے باپ بگّے میر عالم نے کبھی بات نہیں کی۔ گاماں کبھی اِک لفظ نہیں بولی۔ اچھو کی تو رہنے ہی دیں۔ اپنی شہہ زور جوانی میں بد مست، اس بڑھتے، ابلتے کینسر کو معمول جان کر یوں پالتا جیسے سانسوں کا حصہ ہو۔ آئے آئے تو آئے پر کبھی نہ جتائے، جو جائے تو سب جائے۔ عجب تکون بنی تھی۔ بڑی غیر فطری اور منفرد۔ جو سربسر مشغول تھے وہ جیتے تھے اور جو باہر تھا وہ اندر ہی اندر مر رہا تھا۔ کبھی آسمان کو تکتا تو کبھی زمین کریدتا۔ اس کے اندر کوئی کالی بلی مر رہی تھی۔ بلکہ مر چکی تھی اور اب آہستہ آہستہ گل سڑ کر بو دینے لگی تھی، جو دُوسروں کو بھی سانس سانس احساس دلا رہی تھی کہ کچھ ہے جو مر رہا ہے، گل رہا ہے۔ سڑ رہا ہے۔ ’’اچھو! تم نے دیکھا ہے سوکھا لگی ٹاہلی کی طرح مرجھاتے ہوئے اَبّے کو۔ یہ کیا ہو رہا ہے اُس کو؟ مانو بالکل خالی ہو رہا ہے اندر سے۔ کھوکھلا اور ہلکا۔ جیسے دیمک اندر ہی اندر سے چاٹ رہی ہو۔ کڑیل، شہتیر جیسا بندہ ڈولتا پھرتا ہے۔ اچھو مجھے ڈر لگتا ہے اَبّا کہیں آگے ہی نہ نکل جائے‘‘ ۔
اچھو اس کے سفید دانتوں کی نورانی لکیر کو روکتا، کیف میں ڈوبتی سسکاری بھرتا، ’’کچھ نہیں ہوتا چاچے بگے کو۔ نمبر دار کا ہتھ ہے اس کے اوپر۔ بڑا رسوخ ہے۔ میرا اَبا بھی بوڑھا برگد ہے۔ گامو! ۔ تیرا اَبا میرے اَبّے کی چھتر چھاؤں میں ہے۔ اسے ستّے ای خیراں ہیں۔‘‘
جلتا بھنتا اساڑھ آدھا گزر چکا تھا۔ گرمیاں جو بن پر تھیں۔ اس دن پتہ نہیں کیا غضب ہوا کہ مٹی اڑاتی لال آندھی چاروں طرف سے چڑھ دوڑی۔ وا ورولے (گرد باد) سلگتی گرم دوپہر کی ساری گرمی چوس کر زمین سے اٹھتے تو گھمن گھیریاں کھاتے آسمان تک پہنچتے۔ گندم کی کٹی فصل کی ناڑیاں، پرانے اخبار، پوھلی کے کٹے زرد خاردار جھاڑ، خشک پتے اور ٹہنیاں، کپڑوں کی غلیظ بوسیدہ دھجیاں اور چیل کوؤں کے مُردار پر، جو بھی راستے میں آیا واورولوں نے پکڑا اور چکریاں دے کر آسمان پر چڑھا دیا۔ ہوا کا غصہ کم ہوا تو کثیف، مٹ میلے و سیاہی مائل بادل چاروں اور سے پہنچے اور گاؤں بھاگل پور پر چھا گئے۔
بارش جو ٹوٹ کر برسی تو ہر طرف جل تھل ہو گیا۔ بارش نے اس وقت تک رکنے کا نام نہیں لیا جب تک ایک چوتھائی بھاگل پور کچی مٹی کا ڈھیر نہ بن گیا۔ غریبوں کے کچے پکے گھروں کی کچی دیواریں گارا بن کر درختوں کے نا تراشیدہ تنوں سے بنائے گئے شہتیروں کے نیچے بیٹھ گئیں۔ گیلے بھیگے، کانپتے سہمے، بڑے چھوٹے سب گاؤں کی واحد پختہ مسجد میں جمع ہونے لگے۔ جانوروں کو کھول دیا گیا۔ کوئی گائے، بھینس، بچھڑا، بکری، گدھا تک باہر کو نہ بھاگا۔ بچی کھچی کچی دیواروں کی اوٹ میں سب جانور اکٹھا ہونے لگے۔
اس رقص باد و باراں کے بعد بادلوں نے مشرق کی سمت، نیچے ہی نیچے، تقریباً زمین کو چومتے ہوئے یوں بھاگنا شروع کیا جیسے کوئی مہیب خلا انہیں پوری قوت سے اپنی سمت کھینچ رہا ہو۔ چند ساعتوں میں سارا آسمان بالکل صاف اور گہرا نیلا میدان ہو گیا۔ گاہے گاہے بادل کا کوئی چھوٹا آوارہ ٹکڑا آتا اور اپنے لشکر کے تاراج کردہ میدان کا جائزہ لیتا رہ جاتا۔ تیز چمکیلی نوکیلی دھوپ نکلی تو سلامت چوکیدار کچی گلیوں کے چکنے کیچڑ سے بچتا بچاتا لاٹھی ٹیکتا آ پہنچا۔ بگے کو آگے لگایا اور حویلی لے گیا۔ کافی دیر تک چھوٹی بیٹھک میں نمبردار اور بگے میر عالم کے سوا کوئی داخل نہیں ہو پایا۔ خیر دین اور سلامت اپنی لوہے کی شام والی لٹھیں پکڑے منج کے منجے پر چڑھے ٹانگیں جھُلاتے پہرہ دیتے رہے۔
بڑا تھانیدار چیمہ تشدد کے لئے ضلع بھر میں مشہور تھا۔ غلام رسول فقیر کو جب الٹا لٹا کر اسے اپنے ہاتھوں سے خود چھتر مارے تو اُس کی چیخیں آدھے گاؤں والوں نے سنیں۔ دینُوں اوڈھ کو سردارے والے بڑے شریں کے درخت سے الٹا لٹکایا اور بھول گیا۔ یہاں تک کہ اُس کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر اُبل آئے۔ کوئی مان نہیں رہا تھا کہ اُس طوفانی دن کے بعد چھائی گہری، اندھیری، حبس زدہ رات میں کس نے گاماں کو گلا گھونٹ کے مارا اور کون بگّے کی لاش کو روہی والے پکے برگد پر لٹکا آیا۔ نمبردار نے اپنے سامنے تفتیش کروائی کیونکہ بگا میر عالم اُس کا خاص الخاص پشتینی میراثی تھا۔
کوئی کہتا، بگے نے خود گاماں کو مارا اور اپنی لمبی بھوری چادر برگد کی اونچی ٹہنی سے باندھ کر جھول گیا۔ مولوی صاحب سمیت بیشتر لوگوں کا خیال تھا کہ بگے نے برگد کے نیچے پیشاب کر کے جِنّوں کی دعوت خراب کر دی تھی۔ پھر یہ سب کچھ تو ہونا ہی تھا۔
بگے اور گاماں کی قبریں گاماں کی مرحومہ ماں کی قبر کے دونوں طرف بنائی گئیں۔ مولوی صاحب اور ان کے شاگرد چالیس دن تک پڑھائی کرتے رہے۔
اچھو نمبردار کی شادی پر چاندی کے روپوں کی وہ چھوٹ پڑی کہ کھیت سفید ہو گئے۔ آتش بازی سے سارا گاؤں گلنار ہو گیا۔ پندرہ بکرے اور دو بچھڑے کٹے تو ولیمہ ہوا۔ پورے گاؤں نے دو دِن چولہا جلایا نہ ضرورت محسوس ہوئی۔ رُوپ دھاریوں کی ٹولیاں ہنڈولے جلائے فجر کی اذان تک دھما چوکڑی مچاتیں۔ احمد دین نائی نے اپنے سارے رشتے دار بلوائے تو کہیں جا کر دیگیں پکیں۔ عنایت حلوائی اور اُس کا بیٹا سارا ہفتہ کڑھائی چڑھائے کھویا مار کر برفی اور نرم بالو شاہی بناتے رہے تو گاؤں بھرکا ناشتہ بھگتایا۔ سارے گاؤں نے پورا ہفتہ شادی کا جشن منا کر ریت نبھائی۔
وقت کا دریا بہتا رہا، مدتیں گزر گئیں۔ بوڑھے آسیب زدہ برگد نے بھی کئی موسم دیکھے اور کئی سرد و گرم جھیلے۔ الوؤں، چیلوں، گِدھوں اور چمگادڑوں کی نئی نسلیں آباد ہوئیں۔ گاؤں میں کئی بار سن کے پیلے، اَلسی کے نیلے اور سرسوں کے زرد پھول کھلے پھر سوکھ گئے۔ بیریوں پہ بور آیا، کچے لیس دار بیر پک کے کھجور بنے اور اتر گئے۔ کماد کے سوئے پھوٹ کر گزوں لمبے گنے بنے، کٹے، بیلن میں سے گزر کر روؤ اور کڑاہی میں کڑھ کر گڑ بنے۔ کتنی بار سرسوں کی گندلیں نکلیں اور مٹیاروں نے توڑ توڑ کر ساگ گٹھڑیاں بنائیں۔ کتنی ہی بار گاؤں کے کچے کوٹھوں کو تُوڑی ملی سوندھی مٹی سے لیپا گیا۔
مدتوں بعد مجھے گاؤں کی یاد ستائی تو واپس لوٹا۔ زمانہ بدل چکا تھا۔ اسٹیشن کے باہر گاؤں کے لئے تانگہ مل گیا۔ مریل گھوڑی انجر پنجر ہلے یکّے کو جھولتی جھلاتی شام ڈھلے گاؤں کے قریب آ پہنچی۔ گاؤں بہت پھیل چکا تھا۔ بہت سے کھیت کھلیان جنہیں میں پہچانتا تھا آبادی نے نگل لئے تھے۔ گاؤں سے کوس بھر دور وہ بوڑھا برگد جہاں بھوتوں کے بچے مدرسہ لگاتے اور جنوں کے قافلے پڑاؤ کرتے تھے مجھے نچا کھسا ادھورا نظر آیا۔ اس سے زیادہ حیرت یہ دیکھ کر ہوئی کہ جس پُر اسرار مہیب دیو کے آس پاس کوئی پھٹکتا نہیں تھا اُس کے گرد آریاں کلہاڑے لئے خلقت کا ایک اژدہام تھا کہ کلبلاتا پھر رہا تھا۔ بڑی بڑی ٹہنیاں کاٹی جا رہی تھیں اور ٹکڑے کر کے درجنوں بیل گاڑیوں میں لادے جا رہے تھے۔ پتوں کے انبار تھے جو بیگھہ بھر زمین کو سبز کئے ہوئے تھے۔ گاؤں میں کسی شادی پر عبدل موچی کا لاؤڈ سپیکر پوری قوت سے عالم لوہار کی ’جُگنی‘ کو چھت پر ٹنگے چاروں ہارنوں (بھونپُو) سے دور دور پہنچا رہا تھا۔ میں نے لالو تانگے والے کی طرف حیرت سے دیکھا۔ وہ مسکراتا ہوا بولا، ’’چوہدری صاحب! پورے پینتیس ہزار کا نیلام ہوا ہے بوڑھا برگد۔ دس گاؤں میں ڈھول بجا کر مُنادی کر کے بولی لگی۔ اس پیسے سے یونین کونسل کا نیا دفتر بنے گا‘‘ ۔
٭٭٭